تکنالوجی کے اِس دور میں الفاظ سے انسانی تعلق کم ہوتا جارہا ہے۔کہا نہیں جاسکتا کہ نیا مواصلاتی اسلوب و نظام ہمیں کہاں لے جائیگا۔ ممکن ہے وہ دور آئے کہ لفظ کی ضرورت ہی نہ ہو (گوکہ یہ ممکن نہیں ہے) مگر ایسی مشینیں تو ایجاد ہورہی ہیں کہ جو کچھ آپ سوچیں گے وہ خودبخود تحریر میںڈھل جائیگا!
فیروزاللغات ’’سوا لاکھ سے زائد قدیم و مروجہ الفاظ، مرکبات، محاورات، ضرب الامثال اور علمی، ادبی و فنی اصطلاحات‘‘ پر مشتمل ہے۔ نور اللغات میں ۷۸؍ ہزار اور فرہنگ ِآصفیہ میں ۶۰؍ ہزار الفاظ ہیں۔ مہذب اللغات بھی مستند لغت ہے مگر یہ مضمون نگار اِس لغت میں موجود الفاظ کی تعداد معلوم نہیں کرسکا۔ اس کے علاوہ بھی اُردو میں کئی لغات ہیں مگر جدید تر ترتیب اور اضافوں کے ساتھ اِن میں سے بیشتر کی آخری طباعت اب سے چالیس سال پہلے ہوئی تھی۔ اس کے بعد کوئی ایڈیشن کم از کم ہمارے ملک میں تو شائع نہیں ہوا (اگر ہوا ہو تو یہ مضمون نگار اپنے علم میں اضافہ کرکے خوش ہوگا)۔ اِس کا معنی یہ ہے کہ پچھلے چالیس سال میں کوئی نیا لفظ داخل ِ لغت نہیں ہوا۔ اس کے برخلاف، آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے تیسرے ایڈیشن کے بارے میں یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ اس کے مرتبین نیا ایڈیشن تیار کررہے ہیں جس کی تکمیل و اشاعت ۲۰۳۷؍ میں ممکن ہوگی اور اندازہ ہے کہ سالانہ چار ہزار کی شرح سے اس میں نئے الفاظ شامل کئے جائینگے۔ یہاں انگریزی سے اُردو کا موازنہ یا مقابلہ مقصود نہیں، صرف یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اہل اُردو اپنی زبان کے ذخیرۂ الفاظ کے تعلق سے خاموش ہیں اور نئے الفاظ کیلئے لغت کا دروازہ چالیس سال سے بند ہے۔
اس تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ مَیں گزشتہ کئی دن سے انگریزی لفظ ’’لوگوفائل‘‘ (Logophile) کا اُردو متبادل تلاش کررہا ہوں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی ’’آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری‘‘ (مرتبہ شان الحق حقی) میں یہ لفظ نہیں ہے۔ انگریزی میں اس کے متبادل یا ہم معنی الفاظ بھی موجود ہیں۔ وہ ہیں: Verbivore اور Verbophile مگر مذکورہ لغت میں یہ الفاظ بھی نہیں ملے۔ مجھے کف ِ افسوس مَلنا پڑا جبکہ مَیں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ ہماری زبان میں مذکورہ تین ہم معنی الفاظ کی تفہیم کا حق ادا کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہوگا۔ اگر نہیں ہے تو وضع کیا جاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کون کرے گا، کیوں کرے گا، اس کی ضرورت کتنے لوگ محسوس کرتے ہیں اور اگر کوئی لفظ وضع کیا گیا تو اسے قبول بھی کیا جائیگا یا نہیں۔ ممکن ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ مجھے جس انگریزی لفظ کے اُردو متبادل کی تلاش ہے اس کا معنی کیا ہے۔ ’’لوگوفائل‘‘ کا معنی ہے ایسا شخص جسے لفظوں سے محبت ہو، جو لفظوں کا شائق ہو ۔ دیگر الفاظ ’’وربو فائل‘‘ اور ’’وربی وور‘‘ کا معنی بھی یہی ہے۔ انگریزی میں اس کیلئے ایک اور لفظ ’’ورڈ بف‘‘ (Word Buff) استعمال کیا جاتا ہے۔
زمانہ کچھ اس طرح بدل گیا ہے کہ اب کسی بھی زبان کے لوگوں میں نئے الفاظ سیکھنے کا شوق نہیں رہا۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طالب علمی کے دَور میں نئے الفاظ سیکھنے اور سیکھتے رہنے کا جذبہ یا شوق پیدا نہیں کیا جاتا۔ انگریزی جیسی بڑی زبان کے پیچھے پوری مشنری ہے۔ کئی سربرآوردہ ادارے ہیں۔ کئی طباعتی مراکز ہیں۔ ان کے پاس وسائل افراط ہیں۔ ان کا اثرورسوخ بھی غیر معمولی ہے۔ اس لئے اُن کے ہاں پرانے الفاظ کی حفاظت کا بھی نظم ہے اور نئے الفاظ کو رواج دینے کا طریقہ بھی۔ دو ہفتے قبل اس کالم میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح مختلف طباعتی ادارے سال کے اخیر میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اختتام پزیر سال کے دوران کون سا لفظ سب سے زیادہ استعمال میں رہا۔ اس سلسلے میں بطور مثال بتایا گیا تھا کہ ۲۰۲۲ء کا آکسفورڈ وَرڈ آف دی ایئر ’’گوبلن موڈ‘‘ (Goblin Mode) ہے۔ مضمون میں گوبلن موڈ کا معنی بھی نقل کیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد کولنس انگلش ڈکشنری نے ۲۰۲۲ء کیلئے جو لفظ منتخب اور مشتہر کیا وہ ہے: Permacrisis۔ اس کا معنی ہے کسی بحران کا کھنچ جانا اور طول پکڑنا جس کی وجہ سے عدم استحکام اور عدم محفوظیت (عدم تحفظ) کا دور بھی طویل ہوجائے۔ میریم اینڈ ویبسٹر ڈکشنری نے ۲۰۲۲ء کیلئے جس لفظ کا انتخاب کیا وہ ہے: Gaslighting۔ ادارہ کا کہنا ہے کہ عہد حاضر میں جب گمراہ کن اور جھوٹی خبریں عام ہوں اور سازشوں کا جال بُننے والوں کی آبادی بڑھ رہی ہو، لفظ گیس لائٹنگ اہم لفظ بن کر اُبھرا ہے جس کا معنی دوسروں کو گمراہ کرکے اپنا اُلو سیدھا کرنا ہے۔ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ گیس لائٹنگ ۱۹۳۸ء کے ایک ڈراما سے ماخوذ ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ڈرامے کا مرکزی کردار ایک ایسا شخص ہے جو اپنی بیوی کو یہ سمجھانے پر تُلا ہوا ہے کہ اُس کا (بیوی کا) ذہن کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اس کیلئے وہ مختلف حربے آزماتا ہے جن میں سے ایک ہے گھر کی گیس بتی (لائٹ) کو مدھم کردینا۔ جب جب بیوی شکوہ کرتی ہے کہ اس نے گیس بتی کیوں مدھم کردی تب تب وہ کہتا ہے کہ گیس بتی کی روشنی کم نہیں ہوئی بلکہ روشنی کے تئیں اُس کا (بیوی کا) احساس بدل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھرپور روشنی کو بھی مدھم کہنے پر مجبور ہے۔
ہر سال منتخب انگریزی الفاظ کی تشہیر ہوتی ہے اور وہ موضوع بحث بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں، جیسا کہ عرض کیا گیا، نہ تو نئے الفاظ وضع کرنے کا کوئی نظم ہے نہ ہی ہم اُردو لغت کھول کر دیکھنے کے روادار ہیں جن کے الفاظ ہمارا اثاثہ ہیں۔ اس اثاثے سے ناواقفیت ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے جبکہ اگر نئے الفاظ لغت میں شامل نہ ہوں تب بھی ہزاروں پرانے الفاظ بھی اَب ہماری عام بول چال یا تحریروتقریر کا حصہ نہیں بنتے۔ نئے الفاظ سیکھنے کا جذبہ بیدار ہو یا نئی نسل میں ذوق پیدا کیا جائے تو یقین جانئے ہماری بول چال بھی فیض پائے گی اور تحریر و تقریر کا حسن بھی دوبالا ہوگا۔
جب انسان کوئی نیا لفظ سیکھتا ہے تو اس کا محل استعمال بھی اُس پر آشکار ہوتا ہے اور اگر وہ تھوڑی زحمت کرلے تو وہ تفصیل بھی مل سکتی ہے جو دلچسپی کا باعث ہو گی جیسا کہ گیس لائٹنگ کی تفصیل دلچسپ ہے حالانکہ اس کے مفہوم سے واضح ہورہا ہے کہ یہ ایک منفی نفسیاتی حربہ ہے جس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
اس مضمون نگار کی نظر میں مالدار وہ نہیں ہے جس کے پاس مال و اسباب زیادہ ہو۔ مالدار وہ ہے جس کا ذخیرۂ الفاظ وسیع ہو۔ الفاظ سیکھنے کا اشتیاق نت نئی معلومات بہم پہنچاتا اور سرور و کیف پیدا کرتا ہے۔ دو روز قبل اس اخبار کے جمعہ میگزین میں شائع شدہ حمد کا ایک مصرعہ (کہ خاموش ہے سوسن دہ زباں) کے پیش نظر یہ جاننے کی کوشش لطف دے گئی کہ سوسن (آسمانی رنگ کا پھول) کو ’’دہ زباں‘‘ (دس زبانوں والا) کیوں کہا گیا۔ معلوم ہوا کہ اس پھول کی دس پتیاں ایک ہی رنگ کے مختلف عکس دکھاتی ہیں۔ ویسے، دہ زباں اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو ایک بات پر قائم نہ رہتا ہو۔
یہ لفظ وہی برت سکتا ہے جس کا ذخیرۂ الفاظ قابل رشک ہو