Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: منشیات کے خلاف سماجی لائحہ عمل اور ہماری منصوبہ بندی کیا ہو؟

Updated: July 03, 2025, 7:21 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

These days, the new generation is suffering from many types of addictions, which are very important to stop. Photo: INN.
اِن دنوں نئی نسل کئی طرح کے نشے میں مبتلا ہے، جنہیں روکنا بہت ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این۔

مسلم معاشرے کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے


منشیات کی لت کی وجہ سے نوجوان نسل برباد ہو رہی ہے اور اسے بچانا بہت ضروری ہے۔ اس کیلئے حکومت و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ قوم کے بزرگ افراد، سماج سیوک اور دردمندافراد ہرممکن کوششیں کر رہے ہیں۔ مگر اس لڑائی میں سماج کا تعاون ملنا بھی بہت ضروری ہے۔ والدین اور سرپرستوں  کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں  پر گہری نظررکھیں  اور انہیں غلط سنگت سے بچائیں۔ نوجوان نسل کو یہ بات نہیں  بھولنی چاہئے کہ والدین اپنی اولاد کیلئے اس مہنگائی کے دور میں کڑی محنت کرتے ہیں   تاکہ ان کی تمام ضروریات پوری ہوں  اور انہیں  ہر قسم کی سہولیات میسر ہوں ۔ ایسے میں   جب انہیں جب اپنے چشم و چراغ کے اس لت میں  پڑنے کا علم ہوتا ہے تو ان کے پیر کے نیچے کی زمین کھسک جاتی ہے۔ 
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف مہاپولی، تعلقہ بھیونڈی
منشیات سماج کو برباد کررہی ہے


منشیات ہر صورت میں ممنوع ہونی چاہئے۔ اس کا استعمال مختلف بیماریوں  کا سبب بنتا ہے اورر انسان اپنی موت کو دعوت دیتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ منشیات کا استعمال کرنے میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر وہ نوجوان جن کے پاس فضول وقت زیادہ ہوتا ہے، گلی نکڑ پر منشیات کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کے کس طرح منشیات کے مضر اثرات نہ صرف ان کے جسم کو اندر سے کمزور کر رہے ہیں بلکہ ان کی زندگی کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت منشیات کے طبی استعمال کے علاوہ دیگر استعمال کو بالکل ممنوع کردے۔ کیونکہ کسی کی جان سے زیادہ پیاری کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ ساتھ ہی والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو سمجھائیں اور انہیں منشیات کے استعمال سے روکیں۔ 
جواد عبدالرحیم قاضی، ساگویں، راجاپور، رتناگیری
منشیات کا استعمال ایک سنگین اور تباہ کن مسئلہ 


مکرمی ! شراب، بیڑی، سگریٹ، تمباکو، گٹکا، گانجہ اور بھنگ وغیرہ منشیات کی مختلف قسمیں ہیں ۔ یہ ایسا نشہ ہے جو ایک دیمک کی طرح انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ نوجوان نسل بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ نوجوانوں کو سماج اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شراب، سگریٹ نوشی اور گٹکا وغیرہ کا کثرت سے استعمال اور اس کے مضر اثرات سے انسانی زندگیاں اور صحت کافی متاثر ہو رہی ہیں ۔ کینسر، ڈپریشن، تناؤ، ٹینشن، خودکشی اور دیگر پھیپھڑے وغیرہ کی بیماریوں سے ہر سال لاکھوں لوگ وقت سے پہلے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں ۲۶؍ جون کو منشیات مخالف دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ منشیات کے خلاف بطور سماج حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں اور اس سے وابستہ اساتذہ اور طلبہ ایک اہم اور مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ بیداری کا موثر ذریعہ ثقافتی سرگرمیاں جن میں خصوصی طور سے تحریری اور تقریری مقابلوں کا انعقاد، جس میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین اور سرپرستوں کی شرکت اور ماہرین اور تجربہ کار ٹیچروں اور فنکاروں کی خطابت، منشیات مخالف کے ضمن میں کافی بار آور اور مفید ثابت ہوں گی۔ 
علاوہ میڈیا اور پریس کا کردار اسے اور جلا بخشے گا۔ یہ وہ ذرائع ہیں جو اشتہارات، بینرز اور پوسٹر کے ذریعے منشیات مخالف مہم کو بہترین پیمانے پر کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔ علاوہ گلی محلوں کی سماجی اور فلاحی اداروں کے سربراہان کے علاوہ مساجد کے ائمہ حضرات کا خصوصی جمعہ کے دن کا بیان منشیات مخالف ایک تیر بہدف ثابت ہوگا۔ 
نوٹ : تحریک پہلے خود سے، اپنے گھر سے کریں اور پھر اس کی ترغیب اپنے دوست و احباب میں کریں اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے درج ذیل شعر کو پیش نظر رکھیں ‌:نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے/مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی۔ 
انصاری محمد صادق، حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج، کلیان
نگرانی اور رہنمائی ہونی چاہئے


نئی نسل کسی بھی ملک کی معاشی، تعلیمی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقی میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جوانی وہ عرصئہ حیات ہے؛ جس میں اِنسان کے حوصلے بُلند ہوتے ہیں۔ ایک باہمت جوان پہاڑوں سے ٹکرانے، طوفانوں کا رخ موڑنے اور آندھیوں سے مقابلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے؛اسی لئےعلامہ اقبال سمیت متعدد شعرا نے نئی نسل کو اپنی توقعات کا محور بنایا ہے اور ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ہے۔ ہمیں منشیات کے خاتمے کے لئے آگاہی و تعلیم (اسکول، کالجوں، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز میں منشیات کے نقصانات پر لیکچر اور سیمینارز کا انعقاد کرنا چاہیے)۔ ساتھ ہی ساتھ قانونی اقدامات بھی بہت ضروری ہے اور نشہ کرنے والے کیلئے مفت اور باوقار علاج کی سہولت فراہم کرانا حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ خاص طور پر والدین کو اپنے بچوں کی ہمہ وقت نگرانی اور رہنمائی کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے کھیل فن ہنر اور روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ آج بحیثیت انسان اور مسلمان ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم معصوم بچوں اور نوجوان نسل کو نشے کی لعنت سے بچائیں۔ تمام مذہبی ادارے، اسکول و کالج، سماج، NGO اور حکومتی سطح پر بھی یہ کام سر انجام دیا جانا چاہیے۔ 
رمضان خان ہدوی، دار الہدیٰ مہاراشٹر سینٹر، وڈولی
علماء و ائمہ جمعہ کے خطبات کے ذریعہ منشیات کے خلاف مسلسل آواز اٹھائیں 


آج ساری انسانیت ایک ایسے ناسور میں مبتلا ہے جس نے دنیا کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اس لت نے نوجوانوں کو ملیامیٹ کر دیا ہے اور مسلم نوجوان اس کا خاص نشانہ معلوم ہوتے ہیں   کیونکہ استعماری اور صلیبی و صہیونی طاقتیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ ہمارا نوجوان معاشرہ سے کٹ جائے۔ یقیناً اس کی ابتدا برے لوگوں کی صحبت سے ہوتی ہے اور پھر ہمارا نوجوان آہستہ آہستہ ان کی صحبت سے متاثر ہو کر ان میں گھل مل جاتا ہے اور پھر عادت بن جاتی ہے۔ بلاشبہ نشہ آور اشیاء کا استعمال دینی و دنیاوی، روحانی و جسمانی، عقل و فہم اور سماجی و معاشرتی ہر لحاظ سے صحت کے لئے مضر اور ضیاء اموال ہے اسی لئے شریعت اسلامیہ نے ہر اس چیز کو حرام قرار دیا جس سے انسان کے اخلاق و کردار اور روح انسانی پراگندہ اور متاثر ہو تے ہیں مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اس گندی لت کو چھوڑنے کیلئے رمضان المبارک بہترین مہینہ ہے، اس موضوع پر علماء اور مساجد کے امام و خطیب کو جمعہ کے خطبے میں بولنا چاہیے۔ 
مولانا عادل ندوی، چکھلی، پونے، مہاراشٹر
منشیات کیخلاف لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کیا ہے؟


موجودہ دور میں ملت اسلامیہ کو کئی محاذوں پر برائیوں کا سامنا ہے۔ ان میں منشیات سب سے بڑا مسئلہ نظر آرہا ہے۔ منشیات کے عادی نوجوان و افراد کو اس سے کیسے باہر نکالیں یہ چیلنج سے بھرا سوال ہے۔ اسکے نقصان سے سبھی کم و بیش واقف ہے۔ سوال یہ ہے کہ منشیات کیخلاف بطور سماج ہمارا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے اور کس طرح کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا رہبر وہ پیغام خدا وندی ہے جو تمام انسانوں کے لیے ابدی رہنمائی اور ان کے مسائل حیات کا حل ہے۔ بس اس پر بھروسہ کرکے ایسے افراد جو سنجیدہ، ہوش مند، غور و فکر کرنے والے اور جذبہ عمل سے شرسار ہو انہیں ساتھ لے کر تعلیمی اداروں، آس پاس کے ماحول کا جائزہ لے کر اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ آیا نوجوان یا افراد منشیات کے عادی ہے اور اگر ایسے لوگ ملتے ہیں تو ان کو اس سے ترک تعلق کرنے کیلئے منصوبہ بندی اور غیر محسوس طریقہ سے زندگی کی رعنائی کی طرف واپس لانے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ کام صبر اور وقت طلب ضرور ہے۔ نشہ ہماری نئی نسل کو برق رفتاری سے نہ صرف واقف ہونا چاہیے بلکہ ان کے فروغ دہندہ پر مضبوط گرفت پیدا کرنے کی بھرپور جدوجہد بھی کرنی چاہیے۔ اس کام کو کرنے کے لیے ہمارا وجدان اور ہمارا اپنا ذوق و شوق ہماری رہنمائی نہ کرے، ہم خود کو اس کے لیے تیار نہ کریں تو اس ذمہ داری کی ادائیگی ممکن نہیں۔ منشیات کے خلاف صرف منصوبہ بندی تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ فوری عمل آوری کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا منشیات کے خلاف اچھا خاصا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے بھی ہمیں تعاون ملے گا۔ اسے بھی منصوبہ بندی میں شامل کرنا ہوگا۔ جو لوگ یا نوجوان اس مہم میں  پیش پیش رہیں  گے اور منشیات فروشوں  کے خلاف جائیں گے، جرائم پیشہ افراد ان کا جینا دوبھر کردیں گے۔ اس پر بھی غور و فکر کے ساتھ بچاؤ کا راستہ تلاش کرکے نکلنا بھی حکمت عملی ہوگی۔ دل و دماغ کو ترو تازہ کرکے منفی گرہوں کو کھول کر کے منشیات کے عادی نوجوانوں اور دیگر اس میں ملوث افراد کی مدد کرسکتے ہیں۔ 
عبدالرحمٰن یوسف، سبکدوش معلم، بھیونڈی
فرد، سماج اور انتظامیہ کی مشترکہ کوشش ہو


یقیناً نوجوان نسل کسی بھی قوم یا ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہے، اور ان کی جسمانی و ذہنی صحت ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار کرتی ہے، انہیں دونوں سے سماج و معاشرے کی صالح اقدار و روایات کے معیار کی پیمائش کی جاتی ہے، منشیات کی عادت نے نوجواں کو جسمانی اور ذہنی دونوں سطح پر نقصان پہنچایا ہے، منشیات کے زمرے میں گٹکے اور پان مسالے کو بھی رکھ کر دیکھئے، تب اندازہ ہوگا کہ نشے کا مسئلہ کتنا خطرناک رخ اختیار کر گیا ہے، منشیات کی شروعات انہی چیزوں سے ہوتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ آج ہر دوسرا نوجوان یا دوسرا شخص کسی نہ کسی سطح پر منشیات کا شکار ہے، نوجوان یہ اثر معاشرے سے اخذ کرتا ہے، لہٰذا سماج کے دیگر افراد کو بھی اس سلسلے میں غور فکر کرنے کی ضرورت ہے، نوجوانوں کو اس لت سے بچانے کے لئے مقامی سطح پر سوشل تنظیموں کا قیام کیا جائے اور سماج کے ان افراد کو شامل کیا جائے جن میں کسی قسم کی نشہ کی عادت نہ ہو، ساتھ میں انتظامیہ کی مدد حاصل کی جائے، کیونکہ اس وقت منشیات کے عادی افراد سے لوگ دور بھاگتے ہیں، کوئی انہیں ان کے برے رویے کی وجہ سے روکنا ٹوکنا نہیں چاہتا ہے۔ بغیر فرد، سماج اور انتظامیہ کی مشترکہ کوشش کے اس وبا پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔ 
سعید الرحمٰن محمد رفیق، گرین پارک روڈ، شیل، تھانے
منشیات کی لت سماج کو کھوکھلا کردیتی ہے


افسوسناک بات ہے کہ وطن عزیزمیں منشیات کے استعمال میں ہرسال اضافہ ہوتا جارہا ہے، خصوصاً نوجوان طبقے میں منشیات کی لت بڑھتی جارہی ہے۔ ہرسال۲۶؍ جون کومنشیات مخالف دن منایا جاتاہے تاکہ انسان کو بیدار و متنبہ کیا جائے کہ نشہ ور چیزوں کا استعمال نہ کرے۔ یاد رہے ایک بار نشے کی لت لگ جائے تو اس عادت کو چھوڑنا مشکل ہوجاتاہے۔ اس دور کے نوجوان افیم، چرس، شراب اور نشہ ورگٹکا کھاکر اپنے جسم کے ساتھ سماج کو بھی کھو کھلا کر رہے ہیں۔ معاشرہ خراب ہونے کے ساتھ خاندان برباد ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پڑھے لکھے جوان لڑکے اورلڑکیاں منشیات کا استعمال کر رہی ہیں، سماجی خدمت گزار لوگوں نے منشیات کے استعمال پر روک لگانا ضروری ہے۔ سرکار اس پر روک لگاتی ہے مگر منشیات کے استعمال میں کوئی کمی نہیں آتی۔ شراب چھوڑ نے کے لئے ڈاکٹری علاج بھی کیا جاتاہے مگر کامیابی نہیں ملتی۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ منشیات کے استعمال سے دور رہیں۔ یہ برائی کی جڑ ہے۔ اسلام میں نشہ کرنا حرام ہے۔ اسے ہلکے میں نہیں لینا چاہیے اپنے خاندان کو بربادی سے بچانے کے لئے ایسی چیزوں کے استعمال سے دور رہنا چاہیے۔ اچھے لوگوں کی صحبت میں رہ کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانا ہوگا۔ اسی میں دنیا و آخرت میں بھلائی ہے۔ 
اقبال احمد خان دیشمکھ، مہاڈ، رائے گڑھ

بیداری لانی چاہئے


 منشیات کا استعمال ہمارے معاشرہ میں عام ہوتے جارہا ہے، نوجوان نسل بری طرح اس لت کا شکار ہوکر اپنی عاقبت اور صحت دونوں برباد کررہی ہیں ۔ اپنے معاشرہ کو نشہ سے پاک کرنےکیلئے ضروری ہے کہ والدین بچوں کی تربیت پر دھیان دیں ۔ اسلامی و طبی لحاظ سے نشہ کے نقصانات کو بتائیں ۔ اسلام میں نشہ حرام ہے، نشہ کرنے سے صحت برباد ہوجاتی ہے۔ نشہ خوری بہت ساری بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ کینسر، ہارٹ اٹیک، ٹی بی اور دیگر مہلک بیماریوں کا سبب منشیات کا کثرت سے استعمال ہے۔ والدین اپنے بچوں کو غلط بچوں کی صحبت سے بچائیں کیونکہ اکثر بچے غلط بچوں کی صحبت میں پڑ کر برباد ہوجاتے ہیں ۔ بچوں کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں ، اگر تعلیم حاصل نہیں کررہے ہیں تو ان کو کسی کاروبار یا دوسرے کاموں میں مشغول رکھنا چاہئے۔ معاشرہ اور سوسائٹی کے بااثر لوگوں کو منشیات کے خلاف بیداری لانی چاہئے نوجوانو ں کی کونسلنگ کرنی چاہئے، کبھی کبھی ان کو جمع کرکے سمجھانا چاہئے۔ جو لوگ معاشرہ میں منشیات سپلائی کرتے ہیں ان کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے۔ نوجوانوں کی اصلاح پر دھیان دینا چاہئے کیوں کہ نوجوان کسی بھی قوم کاقیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ، یہ کل کا مستقبل ہیں ، قوم کی ترقی کا انحصار انھیں پر ہوتا ہے، اگر یہ ضائع ہوجائیں گے تو پوری قوم ضائع ہوجائے گی۔ 
 ابوحماد صلاح الدین سنابلی کرلاویسٹ، ممبئی
شائستگی کے ساتھ مشاورت ہونی چاہئے


  منشیات کی لت میں مبتلا افراد کی شائستگی کیساتھ مشا ور ت ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ جیسی صحبت ویسا اثر‘‘ انسانی فطر ت ہے کہ اس کا ذہن اپنے ارد گرد کے ماحول کو بہت جلد اپنا لیتا ہے۔ اڑوس پڑوس محلے میں بسنےوالےمہذب ہوں  گے تو وہاں کا ماحول بلاشبہ مہذب ملےگا۔ منشیات کی لت گزشتہ دس پندرہ سالوں سے برق رفتاری کیساتھ پھیل رہی ہے۔ اس طرح کا بدترین نشہ جو ذہن کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اپنی دھن میں مگن دنیا و مافیہا سے بے خبر ایسے شخص کی ناصحا نہ انداز میں مشاورت ضروری ہے۔ 
  بطورِ سماج ہمارا لا ئحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ بچے اپنے ہاتھوں میں منشیات کے خلاف بڑے بڑے بینر اٹھائے گاؤں شہروں  کی گلی کو چوں میں گھوم کرلوگوں میں بیداری کا سبب بنیں گے۔ آج کل بہت ساری جگہوں پر ویسن مکتی کیندر ( منشیات سے چھٹکارا پانے کے مراکز) کھولے گئے ہیں، جہاں   ماہانہ فیس کے طور پر ہزاروں روپیہ وصول کرتے ہیں ۔ لیکن ان مکتی کیندر وں سے متاثر شخص چھ سات ماہ کے بعد لوٹتا ہے تو چند روز تک اپنےگھر حسب معمول صحیح انداز میں رھتا ہے۔ لیکن محلے میں پرانے ہم پیالہ ہم نوالہ دوستوں سے ملاقات ہو تے ہی، وہی رفتار بے ڈھنگی پھرسے شروع ہوتی ہے اب تو سننے میں یہ آرہا ہے کہ مذکورہ مکتی کیندروں میں متاثرین کی جم کر پٹائی کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے متاثرین کو ذہنی و جسمانی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ 
زبیر احمد بوٹکے نالاسوپارہ(ویسٹ)
منشیات کے پھیلاؤ کے اسباب پر بھی غور ضروری


 منشیات ایک ایسا ناسور ہے جو نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے، سماج کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ منشیات کے خلاف جنگ میں کامیابی کیلئے ایک جامع لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں منشیات کے استعمال کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ غربت، بے روزگاری، ذہنی دباؤ اور سماجی تنہائی ایسے عوامل ہیں جو لوگوں کو منشیات کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ان وجوہات کو دور کرنے کے لیے، ہمیں تعلیمی اداروں، صحت کے مراکز اور کمیونٹی کی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ منشیات کے نقصانات کے بارے میں آگاہی مہم چلانی چاہیے اور نشے کے عادی افراد کے لیے علاج اور بحالی کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں منشیات کی اسمگلنگ اور فروخت کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے اور منشیات کے خلاف قوانین کو مزید موثر بنانا چاہیے۔ سرحدی علاقوں اور دیگر حساس مقامات پر نگرانی بڑھانی چاہیے تاکہ منشیات کی آمد کو روکا جا سکے۔ آخر میں، ہمیں معاشرے میں منشیات کے خلاف ایک مضبوط ثقافت پیدا کرنی چاہیے۔ اس میں خاندانوں، اسکولوں اور کمیونٹی کی سطح پر منشیات کے خلاف بات چیت اور آگاہی کو فروغ دینا شامل ہے۔ نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنے کے لیے صحت مند سرگرمیوں اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ منشیات کے خلاف جنگ ایک طویل اور مشکل جنگ ہے، لیکن اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو ہم اس ناسور کو ختم کر سکتے ہیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ 
 امیر بن عبدالغفار اسلام پور، بھیونڈی
منشیات کے پھیلاؤ کے اسباب پر بھی غور ضروری


 بیشک اسلام میں نشہ آورچیز حرام ہے یہ بات سبھی مسلمانوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔ اس کے باوجود مسلمان ہی ابھی کے دورمیں سب سے زیادہ اس مہلک بیماری میں مبتلا ہیں ۔ اگر ہم ابھی اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ بہت کم عمرکے بچے گلی کوچوں میں ہمیں نشہ کرتے ہوے دکھائی دیں گے۔ ابھی ان کی عمر کیا ہے اس عمرمیں تو بچوں کو اسکول یا کالج جانا چاہیے اور ہمارے معاشرے کے یہ ہونہار بچےخود کو باپ سے بھی زیادہ ہوشیار سمجھتے ہیں ۔ اس میں صرف چھوٹے بچے ہی نہیں بلکہ۱۶؍ سے۲۳؍سال عمرکے بچےبھی اس کو بطور فیشن استعمال کرتے ہیں -بہت ہی فخریہ انداز میں سگریٹ نوشی اور کئی طرح کے نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مہلک بیماری سے بچانے کے لئے سماج کے ذمے دار حضرات اپنا قدم آگے بڑھائیں  اوران نادانوں  کے لئے کھیل اور صحت کے لئے جو ٹھیک ہو اس طرح پروگرام چلا کر ان کو اسی میں منہمک رکھیں۔ 
 افسر انصاری جامعہ دارالہدیٰ، کیرالا
منشیات میں مبتلا افراد کو مجرم نہیں مریض سمجھ کر ان کی بحالی کیلئے کوشش کریں 


 منشیات کا استعمال آج ہمارے معاشرے کےلئے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے، جو نہ صرف نوجوان نسل کو جسمانی و ذہنی تباہی کی طرف لے جا رہا ہے بلکہ پورے سماج کے امن و سکون کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں بطور سماج ہماری یہ اخلاقی، سماجی اور دینی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس کے خلاف متحد ہو کر عملی اقدامات کریں۔ معاشرتی سطح پر شعور بیداری کی مہم سب سے اہم قدم ہے۔ تعلیمی اداروں، مساجد، کمیونٹی سینٹرز میں منشیات کے خلاف آگاہی پروگرام، تقاریر اور ویڈیوز کے ذریعے نوجوانوں کو اس لعنت سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے۔ علمائے کرام اپنے خطبات میں اس موضوع پر روشنی ڈالیں اور منشیات کو حرام فعل کے طور پر اجاگر کریں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں، ان سے دوستی اور اعتماد کا رشتہ قائم کریں تاکہ بچے منفی رجحانات سے دور رہیں۔ ساتھ ہی، مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہنچانا بھی ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ منشیات کے عادی افراد کو معاشرہ مجرم نہ سمجھیں، بلکہ مریض کے طور پر ان کی بحالی کیلئے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ سرکاری سطح پر بحالی مراکز کی تعداد بڑھائی جائے اور این جی اوز کے تعاون سے ان کا مؤثر انتظام ہو منشیات کے خلاف جنگ تبھی جیتی جا سکتی ہے جب پورا سماج ایک متحد، باشعور اور باعمل کردار ادا کرے۔ اگر ہم سب اس لعنت کے خاتمے کے لیے خلوص دل سے کوشش کریں تو ایک صحت مند، محفوظ اور خوشحال معاشرہ تشکیل دینا ممکن ہے۔ 
سروش عتیق کنگلےمہاپولی، بھیونڈی
منشیات فروشوں کا سماجی بائیکاٹ ہو


  مذہب اسلام نے ہرطرح کے نشے کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے۔ آج نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی لت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ غریبی اور بے روزگاری سے تنگ آکر ہمارے نوجوان نشہ آور اشیاء کا سہارا لے رہے ہیں۔ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ برائی کو طاقت سے روکو۔ منشیات کے خلاف ہمیں پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ مساجد میں نماز جمعہ سے پہلے نوجوانوں سے اس تعلق سے خطاب کرتے رہنا چاہئے۔ منشیات فروشوں  اور منشیات کے عادی افراد کا سماجی بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ شادی بیاہ اور موت میت میں ان کے یہاں نہ جائیں۔ جب اس طرح کا سماجی بائیکاٹ ہوگا تو شاید ان کی آنکھیں کھلے اور وہ منشیات سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے توبہ کرلیں۔ وہ لوگ جو ہمارے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کررہے ہیں انہیں پولیس کے ذریعہ گرفتار کروایا جائے۔ ایسی ایسی دفعات لگوائی جائیں کہ ان کی ضمانت مشکل ہوجائے۔ مساجد کے ائمہ اور جماعت کے ساتھی ایسے افراد سے ملیں اورانہیں بتائیں کہ منشیات کا استعمال ہماری نسل کو تباہ و برباد کردے گا۔ ہماری دنیا بھی خراب ہوگی اور آخرت بھی۔ 
محمد یعقوب ایوبی، موتی پورہ، مالیگاؤں 
منشیات فروشوں  کیخلاف سخت ایکشن ضروری


 ۲۶؍ جون کو منشیات مخالف دن منایاجاتا ہے۔ اس لت کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس لت کو منظم طور پر اس طرح پھیلایاجارہا ہے کہ ہمارے نوجوان زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اس لعنت سے کئی گھر تباہ ہورہے ہیں۔ میں ان بڑے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے نوجوان جو اس سے متاثر ہورہے ہیں، ان کو بچایاجاسکے۔ حکومت سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اس طرف خصوصی دھیان دے اور کوئی بڑا اور سخت قدم اٹھائے۔ اس طرح جو لوگ یہ کاروبار کرتے ہیں ان پر بھی لگام لگائی جائے۔ کوئی ایسا سینٹر بنایاجائے تاکہ وہ لوگ جو اس چیز کے عادی ہوگئے ہیں انہیں وہاں رکھ کر سدھارا جائے ان کو ٹھیک سے علاج کیاجائے۔ انہیں نئی زندگی کا احساس دلایاجائے۔ میری گزارش ہے کہ ہمارا سماج بھی ایسا قدم اٹھائے تاکہ ایسے لوگ جو اس دلدل میں پھنس گئے ہوں انہیں سدھارا جائے۔ 
 امتیاز احمد ملک، زکریا بندر سیوڑی، ممبئی 
منشیات ایک لعنت


منشیات ایک ایسی برائی اور لعنت ہے جس کا شکار ہوکر انسان میں نیک اور بد کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ نشہ آور چیزوں کے رسیاء عموماً وہ نوجوان ہوتے ہیں جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ زندگی اور موت کے درمیان کتنا کم فاصلہ ہے۔ عام طور پر ۱۸؍ سے ۳۰؍ سال تک کے نوجوان نشے کے عادی ہیں مگر ۱۰؍ سے ۱۴؍ سال تک کے بچے بھی اس عادت کے شکار ہیں۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ نشہ آور ادویات دھڑلے سے فروخت کی جارہی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ قوم کے نوجوان روحانی، جسمانی اور ذہنی طورپرکھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے لئے سماج کو ایک جٹ ہوکر پوری طاقت کے ساتھ جمہوری انداز میں منشیات مخالف لڑائی لڑنی ہوگی۔ 
مومن ناعمہ عرفان، اسلام پورہ، بھیونڈی

مسلم معاشرے کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے

اقوام متحدہ کی۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں جن میں مسلم نوجوان بھی شامل ہیں۔ این سی بی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جموں کشمیر اور پنجاب جیسے سرحدی علاقوں میں ہیروئن اور چرس کی اسمگلنگ نے ۳۰؍ فیصد سے زائد مسلم نوجوانوں کو متاثر کیا۔ غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی کمی انہیں اس لت میں  مبتلا کرتی ہے۔ مسلم معاشرے میں منشیات کو بدنامی سمجھنے کی وجہ سے متاثرہ افراد علاج سے کتراتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے منشیات کی آسان رسائی اور بری صحبت بھی مسائل بڑھاتی ہے۔ اس کے خلاف ہمیں ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے، مساجد اور مدرسوں میں بیداری مہمات چلائی جائیں۔ علماء منشیات کے نقصانات پر دینی رہنمائی کریں۔ دوسرے یہ کہ مسلم نوجوانوں کے لئے مفت تعلیم اور ہنر مندی کے کورس شروع کئے جائیں۔ تیسرے یہ کہ حکومت این سی بی کے ساتھ مل کر اسمگلنگ روکے۔ کھیلوں کے میدان اور ثقافتی پروگرام سے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ ہر محلے میں رضاکار گروپس بنائے جائیں جو مشکوک سرگرمیوں، جیسے منشیات کی فروخت پر نظر رکھیں اور پولیس سے رابطہ کریں۔ کمیونٹی سینٹرز میں والدین کو بچوں کی نگرانی کی تربیت دی جائے۔ میڈیا منشیات کے خلاف مہم چلائے۔ مسلم تنظیموں کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ دینی تعلیمات پر عمل سے نوجوانوں کو منشیات سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ اجتماعی کوشش ہمارے معاشرے کو منشیات سے پاک کر سکتی ہے۔ آئیے مل کر اپنی نئی نسل کو بچائیں۔ 
 شکیل سلیمان کاکر (محکمہ ماحولیات، جوگیشوری)
منشیات کے نقصانات تو بہت ہیں  


 اللہ تعالی نے ہر طرح کی، ہرقسم کی نشہ آور اشیاء کو ہمارے لئے قطعاً حرام قرار دیا ہے۔ یہ امت مسلمہ پر اس کا فضل وکرم اور احسان ہے۔ اگر یہ انسان کی عقل و سمجھ پر چھوڑ دیا جاتا کہ کون سا نشہ حرام ہے، کتنا حرام ہے اور کب حرام ہے تو فیصلہ کرنا بہت دشوار ہوتا۔ یہ اللہ کریم ہی کی ذات ہے کہ وہ انسان کی بھلائی کس چیز میں ہے انسان سے بہتر جانتا ہے ۔ جن مسلمانوں میں اگر تھوڑی سی بھی دینداری ہو تو وہ ہر قسم منشیات سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ منشیات کے نقصانات تو بہت ہیں۔ اس میں سے چند ایک یہ ہے کہ منشیات کا عادی انسان اپنی صحت و تندرستی گنوا بیٹھتا ہے، روپیہ پیسہ برباد ہوتا ہے، سماج میں اپنا مقام و وقار گنوا دیتا ہے، بیوی بچوں، عزیز و اقارب اور پاس پڑوس کے لئے ایسا انسان درد سر بن جاتا ہے، نہ اسے چھوڑ سکتے اور نہ ہی اس سےنبھا سکتے ہے۔ یہاں تک دیکھنے میں آتا ہے کہ اس قسم انسان کے بھائی، بہن، بیٹا بیٹی کے لئے اچھے رشتے تک نہیں آتے ہیں بلکہ معلوم ہونے پر آئے ہوئے رشتے تک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اسی کو کہتے ہیں کہ کرتا کوئی ہے اور بھرتا کوئی اور ہے۔ لائحہ عمل یہ ہوکہ ماہر نفسیات اور حکومت کے منشیات مخالف شعبہ کے تعاون سے اپنی اپنی بستیوں میں لیکچرز اور سیمینار رکھے جائیں اور منشیات کے عادی افراد کو مدعو کر کے ان کی اصلاح کی جائے۔ گھر کے افراد منشیات کے عادی فرد کی خاندان کے باشعور بزرگوں کی مدد سے منشیات کی لت چھڑانے کی کوشش کریں ۔ سب سے آسان اور بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ منشیات کے عادی افراد سے منت سماجت کر کے حکمت و تدبیر کے ساتھ مسجد والے اعمال سے جوڑا جائے اور وہ جڑ جائے تو بہت آسانی سے اصلاح ہو جائے گی۔ 
 ابو حنظلہ( ‌پونے)
منشیات کا استعمال ایک سنگین اور تباہ کن مسئلہ 


 منشیات کا استعمال آج کے معاشرے کے لئے ایک سنگین اور تباہ کن مسئلہ بن چکا ہے۔ نوجوان نسل اس دلدل میں پھنستی جا رہی ہے جس سے نہ صرف ان کی صحت متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کے خاندان اور پورے سماج پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لئے ہمیں بطور سماج بیدار اور متحرک ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں معاشرتی سطح پر بیداری مہم چلانی چاہئے۔ اسکولوں، کالجوں، مدارس اور محلوں میں منشیات کے نقصانات سے متعلق تقاریر، ورکشاپس اور پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ نوجوانوں کو صحیح علم ہو اور وہ اس لعنت سے دور رہیں۔ والدین کو بھی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان سے دوستانہ رویہ اختیار کریں تاکہ بچے ان سے کھل کر بات کر سکیں۔ حکومتی سطح پر سخت قوانین کا نفاذ اور منشیات فروشوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے نشے کے عادی افراد کے لیے بحالی مراکز کا انتظام بھی کرنا چاہئے تاکہ وہ دوبارہ ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔ معاشی اور سماجی طور پر کمزور طبقے کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ جرم اور نشے کی طرف مائل نہ ہوں۔ 
بطور سماج ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔ ایسے افراد کو تنہا چھوڑنے کے بجائے ان کا سہارا بننا ہوگا، ان کی اصلاح کی کوشش کرنی ہوگی اور ایک دوسرے کو بیدار رکھنا ہوگا۔ اگر ہم سب مل کر ایک مربوط اور مخلص منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھیں تو یہ ممکن ہے کہ ہم منشیات جیسے ناسور کا خاتمہ کر سکیں اور ایک صحت مند اور پاکیزہ ماحول فراہم کرسکیں۔ 
 حکیم نسیم احمد نظامی (رامپورہ، سورت، گجرات)
منشیات کے خلاف سماج اور ہماری ذمہ داریاں 


 آج کل کے اکثر نوجوان منشیات کی لت کے شکار ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی زندگی تباہ ہوتی جا رہی ہے۔ سماج میں بھی اس وبا کا دائرہ ٔ کار بڑھتا جارہا ہے، اس لئے سماج میں اس لعنت کی رو ک تھام اور سد باب کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام بالخصوص نوجوانوں کو منشیات کے برے اثرات سے آگاہ کیا جائے۔ سماج میں ایسے پروگرام منعقد کئے جائیں جس میں صحت عامہ کے تعلق سے بیداری پیدا کی جائے نیز منشیات سے متاثر افراد کی مدد کی جائے۔ خاندان کے ہر فرد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر ان کا بچہ منشیات کا عادی ہے تواس کی ہر ممکن مدد کی جائے اور اسے ڈرگ لینے سے روکا جائے نیز کاؤنسلرس کی مدد بھی لی جائے تاکہ اسے بروقت قابو میں کیا جاسکے۔ سماج کو چاہئے کہ ایسے صحت بحالی مراکز کا قیام عمل میں لائے جہاں منشیات کے عادی لوگوں کا کفایتی علاج ہو سکے۔ ا یسا ایک سینٹر بھیونڈی میں کامیابی سے جاری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ڈرگ یا منشیات کی نقل و حمل کو روکنے کے لئے سخت قوانین بنائے۔ اس تعلق سے اگر ممکن ہو تو بین الاقوامی تعاون بھی حاصل کیا جائے۔ ایسی حکمتِ عملی اپنائی جائے جہاں نشے کے عادی افراد کو سخت سزا دینے کےبجائے ان کی صحت اور تندرستی کو ترجیح دی جائے۔ منشیات سے چھٹکارہ پانے اور صحت یاب ہونے والوں کے لئے روز گار کے مواقع پیدا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے کام میں مصروف رہیں اور ان کا دھیان منشیا ت کی طرف نہ جائے نیز سماج میں ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ اس طرف بھی توجہ دلائی جائے تاکہ وہ سماج کیلئے کارآمد ثابت ہوں۔  
ملک مومن (بھیونڈی)
 سماج کو متحد ہونےکی ضرورت ہے


 عصر حاضر میں نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑی تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کی معاشی، تعلیمی، اقتصادی اور سماجی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ منشیات کی لعنت سے نوجوانوں کو بچانے کے لئے پورے سماج کو ایک پلیٹ فارم پر آ کر بلا تفریق مذہب و ملت اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدام کی اشد ضرورت ہے۔ عوام الناس بالخصوص نوجوانوں کو منشیات کے نقصانات سے آ گاہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں شہر کے چوراہوں پر بڑے بڑے ہورڈنگز لگائے جائیں۔ نوجوانوں میں منشیات کے خلاف بیداری پیدا کی جائے۔ قوم، برادری، ذات پات، اونچ نیچ اور اعلیٰ ادنیٰ ` سے اوپر اٹھ کر سماج کے ہر طبقے کو مل جل کر ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اس لعنت کا شکار ہو چکے ہیں ، ان سے نفرت کے بجائے محبت سے پیش آ ئیں، ان کے ساتھ ہمدردانہ اور مخلصانہ رویہ اختیار کریں اور انہیں اس لعنت سے بچانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ بحیثیت انسان ہمیں اپنی فعالیت اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہئے۔ نوجوانوں کو اس لعنت کا شکار بنانے والے سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ ایسی محفلوں میں جانے سے گریز کریں اور اپنے بچوں کو بھی سختی سے منع کریں جہاں بڑے پیمانے پر منشیات کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسے افرادا ور کلچر سے دوری اختیار کریں ۔ والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں منشیات کے مضر اثرات سے آ گاہ کرتے رہیں۔ اس سلسلے میں والدین کے علاوہ علمائے کرام اور میڈیا کو بھی اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ 
مقصود احمد انصاری(سابق معلم رئیس ہائی اسکول و جونیئر کالج بھیونڈی)
منشیات کے خلاف بطورِ سماج ہمارا لائحۂ عمل اور منصوبہ بندی


 منشیات ایک زہر ہے جو خاموشی سے ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہ صرف ایک فرد کو تباہ نہیں کرتی بلکہ پورے خاندان، نسل اور قوم کے مستقبل کو نگل لیتی ہے۔ آج جب ہمارے نوجوان، جو قوم کا سرمایہ ہیں، نشے کی لپیٹ میں آ رہے ہیں تو بطورِ سماج ہمیں خاموش تماشائی نہیں بننا چاہئے بلکہ عملی میدان میں اترنا ہوگا۔ منشیات کے خلاف سب سے پہلا ہتھیار آگاہی ہے۔ ہمیں اسکول، کالج، مساجد اور محلے کی سطح پر بیداری مہمات چلانی ہوں گی تاکہ نوجوانوں کو اس ناسور کے نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی دوستی، عادات اور بدلتے رویوں پر گہری نظر رکھیں۔ گھر کا ماحول محبت، اعتماد اور گفتگو پر مبنی ہو تاکہ بچہ کوئی بیرونی سہارا تلاش نہ کرے۔ نصاب میں اخلاقی تربیت، منشیات کے نقصانات، اور کردار سازی کے اسباق شامل کئے جائیں تاکہ طالب علم ذہنی طور پر تیار ہوں۔ 
 جمعہ کے خطبات اور مذہبی اجتماعات میں منشیات کی مذمت اور اس کے خلاف عملی اقدامات پر زور دیا جائے۔ سخت قانون سازی، منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور بےرحم کارروائی، اور اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بارڈر کنٹرول کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ منشیات کے عادی افراد کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی بحالی کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں جہاں انہیں علاج، مشورہ اور روزگار کی تربیت دی جائے۔ کھیل، ہنر سیکھنے کے ادارے، مطالعاتی کلب اور رضاکارانہ سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں کو مصروف رکھا جائے تاکہ ان کے پاس منفی سوچ کی گنجائش ہی نہ بچے۔ فلمیں، ڈرامے اور اشتہارات کے ذریعے منشیات کے خلاف ذہنی نفرت پیدا کی جائے اور نشے کو ‘فیشن’ کے بجائے ‘خطرہ’ دکھایا جائے۔ 
 رضوان ہمنوا سر(ہاشمیہ ہائی اسکول ممبئی)
ہر جگہ منشیات کے خلاف مہم چلانی چاہئے  


 زمانہ قدیم سے منشیات کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ زمانہ کے حساب سے طریقے بدلتے رہے۔ آج نئے نئے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ اور جلد قوم کے جوانوں کی بربادی کا سامان تیا رہوچکا ہے۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ صرف۲۶؍ جون کے منشیات مخالف دن منانے سے بہتر ہے کہ منشیات کے خلاف سال بھر مہم چلائی جائے، کیونکہ اس کا استعمال روزبروز بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ رک کیوں نہیں رہا ہے ؟وہ اس لئے کہ لوگ اسے روکنا نہیں چاہتے، وہ اس لئے کہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹی جائے، قوم اور ملک کے نوجوان کی بربادی ہوتی ہے تو ہونے دو، کوئی فکر نہیں ۔ فکر ہے تو کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت آئے ؟چاہے کسی بھی طریقے سے آئے۔ 
اس میں ہو کیا رہا ہے ؟ نوجوانوں کو قوم و ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانا چاہئے تھا لیکن وہ خود تو برباد ہو رہے ہیں، وہ قوم و ملک کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ اب ہمارا لائحہ عمل یہ ہونا چاہئے کہ سرکار سب سے پہلے سرکاری شراب بند کرے۔ پھر انگریزی شراب کی دکانیں بند کرائے۔ لوگ دولت کا لالچ چھوڑ کر ہر قسم کی منشیات سے دور رہیں۔ ان سے قوم و ملک کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے، کبھی یہ لوگوں کو لوٹتے ہیں تو کبھی مار بھی دیتے ہیں۔ نشہ کے لئے پیسے اڑاتے ہیں۔ 
 ویسے علمائے کرام تو مہم چلائے ہوئے ہی ہیں ، قوم کے سرکردہ اشخاص کو ہر جگہ منشیات کے خلاف مہم چلانی چاہئے بلکہ یہ مہم گھر گھر سے شروع ہو تو بہتر ہے۔ تاکہ قوم و ملک مزید معاشی اورمعاشرتی طور پر برباد ہونے سے بچ سکے۔ 
مرتضیٰ خان (نیا نگر، میرا روڈ، تھانہ)
نئی نسل میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کا رجحان


درحقیقت دولت کی انتہائی فراوانی، غربت، بری صحبت، عشق میں ناکامی اور والدین کی غفلت کے سبب منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جس نے سماج کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کے عادی افراد کو سماجی مسائل کے ساتھ ذاتی زندگی میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے اس عمل سے بوڑھے ماں باپ کا گھر بھی جہنّم بن جاتا ہے، اسلئے ضروری ہے کہ ہم ایسے سماج دشمن عناصر کا مکمل سماجی بائیکاٹ کریں جو سماج میں یہ زہر پھیلا رہے ہیں۔ اگر ہمیں اپنے اردگرد کسی مشکوک فرد، گروہ یا ایسی ہی کسی سرگرمی کا علم ہو تو فوراً ہی پولیس کو مطلع کریں تاکہ آپ کی بروقت اطلاع سے کئی زندگیوں کو بچایا جا سکے کیونکہ جب تک منشیات کے استعمال کو بڑھاوا دینے والے اسباب ومحرکات کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے سد باب کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جائے گی۔ اس وقت تک اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔ منشیات سے پاک، صحت مند معاشرہ کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ (۱) ‏والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر خاص نظر رکھیں اور انہیں دینی ماحول سے جوڑیں (۲) ہمارے پاس مساجد اور عبادتگاہوں کا ایک وسیع نظام موجود ہے اور ہم انسداد منشیات کی لڑائی میں ان اہم مراکز کو استعمال کرسکتے ہیں (۳) کاؤنسلنگ اور تھراپی کے دوران ان کو ہرممکن تعاون کریں تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں۔ (۴) نوجوانوں میں کھیل کو فروغ دیں تاکہ وہ منشیات سے دور رہیں اور کھیل کے ذریعے ماحول کو خوشگوار بنائیں۔ اس طرح نشے میں مبتلا افراد کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ سے یہ عہد کریں کہ وہ نشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ 
رضوان عبدالرازق قاضی( کوسہ ممبرا)

شروعات اپنے آپ سے ہونی چاہئے


سب سے پہلےہمیں اپنے آپ سے اس کی شروعات کرنی چاہئے۔ چھوٹی چھوٹی نشہ آور اشیاء جیسے تمباکو، گٹکھا، پان، سپاری اوربیڑی وغیرہ سےچھٹکاراحاصل کرنا ضروری ہےاور اگر یہ بہت مشکل ہو توچھوٹے بچوں کے سامنے ان چیزوں کو استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ کسی گھرکے نوجوان افراد اگرمنشیات کے عادی ہو گئے ہوں توان کاعلاج فوری طور پر کیا جانا چاہئے۔ اُن کے دوستوں اور ان کے روزانہ کے معمولات پرنظررکھناچاہئے۔ ان کی مناسب کاؤنسلنگ کی جانی چاہئے اور سماجی، مذہبی طو پر اُن کی ذہن سازی کی جانی چاہئے تاکہ وہ مستقبل میں منشیات کااستعمال نہ کریں۔ اسی کے ساتھ ہی گلی محلے کی سطح پر کچھ گروپ ایسے بننے چاہئیں جومنشیات کے خلاف کام کریں ۔ اس کے نقصانات سے انہیں اگاہ کریں۔ مسجدکے امام صاحبان اورایسے بااثر افراد جن کی بات گلی محلے میں مانی جاتی ہے انہیں بھی آگے آنا چاہئے۔ 
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
منشیات سے انکار، زندگی سے پیار 


پہلا قدم منشیات کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں، مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور سوشل میڈیا پر بیداری مہم چلائی جانی چاہئے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو یہ بتایا جائے کہ منشیات وقتی خوشی ضرور دیتی ہے لیکن اس کا انجام انتہائی ہولناک ہوتا ہے۔ کھیل، آرٹ، ادب، ڈرامہ اور مطالعہ جیسی مثبت سرگرمیوں کو فروغ دے کر نوجوانوں کی توجہ ان سرگرمیوں کی طرف مبذول کروائی جائے تاکہ وہ بے راہ روی کا شکار نہ ہوں۔ والدین کے ساتھ ساتھ اس میں ہم اساتذہ کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں اور ان سے دوستانہ تعلق رکھیں تاکہ اگر وہ کسی پریشانی کا شکار ہوں تو بلا جھجھک اپنی بات بیان کر سکیں۔ منشیات کے خلاف معلوماتی مواد کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ طالب علم شروع ہی سے اس کے نقصانات سے واقف ہوں۔ اس کیخلاف جنگ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ 
مومن ناظمہ محمد حسن (ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
ہمیں پولیس کی خدمات حاصل کرنی چاہئے


اس سلسلے میں پولیس کی خدمات بہت اہم ہیں۔ ہمیں ان کی مدد لینی چاہئے۔ پولیس افسران کو چاہئے کہ وہ منشیات کو فروغ دینے والوں کے سخت کارروائی کریں اور اس کیلئے ایک ٹیلی فون نمبر یا واٹس ایپ سروس شروع کریں تاکہ محلے کے بیدار شہریوں کو انہیں آگاہ کرنے یا اُن مقامات کا لوکیشن بتانے میں آسانی ہو جہاں اس طرح کی حرکتیں ہوتی ہوں۔ اس کے بعد ذمہ داری آتی ہے ہمارےکارپوریٹروں کی۔ مقامی سطح پر انہیں ایک ’بڑے‘ کے طورپر لوگوں نے منتخب کیا ہے اور کچھ انتظامی اختیارات سونپا ہے۔ جہاں اس طرح کی بیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں، وہاں پر انہیں آگے آکر اس کے خلاف ٹھوس قدم اٹھا نا چاہئے۔ ایک عام آدمی نشہ خوروں کونہیں روک سکتا کیونکہ اس معاملے میں زیادہ تر پیسے والے ملوث ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ہی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ 
انصاری علقمہ عبداللہ (بھیونڈی)
 سماجی سطح پر بیداری بہت ضروری ہے


منشیات کی روک تھام میری نظر میں یہ ۲؍ طریقے بہت اہم ہیں۔ ان میں سے اول سماجی سطح پر بیداری ہے۔ ہمارے یہاں کئی فلاحی تنظیمیں یہ کام کرتی ہیں جو نوجوانوں کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کرتی ہیں۔ اس کیلئے سیمینار، ورکشاپ کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ریلیاں نکال کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ان کوششوں کو سماج کے تمام افراد کا تعاون مل جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج نظر برآمد ہوں گے۔ دوم یہ کہ تعلیمی اداروں کی خدمات لی جائے۔ ان کی مدد سےمنشیات کی روک تھام کا کام آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو حکومت کی واضح ہدایت ہے کہ ان موضوعات پر بچوں کی ذہن سازی کریں۔ اگر یہ ادارے تمباکو، سگریٹ اور شراب جیسی منشیات کی چیزیں جو آسانی سے بازار میں دستیاب ہیں، ان کے مضر اثرات اور ان کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کریں تو اس کے خاطر خواہ نتائج نکلیں گے۔ 
ممتاز احمد شمشیرخان(گولی بار سانتا کروز مشرق، ممبئی)
اس ناسور کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا


منشیات کے خلاف بطورِ سماج ہمارا لائحہ عمل نہایت منظم، بیدار مغز اور ہمہ گیر ہونا چاہئے۔ ہمیں سب سے پہلے اس ناسور کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا، جن میں بے روزگاری، ذہنی دباؤ، تعلیمی فقدان، والدین کی عدم توجہی اور بری صحبت شامل ہیں۔ معاشرے کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں میں بیداری پیدا کرے، انہیں مقصدِ حیات سے روشناس کرائے اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف راغب کرے۔ منصوبہ بندی کے طور پر ہمیں تعلیمی اداروں میں منشیات کے نقصانات پر باقاعدہ مہمات چلانی چاہئیں، علماء و اساتذہ، والدین اور میڈیا کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نشہ آور اشیاء کی فروخت اور ترسیل پر سخت کارروائی کرے اور بحالی مراکز کو مؤثر بنائے۔ صرف قانون نہیں بلکہ اخلاقی و دینی شعور کو بھی اجاگر کرنا ہوگا تاکہ ایک صحت مند اور باوقار معاشرہ تشکیل پا سکے۔ 
عبید انصاری ہدوی(بھیونڈی)
منشیات کے خلاف سیمینار، لیکچر اور پوسٹر مقابلے کرائے جائیں 


خاندانی سطح پر نگرانی اور تربیت کاانتظام کیا جائے۔ والدین بچوں کے دوستوں، موبائل کا استعمال، وقت گزاری کے انداز اور بدلتے رویوں پر توجہ دیں۔ تعلیمی اداروں کو بیداری کا مرکز بنائیں۔ اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں منشیات کے خلاف سیمینار، لیکچر اور پوسٹر مقابلے کرائے جائیں۔ محلہ سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ مقامی علماء، اساتذہ، نوجوانوں، والدین اور انتظامیہ کو ساتھ لے کرنشہ مخالف کمیٹی بنائی جائے جو نگرانی کرے اور پولیس سے تعاون کرے۔ مقامی دینی قیادت بھی فعال کردار ادا کرے۔ جمعہ کے خطبات اور دیگر مواقع پر منشیات کی حرمت، اس کے دینی، معاشرتی اور طبی نقصانات بیان کئے جائیں۔ متبادل مصروفیات کا بندوبست کیا جائے۔ نوجوانوں کیلئے کھیل، ہنر، دینی تعلیم اور مشغلے فراہم کئے جائیں تاکہ وہ وقت کا درست استعمال سیکھیں۔ آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ منشیات کے خلاف جنگ صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ یہ ہر باضمیر فرد، ہر والد، ہر معلم اور ہر قائد کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو کل ہماری آنے والی نسلیں اس خاموشی کی قیمت چکائیں گی۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
اسکولی نصاب میں نشہ آور اشیاء سے متعلق مضامین شامل کئے جائیں 


منشیات کے خلاف بطور سماج ہمارا لائحہ عمل اور منصوبہ بندی ایک جامع، عملی اور بیداری پیدا کرنے والی ہونی چاہئے تاکہ نوجوانوں، خاندانوں اور پوری کمیونٹی کو اس ناسور سے بچایا جا سکے۔ اس کیلئےتعلیمی اداروں، مساجد، مدارس اور کمیونٹی سینٹرز میں منشیات کے نقصانات پر لیکچر، سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کئے جائیں۔ اسکول کے نصاب میں نشہ آور اشیاء سے متعلق مضامین شامل کئے جائیں۔ والدین کی تربیت ہو کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں اور بروقت ان کی رہنمائی کریں۔ علمائے کرام نشے کے خلاف دینی احکامات بیان کریں۔ خطباتِ جمعہ، مجالس اور پروگراموں میں اخلاقی زوال پر روشنی ڈالی جائے۔ محلوں اور کالونیوں میں کمیونٹی واچ گروپ بنائے جائیں جو مشتبہ سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ایسے علاقوں کی شناخت کی جائے جہاں منشیات بیچی یا استعمال کی جاتی ہیں اور پولیس سے تعاون کیا جائے۔ متاثرہ افراد کو برا سمجھنے کے بجائے ’ری ہیب‘ مراکز میں ان کا علاج کروایا جائے۔ ان کی سماجی بحالی کیلئے معاشرتی تعاون ہو۔ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ والدین اپنے بچوں پر خاص نظر رکھیں ۔ روپے جو خرچ کو دے رہے ہیں، اُن کا حساب رکھیں کہ وہ کہاں خرچ کر رہے ہیں۔ اُن کے دوست کون ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں ، کہاں رہتے ہیں ۔ وقت ضرورت اُن کے والدین سے بھی بات چیت کریں۔ 
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل ( معلم کھیر نگر مونسپل سیکنڈری اسکول۔ باندرہ ایسٹ)
نوجوانوں میں دینی رجحان پیداکیا جائے


بطور سماج ہمارا لائحہ عمل ہونا چاہئے کہ سب سے پہلے نوجوان نسل کو مایوسی کے اندھیرے سے نکال کر امید کی روشنی کی طرف مائل کیا جائے۔ آج کا نوجوان بے روزگاری سے بہت پریشان ہے، لہٰذا اسے تعلیم کی اہمیت بتا کر اس کے حصول کی جانب رغبت دلائی جائے۔ جو نوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیچھے رہ جائیں، انہیں روزگار فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔ سرکاری سطح پر منشیات مخالف قانون کا نفاذ سختی سے کیا جانا چاہئے۔ نوجوانوں میں دینی رجحان پیدا کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ دین اسلام کی روشنی میں منشیات کے نقصانات ان کو ذہن نشین کرائی جا سکیں۔ 
افتخار احمد اعظمی (سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)
نشے سے پاک زندگی گزاریں تاکہ مثال بن سکیں 


نشہ اب ایک ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ اسلئے منشیات کے خلاف بطور سماج ہمارا لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کا آغاز سب سے پہلے اپنے گھروں سے ہونی چاہئے۔ بچوں کو اس کے مضمر اثرات سے آگاہ کریں اور خود نشے سے پاک زندگی گزاریں تاکہ مثال بن سکیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دینی اداروں میں مستقل بیداری مہم چلائی جائے۔ صرف تقریریں نہیں، عملی اقدامات ہوں۔ ویڈیوز، ڈرامے، ورکشاپس اور کونسلنگ سیشنز کے ذریعے بیداری مہم چلائی جائے۔ محلوں اور سوسائٹی سطح پر نگرانی ہواور رپورٹنگ کے نظام ہوں جہاں نشہ فروشوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے۔ قانونی نظام کو سخت، فعال اور غیر لچکدار بنایا جائے۔ سزا صرف کاغذوں تک نہ رہے بلکہ عمل میں آئے۔ بحالی مراکزکی تعداد میں اضافہ کیا جائے جہاں طبی علاج کے ساتھ اخلاقی و دینی تربیت بھی ہو۔ 
آصف جلیل احمد(چونابھٹّی، مالیگاؤں )
قانونی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے


سب سے پہلے قانونی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جانی چاہئے جو اس معاملے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہو، اس کے خلاف قانونی کارروائی میں تعاون کرے۔ اس کےمنشیات مخالف حکومتی اداروں کے ساتھ بھی تعاون کیا جانا چاہئے تاکہ وہ ان مراکز پر نظر رکھیں اور ضرورت پڑنے پر ان کے خلاف کارروائی کریں۔ سماج کے وہ لوگ جو علم و عمل سے لائقِ احترام ہوں، وہ جگہ پر پہنچ کر منشیات کے عادی لوگوں کی ذہن سازی کریں اورانہیں با عزت زندگی گزارنے کی طرف صحیح رہنمائی کریں تاکہ وہ سماج میں اچھی زندگی گزار کر اپنے اطراف کے ماحول کو منشیات سے پاک کرنے میں معاون بن سکیں ۔ آج کے پرفتن دور میں حقوق العباد کا یہ عمل کسی جہاد سے کم نہیں۔ اس پر عمل کرکے لوگوں کی تباہ ہوتی زندگی کو راہ راست پر لاکر اپنی اور سماج کی صحیح تصویر ملک و بیرون ملک پیش کرکے سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔ 
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی )
منشیات کے خلاف منصوبہ بندی کیلئے پہلے ہمیں اس کی وجوہات کوسمجھنا ہوگا


منشیات کے خاتمے اور اس کے خلاف منصوبہ بندی کیلئے پہلے ہمیں اس کی وجوہات کوسمجھنا ہوگا۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ان میں پہلی وجہ ذہنی دباؤ ہے۔ یہ دباؤ تیزی سے انسانوں کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے جبکہ تیسری وجہ دوستوں کی صحبت ہے یعنی چار دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو پانچواں دوست دباؤ میں آکر اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔ اس سنگین اور خطرناک لعنت کے خاتمے کا واحد ذریعہ اسلامی قوانین کو اپنانا ہے۔ منشیات کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر قانون سازی کی جانی چاہئے اور اس کے خاتمے کیلئے متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے کوششیں کرنی ہوں گی۔ اس میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کیلئے ہر علاقے میں سینٹرز بنائے جانے چاہیں ۔ اس کے ساتھ ہی زہر فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی بھی ہونی چاہئے۔ اس کیلئے والدین کا اپنے بچو ں پر نظر رکھنے کا عمل بھی انتہائی ضروری ہے۔ بچو ں کے ساتھ ان کے دوستوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی صحبت کے فو ائد بتائیں۔ جہاں اُن کے قدمو ں میں ہلکی سی بھی لرزش نظر آئے اُن پر قابو پانے کی کوشش کریں بصورت دیگر زندگی کا یہ اہم ترین سرمایہ ضائع ہو سکتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔ اس خطرناک وبا سے نجات اسی وقت ممکن ہے، جب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی قومی، ملی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ برسرپیکار ہوجائیں ۔ 
ش۔ شکیل (اورنگ آباد)
سماجی اور انفرادی سطح پر مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے


اس لعنت کے خاتمے کیلئے صرف وعظ و نصیحت کافی نہیں بلکہ ریاستی، سماجی اور انفرادی سطح پر مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سخت قوانین بنانے اور منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور کڑی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقے میں بحالی مراکز قائم کئے جائیں جہاں نشے میں مبتلا افراد کا بہتر علاج اور ذہنی بحالی ممکن ہو۔ معاشرے کے تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ اس برائی کے خلاف آواز بلند کریں اور نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کریں۔ جب اسلام کی حقیقی تعلیمات دلوں میں قائم ہوں گی، تب ہی اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسان کو جسمانی، ذہنی، اور روحانی طور پر پاکیزہ زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ نشہ آور اشیاء سے بچنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کے نقصانات سے آگاہ کریں تاکہ ہم ایک صحت مند، بااخلاق اور باکردار معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ 
مولانا حسیب احمد انصاری (انچارج عربک ڈپارٹمنٹ آف حراء انگلش اسکول اینڈ جونیئر کالج، مہاپولی)

اس ہفتے کا عنوان
گزشتہ کچھ ہفتوں اور مہینوں سے ملک کی بعض ریاستوں بالخصوص مہاراشٹر میں مساجد میں لگنے والے لاؤڈ اسپیکر کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں۔ آئے دن پولیس وہاں پہنچ جاتی ہے، آواز چیک کرتی ہے، اجازت نامہ طلب کرتی ہے اور ذمہ داران سے طرح طرح کے سوالات کرتی ہے۔ بعض جگہوں پر پولیس خود نہیں پہنچتی بلکہ مسجد کے ذمہ داران ہی کو پولیس اسٹیشن طلب کرتی ہے۔ پولیس کی ان کارروائیوں نے مسلمانوں کو ایک نئے مسئلے میں الجھا دیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
مساجد میں لاؤڈاسپیکر کیخلاف پولیس کی کارروائیوں سے بچنے کیلئے مسلمان کیا کریں ؟اس کا مستقل حل کیا ہوسکتا ہے؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۶؍جولائی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔ ان کالموں میں حصہ لینے والے قلمکار حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں ۔ الگ سے نہ لکھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK