Inquilab Logo

یوپی انتخابی نتائج کے چند مثبت پہلو بھی ہیں

Updated: March 22, 2022, 2:39 PM IST | Hassan Kamal | Mumbai

بی جے پی کا ووٹ فیصد کم ہوا ہے اور سماج وادی پارٹی کا ووٹ فیصد بڑھا ہے۔ بی جے پی کی پچاس سے زیادہ سیٹیں کم ہوئی ہیں، جبکہ سماج وادی پارٹی کی ۸۰؍ کے قریب سیٹیں بڑھی ہیں۔ بی جے پی کیلئے اب اسمبلی میں کسی بات کو لے کر بلڈوزر چلانا ممکن نہیں ہوگا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

یہ کالم بھی ہم قارئین کی توقع کے خلاف قدرے تاخیر سے لکھ رہے ہیںاور یہ تاخیر دانستہ طور پر کی گئی ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ حالات کے تمام پہلو سامنے آجانے کے بعد ان پر تبصرہ کیا جائے۔ اب جب کہ تمام حالات سامنے آچکے ہیں، اس لئے اب ایک منطقی تجزیہ اور تبصرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی جیت اور گٹھ بندھن کی ہار کی وجہ یہ ہے کہ ای وی ایم میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کی گئی تھی تو یہ جان لیجئے کہ تھوڑی بہت ای وی ایم کی مشینوں میں اور تھوڑے بہت بوتھوں میں تو گڑبڑ ممکن ہے۔ ای وی ایم انٹرنیٹ سے کنکٹ نہیں ہوتی، اس لئے اسے دور سے اور کسی ریموٹ سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کو بھی کسی طرح سے مطمئن نہیں کیا جا سکا تھا کہ ای وی ایم میں کوئی گڑبڑ کرنا ممکن ہے۔اس لئے گٹھ بندھن کی غیر متوقع شکست کی وجوہات دوسری جگہوں پر تلاش کرنی ہوگی۔ اکھلیش کی ریلیوں اور روڈ شوز میں امنڈنے والی بے مثل بھیڑ اگر ووٹوں میں تبدیل نہیں ہوئی تو اس کی بھی کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ بہار میں بھی یہی ہوا تھا۔ تیجسوی یادو کی ریلیاں ووٹوں میں تبدیل نہیں ہو سکی تھیں۔ بہار میں اس کی وجہ نتیش کی پارٹی اور بی جے پی کا اتحاد تھا،جس نے نتیش کو نقصان اور بی جے پی کو فائدہ پہنچایا تھا۔ یو پی میں اس کی وجہ یہ تھی کہ اکھلیش نے اصل چنائو مہم الیکشن سے صرف تین ماہ پہلے شروع کی تھی۔  مختلف او بی سی پارٹیوں سے بات چیت اور سمجھوتوں کے لئے تین ماہ کا وقت ناکافی ثابت ہوا۔ دوسری طرف بی جے پی کورونا کی پروا  کئے بغیر اپنی مہم چلاتی رہی۔ بتایا جارہا ہے کہ ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسی سیٹیں ہیں جن پر ہار جیت کا فرق دو ہزار سے کم ووٹوںکا رہا ہے۔ ۸۰ ؍سے زیادہ ایسی سیٹیں ہیں جن پر ہار جیت پانچ سو یا اس سے کم ووٹوں سے ہوئی ہے۔ کئی سیٹیں ایسی ہیں جن پر یہ فرق سو یا اس سے بھی کم ووٹوں کا پایا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ مذکورہ سیٹوں پر ہارنے والے صرف گٹھ بندھن کے امیدوار تھے۔ اس طرح ہارنے والوں میں بی جے پی کے امیدوار بھی تھے لیکن ہارنے والوں کی بڑی تعدادبہر حال گٹھ بندھن کے امیدواروں کی ہی تھی۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ان تمام گروپس کو گٹھ بندھن میں لانے کی گفت و شنید کے لئے تین ماہ کا عرصہ بہت کم تھا۔ اس کے علاوہ کچھ گروپس کو قریب لانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔مثال کے طور پر مغربی یو پی میں ساری توجہ مسلم جاٹ ووٹ بینک پر تھی اور یہ ووٹ بینک گٹھ بندھن کے ساتھ ہی رہا۔ لیکن کچھ چھوٹے اور با اثر گروپس ساتھ نہیں لئے گئے۔ ان میں کشیپ، گوجر اور سینی برادریاں خصوصاََقابل ذکر ہیں۔ اب یہ بات طے ہے کہ جاٹو ووٹ بڑی تعداد میں بی جے پی کی جھولی میں گرے۔ لیکن اس کو صرف یہ کہہ کر ٹال دینا درست نہیں ہوگا کہ مایاوتی نے گٹھ بندھن کو دھوکہ دیا۔ اکھلیش سے ان کا ۲۰۱۷ء میں سمجھوتہ تھا۔ اس بارا ن کا کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں تھا،اس لئے دھوکہ دینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جب سے مرکزی ایجنسیوں نے مایاوتی کا پیچھا کرنا شروع کیا ہے اور ان کا کم از کم سو کروڑ روپےمنجمد کر رکھا ہے، تب سے مایاوتی سخت خائف ہیں اور ان کے سیاسی حوصلے پست ہوچکے ہیں۔ اس خطیر رقم کی بازیابی کی خواہش نے انہیں بی جے پی کا کھیل کھیلتے رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ انہوں نے کئی ایسے معاملات میں بھی بی جے پی کی ہمنوائی کی ، جس کی کانشی رام کی جانشین سے امید بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایک اور غلطی یہ کی گئی کہ جاٹو سماج کے ایک نئے اور ابھرتے ہوئے لیڈر چندر شیکھر آزاد راون کو،جن کا مغربی یوپی کے کئی اضلاع میں اچھا خاصا اثر ہے، نہایت توہین آمیز طریقہ سے گٹھ بندھن میں شامل کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ دوسرے سب کو معلوم تھا کہ مغربی یوپی کے کئی اضلاع میں بی ایس پی کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ گٹھ بندھن کی ساری توجہ جاٹواور مسلمانوں پر ہی رہی،  ان دلتوں پر نہیں رہی۔ شاید یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ سب تو بہن جی کے ساتھ ہیں اور چونکہ بی ایس پی نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کر رکھے تھے، اس لئے یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ سب ان ہی کو ووٹ دیں گے، گٹھ بندھن کو نہیں۔ حالانکہ ان میں سے ایک بڑی تعدا دیہ دیکھ کر کہ بی ایس پی کا کوئی چانس نہیں ہے گٹھ بندھن کو ووٹ دے سکتے تھے۔ لیکن گٹھ بندھن ان کے پاس پہنچا ہی نہیں۔ اس لئے جب بہن جی کی طرف سے یہ اشارہ ملا کہ وہ سب سماج وادی پارٹی کے بجائے بی جے پی کو ووٹ دیں تو ان دلتوں نے ان کی بات مان لی۔ در اصل دلتوں اور یادو سماج کے مابین مخاصمت کی داستان کافی پرانی ہے۔ ورن کا نظام تو رشی منو کی اختراع تھا اور شودروں کو بالکل پائوں تلے رکھنے کی ہدایت بھی منو وادیوں نے مانی تھی۔اس کی وجہ سے دلتوں پر صدیوں ایسے مظالم کئے گئے، جن کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ان میں دلتوں کے سائے سے بھی بچنا اور دلتوں کو چھونے سے بھی بچنا جیسی انسانیت سوز ہدایات بھی شامل تھیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ قوانین بنائے تو منو وادیوں نے ، لیکن  ان پر عمل زیادہ تر او بی سی طبقات نے کیا یا ان سے کروایا گیا۔ ان میں یادو برادری سب سے آگے تھی۔ بی جے پی نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور دلتوں کو یقین دلا دیا کہ ان پر اگر منو وادیوں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں تو یادوؤں نے بھی کچھ کم مظالم نہیں کئے ۔ 
    ان غیر متوقع نتائج کے تمام پہلو تاریک اور منفی نہیں ہیں۔ کچھ پہلو مثبت اور روشن بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اس حقیقت سے بی جے پی بھی انکار نہیں کر سکتی کہ اس کا ووٹ فیصد کم ہوا ہے اور سماج وادی پارٹی کا ووٹ فیصد بڑھا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کی پچاس سے زیادہ سیٹیں کم ہوئی ہیں، جبکہ سماج وادی پارٹی کی ۸۰؍ کے قریب سیٹیں بڑھی ہیں۔ بی جے پی کیلئے اب اسمبلی میں کسی بات کو لے کر بلڈوزر چلانا ممکن نہیں ہوگا۔ ہمیں وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب نارائن دت تیواری یوپی کے چیف منسٹر اور ملائم سنگھ یادو لیڈرآف اپوزیشن ہوا کرتے تھے۔ جس دن ملائم سنگھ کا بھاشن ہونے والا ہوتا تھا، اس دن کانگریس کی صفوں میں گھبراہٹ پھیل جایا کرتی تھی۔ اب بی جے پی کیساتھ بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے۔دوسرے موجودہ اسمبلی میں پچھلی اسمبلی کے مقابلہ میں مسلمان ممبروں کی خاصی بڑی تعداد ہے۔اب مسلمانوں کے مسائل پر دھاندلی آسان نہیں ہوگی۔ خبروں کے مطابق ڈاکٹر کفیل خان سماج وادی پارٹی کی طرف سے کونسل کے امیدوار ہیں۔ یعنی یو پی اسمبلی میں اعظم خان اور ان کے بیٹے کے علاوہ ایک اور با اثر اور معتبر آواز بھی مسلمانوں کی نمائندگی کرے گی۔ڈاکٹر کفیل نے سرعام یہ کہہ کر کہ ’’میں نہ مودی سے ڈرتا ہوں، نہ یوگی سے ڈرتاہوں‘‘ سبھی کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK