Inquilab Logo

ماضی کے ذریعہ بھی حال کو سمجھا جا سکتا ہے!

Updated: January 07, 2024, 9:09 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ پہلا موقع تھا جب ملک میں ویزا کے رہنما خطوط میں کسی خاص مذہبی گروہ کو نامزد کیا گیا۔اس سے اُن صحافتی حلقوں کو تقویت ملی جو پہلے ہی ایک مشن چلا رہے تھے اور کووڈ کے پھیلنے کا سبب جماعت کو ٹھہرا رہے تھے۔

Sometimes it is necessary to remember the past to understand the present. Four years ago, in March 2020, Tablighi Jamaat members united in Delhi.Photo: INN
کبھی کبھی حال کو سمجھنے کیلئے ماضی کو یاد کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ چار سال پہلے، مارچ ۲۰۲۰ء میں تبلیغی جماعت کے اراکین دہلی میں یکجا ہوئے تھے۔ تصویر : آئی این این

کبھی کبھی حال کو سمجھنے کیلئے ماضی کو یاد کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ چار سال پہلے، مارچ ۲۰۲۰ء میں تبلیغی جماعت کے اراکین دہلی میں یکجا ہوئے تھے۔ جماعت کا اجلاس ۱۰؍ تا ۱۳؍مارچ ہونا تھا جو پہلے سے یعنی کووڈ کی وبا پھیلنے سے بہت پہلے سے طے تھا۔ اجلاس کا وقت وہ تھا جب مودی حکومت خود بھی وبا کے خطرہ سے انکار کر رہی تھی۔ ۱۳؍مارچ کو پی ٹی آئی نے ایک خبر جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کووڈ کی وجہ سے ’’ہیلتھ ایمرجنسی‘‘ نہیں ہے، اس لئے گھبرانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہ خبر وزارت صحت کے حوالے سے جاری کی گئی تھی۔  
 تبلیغی اجلاس اس وقت منعقد ہوا جب عوام کے اجتماع کے تعلق سے سرکاری ضوابط کا اعلان نہیں ہوا تھا۔  یہ اعلان ہوا مگر بعد میں ہوا۔ مارچ کے اخیر میں جب کووڈ کے کیسیز بڑھنے لگے تو حکومت نے شاید یہ ذہن بنایا کہ مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یہی وقت تھا جب میڈیا حرکت میں آیا اور اس نے ’’کورونا جہاد‘‘ کا شوشہ چھوڑا اور طومار باندھا۔ حکومت حرکت میں آئی۔ اس نے تبلیغی اجلاس کی جگہ کو خالی کروانا شروع کیا۔ وزیراعظم نے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کو روانہ کیا۔ ان کی یہ ذمہ داری تھی کہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں سے بات چیت کریں، جو اس سے پہلے کئی دنوں سے یہ چاہتے تھے کہ انہیں وہاں سے بحفاظت نکلنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اتفاق یہ ہوا کہ کووڈ سے اموات کی خبریں اور جماعت کا اجلاس یہ دونوں چیزیں بیک وقت ہوئیں۔ 
  وزارت ِ صحت کی ایک پریس کانفرنس میں وزارت کے جوائنٹ سکریٹری لَو اگروال نے کہا کہ کووڈ کے معاملات بڑھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے اراکین نے ملک کے کئی حصوں میں سفر کیا ہے۔ یکم اپریل کو بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے ٹویٹ کیا کہ تبلیغی جماعت کا اجلاس ’’اسلامی احیاء‘‘ کے مترادف ہے۔ کپل مشرا نے اسے دہشت گردانہ گروپ قرار دیا۔ ۴؍اپریل کو ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے نے یہ تک کہنے سے گریز نہیں کیا کہ ان اراکین کو گولی مار دینی چاہئے۔ واضح رہنا چاہئے کہ تبلیغی اراکین دہلی میں جماعت کے مرکز میں قیام پزیر تھے۔ اترپردیش میں تبلیغیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ان پر این ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔ ۵؍ اپریل کو لَواگروال نے کہا کہ کووڈ کے کیسیز میں تشویش ناک اضافہ اسی گروہ کی وجہ سے ہے۔ اس طرح یہ زہریلا جھوٹ پھیلایا گیا جس کے پھیلاؤ میں کووڈ سے زیادہ تیزی دیکھی گئی۔ ایک ہندی اخبار نے رپورٹ شائع کی کہ بہت سے تبلیغی سہارنپور میں خیمہ زن ہیں جنہوں نے نان ویج غذا کا مطالبہ کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ  لوگ کھلے میں رفع حاجت کے لئے جاتے ہیں۔ بعد میں سہارنپور پولیس نے اس بہتان طرازی کی قلعی کھول دی اور واضح کیا کہ یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ رپورٹ ہٹا لی گئی۔ 
 جن مہینوں میں طومار باندھنے کا سلسلہ عروج پر تھا، تبلیغی جماعت کے اراکین بشمول غیرملکی شہریوں کو جیل میں بند کیا گیااور ان پر عمد قتل کا الزام عائد کیا گیا۔ اُن پر دفعہ ۲۶۹؍ لگائی گئی ، اس کا مفہوم ہے دانستہ یا غیردانستہ ایسا عمل کرنا جس سے انفیکشن پھیلتا ہو اور عوامی صحت کے لئے خطرے کا باعث بنتا ہو۔
 اس دور کی خبریں ہم سب کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہوں گی ۔ جماعت کے بارے میں عجیب و غریب باتیں پھیلائی گئیں مثلاً وہ خود کو (جان بوجھ کر) کووڈ سے متاثر کررہے ہیں ، پھلوں پر پھونکتے ہیں، ماسک پہننے سے انکار کرتے ہیں ، نرسوں کو ستاتے ہیں۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی بات  درست نہیں تھی۔ ٹائم میگزین نے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف جاری اِس   سازش کو موضوع بناتے ہوئے لکھا کہ ہندوستان میں اقلیت میں ہونا کچھ کم پریشان کن نہیں تھا کہ کورونا آگیا۔بی بی سی نے اس سلسلے کی خبر کی سرخی میں لفظ ’’اسلاموفوبیا ‘‘کا استعمال کیا۔ بغیر الزام ثابت کئے اور بغیر کوئی ثبوت فراہم کئے جماعت کے لوگوں کو مستقبل میں ویزا حاصل کرنے لئے ’’بلیک لسٹ‘‘ کردیا گیا۔ جون میں مودی حکومت نے ہندوستان کے لئے ویزا کی درخواستوں کی پالیسی میں ترمیم کی اور اس میں ایک ایسی شق داخل کی جو تبلیغ سے متعلق ہے۔ 
 یہ پہلا موقع تھا جب ملک میں ویزا کے رہنما خطوط  میں کسی خاص مذہبی گروہ کو نامزد کیا گیا۔اس سے اُن صحافتی حلقوں کو تقویت ملی جو پہلے ہی ایک مشن چلا رہے تھے اور کووڈ کے   پھیلنے  کا سبب جماعت کو ٹھہرا رہے تھے۔ درِ پردہ کوشش تھی کہ وبا کو روکنے میں حکومت کی ناکامی موضوعِ بحث نہ بنے۔
 تبلیغیوں اور اس حوالے سے مسلمانوں کے خلاف اس زہریلے ماحول کی جانب سے لوگوں کی توجہ اس وقت ہٹی جب عوامی سطح پر ذہن نشین ہوگیا اور یہ تسلیم کر لیا گیا کہ کورونا غضبناک عالمی وبا ہے جو کئی ذرائع سے پھیلتی ہے۔ ۱۹؍ مئی کو تبلیغی جماعت کے غیر ملکی اراکین نے عدالت سے رجوع کیا تب انہیں اس کورنٹاین سے نجات ملی جو ایک قسم کی حراست تھی۔ یہ رہائی ضرور تھی مگر آزادی نہیں تھی کیونکہ ان ۷۰۰؍ (غیرملکی) اراکین کے پاسپورٹ ضبط ‌کئے گئے تھے اور چاہتے بھی تو سفر نہیں کرسکتے تھے۔ 
 ۶؍ جولائی کو دہلی کے ساکیت کورٹ میں چیف میٹرولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے ۴۴؍ تبلیغی اراکین نے ۴؍ ہزار سے لے کر  ۱۰؍ ہزار تک کا جرمانہ ادا کرنے کا متبادل قبول‌نہیں کیا بلکہ عدالت سے کہا کہ وہ مقدمہ چلائے جانے‌ کو ترجیح دیں گے۔ دسمبر تک جبکہ اس معاملے کو ۸؍ ماہ گزر چکے تھے، ۱۱؍ریاستوں میں ڈھائی ہزار تبلیغی اراکین کے خلاف ۲۰؍ایف آئی آر داخل ہوچکی تھی مگر کسی کے خلاف جرم ثابت نہیں ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ عدالتوں نے حکومت کے اقدامات پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ جج حضرات نے جن الفاظ کا استعمال کیا ان میں بدنیتی، جبر، طریق کار کا متعصبانہ استعمال، اقتدار کا غلط استعمال، قربانی کا بکرا وغیرہ شامل تھے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ پروپیگنڈا کیا تھا، کس لئے تھا، اس‌ کے ذریعہ کیا حاصل کرنا تھا اور اس کا کیا فائدہ اور نقصان تھا، کس کا فائدہ اور کس کا نقصان تھا۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK