Inquilab Logo

عام بجٹ سے خوش کم اور مایوس زیادہ لوگ ہوئے ہیں

Updated: February 07, 2023, 1:51 PM IST | Mumbai

اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ ہی ملک کے دانشور طبقے کا بھی یہی خیال ہے کہ اس میں غریبوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو بری طرح انداز کیا گیا ہے

Before presenting the budget, Finance Minister Nirmala Sitharaman with her deputy ministers and officers
بجٹ پیش کرنے سے قبل وزیرمالیات نرملا سیتا رمن اپنےمعاونین وزیروں اور افسر وں کے ساتھ

نام بڑے اور درشن چھوٹے


مودی حکومت کا بجٹ عوام کا بی جے پی پر مسلسل گرتا ہوا اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ بجٹ صرف انتخابات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے، ملک کو ذہن میں رکھ کر نہیں۔اس بجٹ میں سنگین ہوچکے بے روزگاری کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی ہے۔
 مودی حکومت میں ’اچھے دن‘ ملازمتوں میں مواقع دیئے بغیر تلاش کی جارہی ہے۔ بے روزگاری کی  شرح یو پی اے (منموہن سنگھ ) حکومت کے دوران  ۲ء۲؍ فیصد تھی جو اَب بڑھ کر ۸؍ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ ۹؍ برسوں میں ۱۸؍ کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کی بات کہی گئی تھی لیکن نوکری دینے کے بجائے مودی سرکار نے اس دوران کروڑوں نوکریاں چھین لیں۔ سرکاری محکموں اوروزارتوں میں ۳۰؍ لاکھ اسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن  مودی جی چند ہزار تقرری نامے تقسیم کرکے خوش ہورہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ تمام ہندوستانیوں پر فی کس ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا قرض ہے۔
  مہنگائی سے ہر گھر کا بجٹ بگڑ گیا ہے۔ عام بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے روزانہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کوئی کمی آسکے۔ جو گیس سلنڈر کانگریس کی حکومت کے وقت ۴۱۰؍ روپے کا تھا، اس کیلئے اب ۱۱۰۰؍روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں آٹے کی قیمت میں ۴۰؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور دودھ کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ضرورت کی ہر چیز پر ۵؍ فیصد یا اس سے زیادہ کا جی ایس ٹی نافذ ہے۔ 
 اس بجٹ میں دلت، آدیواسی اور پسماندہ طبقات کے فلاح و بہبود کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے حقوق کی حفاظت کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ منریگا کا بجٹ بھی کم کردیا گیا ہے اور کسانوں کو بھی کچھ نہیں دیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ کے اضافے کے بجائے تخفیف کی گئی ہے۔ایسے میں غریبوں کا کیا ہوگا؟  مودی جی کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ان کی حکومت میں روزانہ ۱۱۵؍ مزدور اور ۶۳؍ گھریلو خواتین  خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔
 کل ملا کر مودی سرکار نے ملک کے عوام کا جینا دشوار کردیا ہے۔ ملک کی معیشت کو بھی گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ ایسے میں اس بجٹ کو ’نام بڑے اور درشن چھوٹے‘ ہی کہیں گے۔
 یہ’امرت کال‘ نہیں بلکہ ’مترکال‘ ہے


  مودی حکومت کا یہ بجٹ ’امرت کال ‘ نہیں بلکہ ’متر کال‘ بجٹ ہے جس میں کچھ خاص دوستوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس بجٹ میں روزگار پیدا کرنے کا کوئی ویژن نہیں ہے، نہ ہی مہنگائی سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ  ہے اور نہ ہی عدم مساوات کو دور کرنے کا کوئی ارادہ  ہے۔
 صورتحال یہ ہے کہ ایک فیصد سب سے امیر افراد کے پاس ملک کی دولت کا ۴۰؍ فیصد ہے جبکہ ملک کے ۵۰؍ فیصد غریب لوگ ۶۴؍ فیصد جی ایس ٹی ادا کرتے ہیں۔مودی حکومت کے دوران ۴۲؍فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس   کے باوجود وزیراعظم مودی کو ان باتوں کی کوئی پروا نہیں ہے۔بجٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کے پاس ہندوستان کے مستقبل کی تعمیر کیلئے کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔
تمام وعدے ۲۵؍ سال تک کیلئے ٹال دیئے گئے


 بجٹ کوخواہ کتناہی بڑھا چڑھا کر کیوں نہ پیش کیا جائے لیکن  اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیراعظم مودی کے اقتدار میں۹؍ سال کی وراثت مینوفیکچرنگ، نجی سرمایہ کاری اور روزگار میں  جمود کا شکار رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک اضافی مسئلہ بن گئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر حکومتی اخراجات، اگرچہ کافی ہے، لیکن نجی سرمایہ کاری کی ترقی کی عدم موجودگی کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ ایک کم درمیانی آمدنی والے ملک میں وسائل کی کمی کو دیکھتے ہوئے، حکومتیں صرف اتنا کر سکتی ہیں۔
 نتیجے کے طور پر، ہندوستان اس وقت ایک بڑے تضاد کے درمیان میں ہے جہاں حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے، پھر بھی وہ۸۱؍ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت راشن دینے پر مجبور ہے۔
E اس کے علاوہ، حکومت کو  روزگار کی ضمانت کے پروگراموں کیلئے نسبتاً زیادہ بجٹ مختص کرنا پڑرہا ہے، جسے وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں کی ناکامی کی علامت قرار دیا تھا۔
 اس حکومت کے ۱۰؍ ویں سال کی بجٹ تقریر میں جس ’امرت کال‘  کا بار بارذکر کیا گیا ہے، اس میں صرف باتیں ہی باتیں ہیں۔ اب تمام وعدے  آئندہ ۲۵؍ سال تک کیلئے ٹال  دیئے گئے ہیں، جیسا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے تجویز پیش کی تھی۔ خیال رہے کہ گزشتہ ۹؍برسوں کی نجی سرمایہ کاری اور ملازمت کا ریکارڈ ’امرت کال‘ کے کسی فٹ نوٹ میں بھی درج نہیں ہوگا۔
مودی سرکار کا یہ بجٹ بھی غریب مخالف ہے


  مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنے بجٹ اعلانات میں مشینوں سے گٹروں کی صفائی کی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ صفائی کو ’’مین ہول ٹو مشین ہول‘ موڈ میں لایا جائے گا۔ اپنی بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا تھا کہ گٹروں میں گیس سے ہونے والی اموات کو روکنے کیلئے شہروں کی صفائی میں مشینوں کے استعمال پر توجہ دی جائے گی۔
  لیکن  نرملا سیتا رمن کے اس دعوے ’مین ہول ٹو مشین ہول‘  میںصرف لفظوں کی کاریگری اور بازی گری ہے۔اس کے علاوہ اس کی اور کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس دعوے کے ذریعےگندگی ڈھونے کے رسم کے خاتمے اور گٹروں، سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کو مشینوں سے کرنے کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے، اس میں نہ تو کوئی جواب دہی ہے، نہ ہی کوئی شفافیت ہے۔
 ہمارا خیال ہے کہ مودی حکومت کا یہ بجٹ صفائی ملازمین کے ساتھ ہی مجموعی طورپر غریب مخالف ہے۔ اس میں صفائی ملازمین کی آزادی، ان کی بحالی اور ان کی فلاح و بہبودکیلئے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا ہے، نہ ہی اس مقصد کیلئے کوئی  رقم ہی مختص کی گئی ہے۔یہ  بہت دکھ کی بات ہے اور ملک میں ذات پات کے جبر کی ایک واضح مثال ہے کہ بجٹ میں ان ہندوستانی شہریوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا جو نسلوں سے گندگی ڈھونے کا کام کر رہے ہیں اور اپنی بازآباد کاری کے منتظر ہیں۔ یہ ہمارے سماج کے ساتھ دھوکہ ہے۔ `یہ ایک میکانیکل بجٹ ہے، جس میں انسان اور انسانیت نوازی کا مکمل فقدان ہے۔ ملک  بھرمیں گٹروں کے ٹینکوں میں ہونے والے ہمارے سماج کے لوگوں کے’قتل‘ کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا، جبکہ ہم گزشتہ ۲۶۴؍ دنوں  لگاتار سڑکوں پرگٹروں کی صفائی کے دوران ہونے والی اموات کو روکنے کیلئے ’اسٹاپ کلنگ اَس‘نامی مہم چلا کر حکومت سے اس پر لگام لگانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
 لیکن یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ۱۱؍ مئی۲۰۲۲ء سے ان’ہتیاؤں‘ کے خلاف جاری مہم کے دوران گٹروں کی صفائی کرتے ہوئے۵۰؍ سے زیادہ ہندوستانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن مودی حکومت کو کچھ فرق پڑتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ مرکزی حکومت نہ صرف ان اموات پر پوری طرح خاموش ہے بلکہ ان کے خاندانوں کے تعلق سے بھی اس کی سرد مہری پائی جارہی ہے۔
(  مضمون نگار،صفائی کرمچاری آندولن کے قومی کنوینر ہیں)
 اس میںمنریگا کا بجٹ بھی کم کردیا گیا ہے


 گزشتہ دنوں پیش کئے گئے اس سال کے بجٹ میں مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا) کیلئے مختص رقم کو بھی ڈرامائی طور پر گھٹا کر۶۰؍ہزار کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ رواں مالی سال کیلئے نظر ثانی شدہ تخمینہ ۸۹؍ ہزار ۴۰۰؍ کروڑ روپے تھا جو کہ ۷۳؍ ہزار کروڑ روپوں کے بجٹ تخمینہ سے زیادہ تھا۔نریندر مودی حکومت کے اس پورے دور میں گزشتہ چار بجٹوں کے مقابلے اس سال کی مختص رقم سب سے کم ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کووڈ کی وبا کے دوران دیہی گارنٹی اسکیم  کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
 عظیم پریم جی یونیورسٹی کے محققین کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ منموہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے حکومت کی طرف سے شروع کی گئی اس اسکیم نے وبائی امراض کے دوران آمدنی میں ہونے والے نقصان کی ۸۰؍ فیصد بھرپائی کی تھی۔ اسی سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ اس تعلق سے تمام مطالبات پورے نہیں کئے جاسکے۔ جن علاقوں میں سروے کئے گئے ہیں، ان میں ۳۹؍ فیصدگھرانے ایسے سامنے آئے ہیں جن میں  منریگا کے تحت ایک دن کا کام بھی نہیں مل سکا۔ فنڈز کی کمی کا  مسئلہ پہلے بھی رہا ہے لیکن اب زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اسٹڈی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مزدوروں کی مزدوری کی ادائیگی میں کافی تاخیر ہو رہی ہے۔
 مرکزی حکومت کے ذریعہ پیش کئے گئے بجٹ سے ایک روز قبل جاری ہونے والے ایک بیان میں’پیپلز ایکشن فار ایمپلائمنٹ گارنٹی‘ نے کہا کہ تنخواہوں میں مہنگائی کی بنیاد پر نظر ثانی کی جانی چاہئے تاکہ موجودہ کمی کو پورا کیا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کام کے مطالبات پورے ہوں۔ اس کا مطالبہ تھا کہ مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء کیلئے اس تعلق سے کم از کم بجٹ ۲ء۷۲؍ لاکھ کروڑ روپوں کے ہونے چا ہئیں لیکن  وزارت خزانہ اس مطالبے کے برعکس آگے بڑھ رہی ہے۔
 ( مضمون نگار، دی وائر پورٹل میںڈپٹی ایڈیٹر ہیں)

budget Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK