Inquilab Logo

جہانِ دانش

Updated: July 20, 2021, 7:35 AM IST | Mumbai

دُنیا میں کم لوگ ہوتے ہیں جن کیلئے اُن کا پیشہ، پیشہ نہیں جنون ہوتا ہے۔ وہ اُس جنون سے پیدا ہونے والی بے سکونی میں سکون پاتے ہیں اور بے آرامی میں آرام۔ اسی جنون کی خاطر دن کو دن نہ سمجھنا اور رات کو رات نہ جاننا اُن کا وصف ِ خاص بن جاتا ہے۔

danish siddiqui.Picture:Midday
دانش صدیقی تصویر مڈڈے

 دُنیا میں کم لوگ ہوتے ہیں جن کیلئے اُن کا پیشہ، پیشہ نہیں جنون ہوتا ہے۔ وہ اُس جنون سے پیدا ہونے والی بے سکونی میں سکون پاتے ہیں اور بے آرامی میں آرام۔ اسی جنون کی خاطر دن کو دن نہ سمجھنا اور رات کو رات نہ جاننا اُن کا وصف ِ خاص بن جاتا ہے۔ سفر ہو یا حضر، یہی جنون اُن کا ہمدم ہوتا ہے جو اُنہیں خطرات سے بے خوف کردیتا ہے چنانچہ وہ دوسروں کی زندگی کے مسائل ومصائب کو اُجاگر کرنے اور منظر عام پر لانے کیلئے اپنی زندگی کی پروا نہیں کرتے۔
  ’’رائٹر‘‘ سے وابستہ فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی ایسے ہی مایہ ناز ہندوستانی صحافی تھے۔ وہ قندھار میں محاذِ جنگ سے تصویری رپورٹنگ میں مصروف تھے کہ بیک وقت کئی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اب تک یہ راز فاش نہیں ہوسکا ہے کہ وہ کون تھا جس نے دانش کو مارنے کی بزدلی کا مظاہرہ کرکے اپنی نام نہاد بہادری کو طشت از بام کیا ہے مگر یہ راز، راز نہیں ہے کہ دانش کے قاتل جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود اُن کی جرأت مندانہ صحافت سے خائف تھے۔ 
 جب یہ اطلاع عام ہوئی کہ دانش نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی ہے تو چہار جانب سے تعزیتی تاثرات اور پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا جس سے ثابت ہوا کہ دانش کو ذاتی طور پر اتنے لوگ نہیں جانتے تھے جتنے اُن کی تصویروں کے ذریعہ متعارف ہوئے تھے۔ دانش نے اپنی ہر تصویر انسانی زاویئے سے کھینچی اور انسان ہی کو مرکز و محور بنایا۔اپنے بارے میں اُن کا یہ کہنا کہ ’’میں عام آدمی کیلئے فوٹو گرافی کرتا ہوں (I shoot for the common man) ان کے بارے میں قائم کی جانے والی رائے کی توثیق کرتا ہے۔ وہ چاہے روہنگیاؤں کی تصویریں ہوں یا سی اے اے مخالف مظاہروں کی، ہانگ کانگ کے احتجاج کی ہوں یا نیپال زلزلہ کی، دہلی فسادات کی تصویریں ہوں یا افغان جنگ کی، اُن کا کیمرہ احساسات کو چھو‘ لینے والی عکاسی کرتا تھا۔ خلیج بنگال کے بھیگے ہوئے ساحل پر سر جھکائے بیٹھی ایک خاتون، جو پیکر رنج و غم بنی ہوئی ہے، کے بارے میں اگر واضح نہ کیا جاتا کہ یہ روہنگیا ہے تب بھی اُسے بآسانی پہچان لیا جاتا۔ اُس کی مظلومیت کسی وضاحت کی محتاج نہیں تھی۔ یہ تھا دانش کا کمال۔ کووڈ۔۱۹؍ سے ہونے والی اموات اور ان سے پیدا شدہ ایک عظیم انسانی سانحہ کی تصویریں بھی دانش کی صحافتی جرأت اور بے باکی کا ثبوت تھا جس نے دُنیا کو اس المیہ کی سنگینی سے واقف کرایا۔ ’’رائٹر‘‘ جیسی عالمی شہرت یافتہ ایجنسی سے اُن کی وابستگی بذات خود اُن کی کامیابی کا ثبوت تھا مگر فن سے لگاؤ، پیشہ جاتی فرائض کی بحسن و خوبی انجام دہی کا عزم اور خطرات کی پروا نہ کرنے بلکہ خطرات سے کھیلنے کے وصف نے اُنہیں   ’’رائٹر‘‘ کی ٹیم کا اہم حصہ بنادیا تھا۔ ۲۰۱۸ء میں پولٹزر کیلئے اُن کا انتخاب کرنے والی کمیٹی نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اُنہی کی تصاویر تھیں جن کے ذریعہ روہنگیاؤں پر ہونے والے ہولناک تشدد کو صحیح طریقے سے محسوس کیا جاسکا تھا۔ پوری دُنیا میں لاکھوں فوٹوگرافر ہیں مگر ان میں دانش کو ملنے والی کامیابی غیر معمولی ہے۔ 
 دانش کو جاننے والوں میں، خواہ جامعہ ملیہ میں اُن کی طالب علمی کے دورکے ساتھی ہوں یا پیشہ جاتی زندگی کے رفقائے کار، ہر ایک نے اُن کی شرافت، نیک دلی، نرم گفتاری اور جذبۂ تعاون کی ستائش کی۔ وہ ان صفات سے متصف نہ ہوتے تو شاید اُن کے فن میں وہ کیفیت اور جاذبیت نہ پیدا ہوتی جس نے رائٹر کو اُنہیں اپنی ٹیم میں شامل کرنے پر آمادہ کیا اور پولٹزر کو پُروقار ایوارڈ دینے پر۔   n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK