Inquilab Logo

مفاہمت اور مصالحت کی راہ

Updated: January 26, 2024, 1:47 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ نے اپنی تنظیم کی ویب سائٹ پر اچھی بات لکھی ہے کہ برسوں کی قانونی لڑائی ثبوت و شواہد دیکھنے اور تمام فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد متوازن فیصلہ سنایا ہے اور اب کڑواہٹ اور ٹکراؤ کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ متوازن ہو یا نہ ہو مگر ملک کا ہر شخص اس کا پابند ہے۔

Babri Masjid. Photo: INN
بابری مسجد۔ تصویر: آئی این این

معاشرہ کئی مذاہب کے ماننے والوں کا ہو یا ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کا، کسی مسئلہ میں اختلاف کا پیدا ہو جانا غیر فطری نہیں ہے مگر اس اختلاف کی بنیاد پر مفاہمت اور مصالحت کی تمام راہوں کو بند کر دینا غیر فطری ہے۔ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا اختلاف پیدا ہوا تو قانونی چارہ جوئی کے ساتھ مفاہمت اور مصالحت کی راہ مسدود ہوگئی تھی اور عدالتی فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا مگر ادھر چند بیانات ایسے آئے ہیں جو اس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ پہلا بیان بی جے پی کے لیڈر اور سابق ایم پی سبرامنیم سوامی کا ہے۔ دوسرا بیان شیوسینا کے ترجمان اور راجیہ سبھا کے ممبر سنجے راؤت کا ہے۔ تیسرا بیان سوامی اوی مکتیشور آنند کا ہے۔ 
 ان تینوں بیانات کا حاصل یہ ہے کہ ’’مندر وہیں بنائیں گے تاریخ نہیں بتائیں گے‘‘ کا نعرہ ضرور دیا گیا تھا مگر موجودہ مندر ۲۲؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو جس کا افتتاح کیا جا رہا ہے شہید کی گئی مسجد کی جگہ سےتین چار کلومیٹر دور بتایا جا رہا ہے (حالانکہ اسے آلٹ نیوز فیکٹ چیک سے وابستہ صحافی محمد زبیر غلط قرار دے چکے ہیں ) اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ نے ملکیت سے دستبردار ہونے کا حلف نامہ نہ دیا ہوتا تو یہ بھی ممکن نہیں تھا۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے تولیت اور ملکیت کا فرق بھی واضح نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ فیصلہ دینے والے جج صاحبان کو جس طرح انعام و اکرام سے نوازا گیا ہے یا جس طرح سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا میں داخل ہوتے ہوئے ’شیم شیم‘ کا نعرہ سننا پڑا تھا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ حکومت نے مندر کی تعمیر کے راستے کی اڑچنوں کو دور کرنے کیلئے وہ سب کیا ہے جو ا س نے ضروری سمجھا۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ نے حلف نامہ دیا بھی تو یہ حکومت کے نامزد کئے ہوئے ایک فرد یا چند افراد کا فیصلہ تھا اس کو فریقین میں مصالحت کیسے کہا جاسکتا ہے۔ مصالحت تو تب ہوتی جب مسجد بھی برقرار ہوتی اور مندر بھی تعمیر کیا جاتا۔ 
 عدالت عالیہ کے فیصلے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات کے تمام دروازے بند ہوگئے اور آئندہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ منادر توڑ کر مساجد بنائی جاتی رہی ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد بنارس، متھرا کی مساجد نئے مسائل کی زد میں آگئی ہیں، کچھ اور مقامات کے بارے میں بھی غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف عدالت عالیہ کے یہ کہنے کے باوجود کہ ۴۹ء میں جس طرح بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی یا ۶؍ دسمبر ۹۲ء کو مسجد توڑی گئی وہ غلط تھا، کسی ’’غلط کار‘‘ کو سزا نہیں دی گئی لہٰذا نئے نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ حکومت کے کہنے پر سنی سینٹرل وقف بورڈ نے اگر کوئی حلف نامہ داخل کیا بھی ہے تو اس کو مصالحت اور مفاہمت بھی نہیں کہا جاسکتا۔ مفاہمت تب ہوتی جب مقدمہ لڑنے یا قانونی چارہ جوئی کرنے والے کسی شخص یا جماعت نے یہ کہا ہوتا کہ ہم مسجد سے دستبردار ہوتے ہیں، اگر کسی مصالحت کی بنیاد پر رام مندر بابری مسجد کی جگہ سے ۳، ۴؍ کلومیٹر دور تعمیر کیا جا رہا ہے تو ۳، ۴؍ کلومیٹر کے درمیان مسجد کیوں نہ تعمیر کی جائے تاکہ انصاف کا تقاضا پورا ہونے کے ساتھ نرسمہا راؤ حکومت کا کیا ہوا وعدہ بھی پورا ہو۔ 
 راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ نے اپنی تنظیم کی ویب سائٹ پر اچھی بات لکھی ہے کہ برسوں کی قانونی لڑائی ثبوت و شواہد دیکھنے اور تمام فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد متوازن فیصلہ سنایا ہے اور اب کڑواہٹ اور ٹکراؤ کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ متوازن ہو یا نہ ہو مگر ملک کا ہر شخص اس کا پابند ہے۔ کوئی مسلمان یا کوئی دوسرا شخص اب مندر کے بارے میں کچھ کہتا ہے تو غلط ہوگا مگر کوئی اور شخص اب بھی کہتا ہے کہ منادر توڑ کر مساجد بنائی گئی ہیں یا ۴۹ء میں یا ۹۲ء میں جو کیا گیا..... صحیح تھا تو ایسا کہنا بھی غلط ہوگا۔ ۶؍ دسمبر کو اپنے غم کو بیان کرنا تو صحیح ہوگا کہ سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ جس طرح مسجد شہید کی گئی وہ غلط تھا مگر ’وجے دیوس‘ منانے کا جواز نہیں نکالا جاسکتا۔ 
 رام مندر کا احاطہ ۳۸۰؍ فٹ لمبا، ۲۵۰؍ فٹ چوڑا اور ۱۶۱؍ فٹ اونچا ہے۔ اس میں ۴۴؍ دروازے اور ۳۹۲؍ ستون ہیں۔ اس کی ہر منزل ۲۰؍ فٹ اونچی ہے۔ رام مارگ، سرجو ندی اور لتامنگیشکر چوک پر ایسے پوسٹر لگائے گئے ہیں جن پر رامائن کے شلوک لکھے ہوئے ہیں۔ ۲۲؍ جنوری کو یہاں یعنی ایودھیا میں ۱۰؍ لاکھ دیپ جلائے جائیں گے مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ۲۵؍ ہزار پولیس اور سینٹرل سیکوریٹی فورس کے جوان اور گیارہ سو سی سی ٹی وی کیمرے اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ مندر احاطے کے پاس ٹاور پر پولیس جوان تعینات ہیں اور مندر کے ساتھ آس پاس کی چھتوں کی بھی نگرانی کر رہے ہیں۔ ۶؍ ایسے اینٹی ڈرون کیمروں کو بھی نصب کیا گیا ہے جن میں کسی بھی ڈرون کو مار گرانے کی صلاحیت ہے۔ بے شک رام مندر یا اس کے افتتاح کی تقریب کا ہی نہیں عام دنوں میں بھی ہر مذہب کی عبادت گاہ کی حفاظت کا انتظام کیا جانا چاہئے۔ مگر حفاظت کے نام پر کسی مذہبی مقام کو پولیس تحویل میں دے دینا اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ 
 ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو مسجد شہید ہونے کے بعد اس وقت تک کانگریسی حکومت کے وزیر اعظم نرسہما راؤ کی پولیس اور انتظامیہ مسجد کی جگہ پر خیمہ اور مورتی نصب کررہی تھی کہ اتنی دیر میں تو ہندوستان کی مسلح افواج کئی ملکوں کو فتح کرسکتی تھیں۔ آج گیان واپی مسجد محصور ہے یہاں کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس وقت دو مسائل بہت اہم ہیں۔ پہلا مسئلہ تمام ہندوستانیوں کا ہے کہ ہر مذہب کے لوگ اپنی عبادت گاہوں میں بے خوف عبادت کرسکیں دوسرا مسئلہ مسلمانوں کا ہے کہ وہ اس حی و قیوم کو بھولے ہوئے ہیں جو ظلم اور ناانصافی کرنے والوں کو ناپسند کرتا اور اپنی شخصیت کو سر بلند کرنے کے لئے حق کو سرنگوں کرنے والوں کو بھی منہدم کرتا ہے۔ یہ دونوں مسائل حل ہوں گے تبھی مفاہمت اور مصالحت کی راہ ہموار ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK