Inquilab Logo Happiest Places to Work

ثریا طیب جی جن کا تیار کیا ہوا جھنڈا قومی پرچم قرار پایا

Updated: August 15, 2023, 11:26 AM IST | Shafiq Ahmed Melli | Mumbai

پنگلی وینکیا کا تیار کیا ہوا جھنڈا جب کانگریس کا پرچم بن گیا تو گاندھی جی نے قومی پرچم میں تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا تھا

Surayya Tyabji.Photo. INN
ثریا طیب جی ۔ تصویر:آئی این این

ہر ملک کا اپنا ایک جھنڈا ہوا کرتا ہے جس سے اس ملک کی پہچان ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو تحریک آزادی کے رہنماؤں اور دانشوروں نے بھی محسوس کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کی آزادی کیلئےجو دھرنا، آندولن اور تحریکیں چلائی جائیں وہ کسی پرچم کے تلے چلائی جائیں تاکہ یہ فرق واضح ہوسکے کہ یہ ہندوستانی ہیں ۔ یہی وہ وجوہات ہیں جو ترنگے کی تخلیق کا سبب بنیں ۔
  ۱۸۵۷ء میں جب آزادی کی جنگ شدت اختیارکرگئی تو جھنڈے کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی۔ چونکہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے لہٰذا ملک کا جھنڈا ایسا ہونا چاہئے جو تمام مذاہب کے لوگوں کیلئے قابل قبول ہو۔ تاریخ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو دیش کا سب سےپہلا پرچم ۱۹۰۶ء میں بنگال میں تیار ہوا جس میں اوپر کیسری بیچ میں پیلا اور نیچے ہرارنگ تھا۔درمیان میں پیلی پٹی پر وندے ماترم لکھا ہوا تھا اور نیچے ہری پٹی پر ایک طرف سورج تو دوسری طرف چاندتارہ بناہوا تھا جس میں ہندو مذہب کی تشہیر غالب رہی اوراسی وجہ سے وہ فروغ نہ پاسکا۔
 دوسرا پرچم۲۲؍ اگست ۱۹۰۷ء کو بھیکا جی کاما نے بنایا۔ اوپر ہری پٹی بیچ میں پیلی پٹی جبکہ نیچے لال پٹی بنی ہوئی تھی۔ یہ جھنڈا بھی مقبولیت سے دورہی رہا اور عروج نہ پاسکا۔ بابائے قوم گاندھی جی قومی پرچم کے تئیں کافی فکر مند رہا کرتے تھے اور ایک قابل قبول جھنڈے کے متلاشی تھے۔ چنانچہ انہوں نے مشہور آرٹسٹ پنگلی وینکیا کو یہ ذمہ داری دی کہ تم ایک ایسا پرچم بناؤ جس میں لال اورہرا دونوں رنگ ہو اوردونوں رنگوں کے درمیان میں ایک چرخہ بناہوا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جھنڈا جب تیار ہوکر گاندھی جی کے سامنے لایا گیا تو انہیں پسند نہیں آیا، حالانکہ ان کی خواہش کے مطابق ہی اسے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ پھر گاندھی جی نے اسی جھنڈے میں سفید رنگ کا اضافہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ سفیدرنگ کو درمیان میں جگہ دے دی گئی جبکہ اوپر لال اور نیچے سبز رنگ کا انتخاب کیا گیااور چرخہ حسب سابق درمیان ہی میں رہنے دیا گیا۔ ۱۹۳۱ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے اس پرچم کو منظوری دے دی ۔ پھر ۱۹۳۱ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک یعنی ۱۶؍ سال تک یہ جھنڈا بطور ہندوستانی پرچم استعمال ہوتا رہا اور اسی پرچم تلے آزادی کی جنگ زور وشور کے ساتھ لڑی جاتی رہی۔ ۱۹۴۷ء میں ہمارا ملک آزاد ہوگیاتو پرچم کا معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں آیا۔ وہ اس طرح کہ ۱۹۳۱ء میں جس پرچم کو انڈین نیشنل کانگریس نے منظوری دی تھی وہ خاص کانگریس پارٹی کا پرچم ہوگیا تھا لہٰذا ا ب نئے سرے سے قومی پرچم کو بنانے کا خیال زور پکڑنے لگا لہٰذا ملک کے قد آور لیڈروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں بابا صاحب امبیڈکر، پنڈت جواہرلال نہرو، مولاناابوالکلام آزاد، مہاتما گاندھی اور بدرالدین طیب جی جیسے اعلیٰ سطح کے لیڈر شامل تھے۔ کمیٹی کے روبرو بدرالدین طیب جی نے بھی اپنی بات رکھی اورکہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے جھنڈے سے چرخہ نکال کر اس کی جگہ اشوک چکر لگا دیا جائے۔ چنانچ ان کی رائے کا کافی احترام کیا گیا اوراسے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا اورمنظوری بھی دے دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے بدرالدین جی کی بیوی ثریا طیب جی کا دماغ کام کر رہا تھاجنہوں نے ایک کاغذ پرپرچم بنایااور درمیان میں اشوک چکر لگادیا تھا۔ اس کو طیب جی نے اراکین کمیٹی کے سامنے پیش کیا تھا جسےقبول کرلیا گیا۔
  یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طیب جی کی بیگم نے جھنڈے میں اشوک کا چکر ہی کیوں منتخب کیا؟ جھنڈے کی خوبصورتی کیلئے اور اسے خوشنما بنانے کیلئے اچھی سے اچھی ڈیزائن سے اسے مزین کیاجاسکتا تھا لیکن ثریا طیب جی نے ان تمام کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اشوک چکر کو ہی کیوں ترجیح دی۔دراصل اشوک چکر میں جو دھاریاں ہیں ان کی تعداد ۲۴؍ ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ہمیں ۲۴؍ گھنٹے وطن کی خدمت کیلئے تیار رہنا ہے۔ دیش کو جب بھی اور جس وقت بھی ہماری ضرورت پڑ ے گی ہم ہمہ وقت اس کیلئے تیار رہیں گے۔یہی وہ اہم نکتہ اور مین پوائنٹ تھا جسے بیگم طیب جی نے محسوس کیا اور اشوک چکر کو ترنگے میں جگہ دی۔ اس سے ان کی زبردست ذہانت بھی عیاں ہوتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اجاگر ہوجاتی ہے کہ اس وقت کی خواتین بھی وطن عزیز کی خاطر کافی کچھ کرنے اور دکھانے کا جذبہ رکھتی تھیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK