Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: ان کھلونوں میں ماضی اور حال تھا، نئے زمانہ کی جھلک اور پرانے دور کی یادگاریں

Updated: September 17, 2023, 3:17 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

شام کے ساڑھے ۵؍ بجے تھے،سورج لال نہیں ہوا تھا،بس اس کی تمازت ختم ہوئی تھی۔اوپر صاف آسمان تھا، نیچے صاف دل والی بچیاں تھیں، چھوٹی چھوٹی ہتھیلیاں تھیں ان کی...کھیل رہی تھیں ۔ ہنس بول رہی تھیں۔

Girls with toys at the official hand pump platform. Photo: INN
سرکاری ہینڈ پمپ کے چبوترے میں کھلونوں کے ساتھ بچیاں۔ تصویر:آئی این این

شام کے ساڑھے ۵؍ بجے تھے،سورج لال نہیں ہوا تھا،بس اس کی تمازت ختم ہوئی تھی۔اوپر صاف آسمان تھا، نیچے صاف دل والی بچیاں تھیں ، چھوٹی چھوٹی ہتھیلیاں تھیں ان کی...کھیل رہی تھیں ۔ ہنس بول رہی تھیں۔ گاؤں میں ایک جگہ سرکاری نل(ہینڈ پمپ) کے چبوترے میں ان کی محفل سجی تھی۔ یہ محلے کے پڑوس کی بچیاں تھیں ، جگہ کم تھی، تین کی جگہ رہی ہوگی،جیسے تیسے آگے پیچھے پانچ بیٹھی ہوئی تھیں ، مسکرا رہی تھیں ۔کھلکھلا رہی بھی رہی تھیں ، بہت خوش تھیں۔ یہ کالم نگار وہاں سے گزررہا تھا،بچیوں کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر قدم اچانک رک گئے۔ ان کے قریب گیا اور ان سے جاننا چاہا کہ آخر ان کے چہرے اتنے کھلے ہوئےکیوں ہیں ؟
 وہاں چبوترے کے آگے کے حصے میں پوری دکان تو نہیں پورا مکان ضرور سجا ہوا تھا،بغیر دیواروں والامکان تھا، بھرا پرا تھا ،قدیم اور جدید کا سنگم تھا۔یعنی اس مکان میں نیا پرانا دونوں تھا۔ بچیوں کے سامنے رنگا رنگ کھلونے رکھے تھے، کچھ نئے دور کے تھے، کچھ پرانے دور کے۔مٹی کے کھلونے تھے، پلاسٹک،ایلومینیم اور اسٹیل کے بھی۔چبوترے کی منڈیر پر کاغذ کا کھلونا رکھا ہوا تھا جسے اس دیار میں ’جاتا‘کہتے ہیں ۔ دراصل جاتا روایتی چکی ہے، ہاتھ سے چلتی ہے۔ پہلے گاؤں کے گھر گھر میں ہوتی تھی، اسی سے گیہوں کی پسائی ہوتی تھی۔ حسب ضرورت چاول بھی پیسا جاتا تھا۔ نیچے کاغذ کا تین ایلے( خانے ) والا ایک چولہا رکھا ہوا تھا جسے یہاں کے لوگ چولہہ کہتے ہیں ۔ رسوئی گیس سلنڈر کے بعد چولہہ کا زمانہ لد گیا۔ ایک دور میں گاؤں کے ہر گھر میں چولہہ تھی۔ہر گھر کی چمنی ( چلمن ) سے دھواں نکلتا تھا۔ بتاتے ہیں کہ گاؤں والے ضرورتمندوں  کی چلمن کا دھواں  ضرور دیکھتے تھے ،کیونکہ انہیں  اسی سے اندازہ ہوتا تھا کہ فلاں کے گھر میں  چولہاجلا ہے یا نہیں ؟ دھواں  نظر نہ آنے پر وہ محلے پڑوس والوں سے بتاتے تھے کہ فلاں  کے گھر میں چولہا نہیں  جلا ہے ۔ پھر اہل محلہ مل کر اس کے کھانے پینے کا نظم کرتے تھے ۔ 
  اسی طرح گھر گرہستی کیلئے اب بھی ’چولہا چوکا‘ استعمال ہوتا ہے۔ اس دور میں بھی بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ ’چولہا چوکا‘ میں لگی ہوئی تھی، فرصت ہی نہیں ملی۔ پورے وثوق سے نہیں لیکن اس بات کا امکان ہے کہ چوکا چکی ہی سے بنا ہو،بہرحال چولہا اور چکی دونوں گاؤں کے گھروں سے غائب ہوگئے ہیں ۔ خوش قسمتی سے پرانے دور کی دونوں یادگاریں بچوں کے کھلونوں میں زندہ تھیں ۔ جاتا تو ماضی بعید کا قصہ ہے جبکہ چولہے کا سورج تو ابھی ابھی ڈوبا ہے ،بلکہ کہیں کہیں ابھی پوری طرح ڈوبا نہیں ہے۔ کچھ گھروں میں اب بھی اس کا وجود ہے۔
 برسبیل تذکرہ یہ بھی سنئے۔ دراصل کاغذ کا کھلونا استعمال شدہ کتاب اور کاپیوں سے بنایا جاتا ہے، پوروانچل میں ان کھلونوں کی دھوم ہے، یہ جہیز کے سامان کا لازمی حصہ ہیں ، اس سے ٹوکری بھی بنتی ہے، ترازو بھی، کل تک ہر گھر میں کلو دو کلو وزن کرنے کیلئے اسی کاغذی ترازو کا استعمال ہوتا تھا،اب گاؤں والے بھی نئے دور کے نمبر والے ترازو استعمال کر رہے ہیں ۔کاغذ کے کھلونے کا قصہ پھر کبھی۔ چلئے چبوترے کا حال دیکھتے ہیں ۔ بچیوں کے ہاتھوں میں برتن دھونے والا برش تھا جسے ایک بچی پلاسٹک کے برتن پر پھیر رہی تھی۔ وہ برتن صاف کرنے کی نقل کررہی تھی۔چبوترے کے ایک حصے میں پٹیا ( پتھر کا ٹکڑا)رکھی ہوئی تھی اس پر بچیوں کے گھر کا اثاثہ رکھا ہوا تھا۔ہری ہری گھاس کے پتے رکھے ہوئے تھے،جڑی بوٹیاں بھی تھیں ،یہ ان کا ساگ تھا، سبزی تھی۔ اسی پتھر پر ایلومینیم کاایک برتن بھی رکھا ہوا تھا۔ پرانے زمانے کے کچے گھروں میں سامان رکھنے کیلئے اسی طرح کا مٹی کا ایک ٹیلہ بنایا جاتا تھا۔ اس پرگھر کے برتن رکھے جاتے تھے،مٹی لگا ہوا کالا توا الٹا کرکے رکھا رہتا تھا، رکابیاں ہوتی تھیں ،مٹی کے پیالے بھی اس کی زینت بڑھاتے تھے۔ پوروانچل کی زبان میں کہیں تو برتن ’اونھائے‘ رہتے تھے، یعنی الٹے رکھے رہتے تھے ۔ اسی پر چاقو اور چھریاں بھی نظر آتی تھیں۔
 بچیوں کے اس اثاثے میں چینی کے نفیس برتن چار چاندلگا رہے تھے۔ اس کے حسن کو دوبالا کررہے تھے۔ چبوترے کی منڈیر ہی پر ایک چھوٹاپتھر رکھا ہوا تھا ، یہ بچیوں کی سل تھی،اسی پر اس سے چھوٹا ایک پتھر رکھا ہوا تھا جو ان کا لوڑھا ( بٹہ) تھا۔بچیاں ان کھلونوں کے ساتھ اپنی دنیا میں مگن تھیں۔
 اس کالم نگار نے ان سے کچھ پوچھنا چاہا اور پہلا سوال یہ داغ دیا،’’کا بنے تھے ، ہمرہیوا داوت رہی۔‘‘( کیا بن رہا ہے ،ہماری بھی دعوت رہے گی۔ )اس سوال پر وہ ہنسی روک نہیں پائیں ۔ان کا قہقہہ گونجا، ان میں کچھ شرما رہی تھیں ، ان کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ کچھ نے بتایا کہ آج سرسوں کا ساگ بن رہا ہے ،’ بوڑا‘ بھی بنے گا۔ سوال کے دوسرے حصے یعنی دعوت پر وہ خاموش ہی رہیں ۔پانچوں بچیوں کےکام بٹے ہوئے تھے، ایک مسالہ پیس رہی تھی۔ ایک جھاڑو دے رہی تھی۔ ایک برتن چمکا رہی تھی۔ ایک دودھ گرم کر رہی تھی۔ایک بچی گھر کےہر فرد سے باری باری کھانا کھانے کیلئے کہہ رہی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK