’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 3:00 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
شروعات اپنے آپ سے ہونی چاہئے
سب سے پہلےہمیں اپنے آپ سے اس کی شروعات کرنی چاہئے۔ چھوٹی چھوٹی نشہ آور اشیاء جیسے تمباکو، گٹکھا، پان، سپاری اوربیڑی وغیرہ سےچھٹکاراحاصل کرنا ضروری ہےاور اگر یہ بہت مشکل ہو توچھوٹے بچوں کے سامنے ان چیزوں کو استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ کسی گھرکے نوجوان افراد اگرمنشیات کے عادی ہو گئے ہوں توان کاعلاج فوری طور پر کیا جانا چاہئے۔ اُن کے دوستوں اور ان کے روزانہ کے معمولات پرنظررکھناچاہئے۔ ان کی مناسب کاؤنسلنگ کی جانی چاہئے اور سماجی، مذہبی طو پر اُن کی ذہن سازی کی جانی چاہئے تاکہ وہ مستقبل میں منشیات کااستعمال نہ کریں۔ اسی کے ساتھ ہی گلی محلے کی سطح پر کچھ گروپ ایسے بننے چاہئیں جومنشیات کے خلاف کام کریں ۔ اس کے نقصانات سے انہیں اگاہ کریں۔ مسجدکے امام صاحبان اورایسے بااثر افراد جن کی بات گلی محلے میں مانی جاتی ہے انہیں بھی آگے آنا چاہئے۔
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
منشیات سے انکار، زندگی سے پیار
پہلا قدم منشیات کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں، مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور سوشل میڈیا پر بیداری مہم چلائی جانی چاہئے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو یہ بتایا جائے کہ منشیات وقتی خوشی ضرور دیتی ہے لیکن اس کا انجام انتہائی ہولناک ہوتا ہے۔ کھیل، آرٹ، ادب، ڈرامہ اور مطالعہ جیسی مثبت سرگرمیوں کو فروغ دے کر نوجوانوں کی توجہ ان سرگرمیوں کی طرف مبذول کروائی جائے تاکہ وہ بے راہ روی کا شکار نہ ہوں۔ والدین کے ساتھ ساتھ اس میں ہم اساتذہ کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں اور ان سے دوستانہ تعلق رکھیں تاکہ اگر وہ کسی پریشانی کا شکار ہوں تو بلا جھجھک اپنی بات بیان کر سکیں۔ منشیات کے خلاف معلوماتی مواد کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ طالب علم شروع ہی سے اس کے نقصانات سے واقف ہوں۔ اس کیخلاف جنگ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
مومن ناظمہ محمد حسن (ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
ہمیں پولیس کی خدمات حاصل کرنی چاہئے
اس سلسلے میں پولیس کی خدمات بہت اہم ہیں۔ ہمیں ان کی مدد لینی چاہئے۔ پولیس افسران کو چاہئے کہ وہ منشیات کو فروغ دینے والوں کے سخت کارروائی کریں اور اس کیلئے ایک ٹیلی فون نمبر یا واٹس ایپ سروس شروع کریں تاکہ محلے کے بیدار شہریوں کو انہیں آگاہ کرنے یا اُن مقامات کا لوکیشن بتانے میں آسانی ہو جہاں اس طرح کی حرکتیں ہوتی ہوں۔ اس کے بعد ذمہ داری آتی ہے ہمارےکارپوریٹروں کی۔ مقامی سطح پر انہیں ایک ’بڑے‘ کے طورپر لوگوں نے منتخب کیا ہے اور کچھ انتظامی اختیارات سونپا ہے۔ جہاں اس طرح کی بیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں، وہاں پر انہیں آگے آکر اس کے خلاف ٹھوس قدم اٹھا نا چاہئے۔ ایک عام آدمی نشہ خوروں کونہیں روک سکتا کیونکہ اس معاملے میں زیادہ تر پیسے والے ملوث ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ہی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
انصاری علقمہ عبداللہ (بھیونڈی)
سماجی سطح پر بیداری بہت ضروری ہے
منشیات کی روک تھام میری نظر میں یہ ۲؍ طریقے بہت اہم ہیں۔ ان میں سے اول سماجی سطح پر بیداری ہے۔ ہمارے یہاں کئی فلاحی تنظیمیں یہ کام کرتی ہیں جو نوجوانوں کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کرتی ہیں۔ اس کیلئے سیمینار، ورکشاپ کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ریلیاں نکال کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ان کوششوں کو سماج کے تمام افراد کا تعاون مل جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج نظر برآمد ہوں گے۔ دوم یہ کہ تعلیمی اداروں کی خدمات لی جائے۔ ان کی مدد سےمنشیات کی روک تھام کا کام آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو حکومت کی واضح ہدایت ہے کہ ان موضوعات پر بچوں کی ذہن سازی کریں۔ اگر یہ ادارے تمباکو، سگریٹ اور شراب جیسی منشیات کی چیزیں جو آسانی سے بازار میں دستیاب ہیں، ان کے مضر اثرات اور ان کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کریں تو اس کے خاطر خواہ نتائج نکلیں گے۔
ممتاز احمد شمشیرخان(گولی بار سانتا کروز مشرق، ممبئی)
اس ناسور کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا
منشیات کے خلاف بطورِ سماج ہمارا لائحہ عمل نہایت منظم، بیدار مغز اور ہمہ گیر ہونا چاہئے۔ ہمیں سب سے پہلے اس ناسور کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا، جن میں بے روزگاری، ذہنی دباؤ، تعلیمی فقدان، والدین کی عدم توجہی اور بری صحبت شامل ہیں۔ معاشرے کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں میں بیداری پیدا کرے، انہیں مقصدِ حیات سے روشناس کرائے اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف راغب کرے۔ منصوبہ بندی کے طور پر ہمیں تعلیمی اداروں میں منشیات کے نقصانات پر باقاعدہ مہمات چلانی چاہئیں، علماء و اساتذہ، والدین اور میڈیا کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نشہ آور اشیاء کی فروخت اور ترسیل پر سخت کارروائی کرے اور بحالی مراکز کو مؤثر بنائے۔ صرف قانون نہیں بلکہ اخلاقی و دینی شعور کو بھی اجاگر کرنا ہوگا تاکہ ایک صحت مند اور باوقار معاشرہ تشکیل پا سکے۔
عبید انصاری ہدوی(بھیونڈی)
منشیات کے خلاف سیمینار، لیکچر اور پوسٹر مقابلے کرائے جائیں
خاندانی سطح پر نگرانی اور تربیت کاانتظام کیا جائے۔ والدین بچوں کے دوستوں، موبائل کا استعمال، وقت گزاری کے انداز اور بدلتے رویوں پر توجہ دیں۔ تعلیمی اداروں کو بیداری کا مرکز بنائیں۔ اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں منشیات کے خلاف سیمینار، لیکچر اور پوسٹر مقابلے کرائے جائیں۔ محلہ سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ مقامی علماء، اساتذہ، نوجوانوں، والدین اور انتظامیہ کو ساتھ لے کرنشہ مخالف کمیٹی بنائی جائے جو نگرانی کرے اور پولیس سے تعاون کرے۔ مقامی دینی قیادت بھی فعال کردار ادا کرے۔ جمعہ کے خطبات اور دیگر مواقع پر منشیات کی حرمت، اس کے دینی، معاشرتی اور طبی نقصانات بیان کئے جائیں۔ متبادل مصروفیات کا بندوبست کیا جائے۔ نوجوانوں کیلئے کھیل، ہنر، دینی تعلیم اور مشغلے فراہم کئے جائیں تاکہ وہ وقت کا درست استعمال سیکھیں۔ آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ منشیات کے خلاف جنگ صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ یہ ہر باضمیر فرد، ہر والد، ہر معلم اور ہر قائد کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو کل ہماری آنے والی نسلیں اس خاموشی کی قیمت چکائیں گی۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
اسکولی نصاب میں نشہ آور اشیاء سے متعلق مضامین شامل کئے جائیں
منشیات کے خلاف بطور سماج ہمارا لائحہ عمل اور منصوبہ بندی ایک جامع، عملی اور بیداری پیدا کرنے والی ہونی چاہئے تاکہ نوجوانوں، خاندانوں اور پوری کمیونٹی کو اس ناسور سے بچایا جا سکے۔ اس کیلئےتعلیمی اداروں، مساجد، مدارس اور کمیونٹی سینٹرز میں منشیات کے نقصانات پر لیکچر، سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کئے جائیں۔ اسکول کے نصاب میں نشہ آور اشیاء سے متعلق مضامین شامل کئے جائیں۔ والدین کی تربیت ہو کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں اور بروقت ان کی رہنمائی کریں۔ علمائے کرام نشے کے خلاف دینی احکامات بیان کریں۔ خطباتِ جمعہ، مجالس اور پروگراموں میں اخلاقی زوال پر روشنی ڈالی جائے۔ محلوں اور کالونیوں میں کمیونٹی واچ گروپ بنائے جائیں جو مشتبہ سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ایسے علاقوں کی شناخت کی جائے جہاں منشیات بیچی یا استعمال کی جاتی ہیں اور پولیس سے تعاون کیا جائے۔ متاثرہ افراد کو برا سمجھنے کے بجائے ’ری ہیب‘ مراکز میں ان کا علاج کروایا جائے۔ ان کی سماجی بحالی کیلئے معاشرتی تعاون ہو۔ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ والدین اپنے بچوں پر خاص نظر رکھیں ۔ روپے جو خرچ کو دے رہے ہیں، اُن کا حساب رکھیں کہ وہ کہاں خرچ کر رہے ہیں۔ اُن کے دوست کون ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں ، کہاں رہتے ہیں ۔ وقت ضرورت اُن کے والدین سے بھی بات چیت کریں۔
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل ( معلم کھیر نگر مونسپل سیکنڈری اسکول۔ باندرہ ایسٹ)
نوجوانوں میں دینی رجحان پیداکیا جائے
بطور سماج ہمارا لائحہ عمل ہونا چاہئے کہ سب سے پہلے نوجوان نسل کو مایوسی کے اندھیرے سے نکال کر امید کی روشنی کی طرف مائل کیا جائے۔ آج کا نوجوان بے روزگاری سے بہت پریشان ہے، لہٰذا اسے تعلیم کی اہمیت بتا کر اس کے حصول کی جانب رغبت دلائی جائے۔ جو نوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیچھے رہ جائیں، انہیں روزگار فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔ سرکاری سطح پر منشیات مخالف قانون کا نفاذ سختی سے کیا جانا چاہئے۔ نوجوانوں میں دینی رجحان پیدا کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ دین اسلام کی روشنی میں منشیات کے نقصانات ان کو ذہن نشین کرائی جا سکیں۔
افتخار احمد اعظمی (سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)
نشے سے پاک زندگی گزاریں تاکہ مثال بن سکیں
نشہ اب ایک ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ اسلئے منشیات کے خلاف بطور سماج ہمارا لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کا آغاز سب سے پہلے اپنے گھروں سے ہونی چاہئے۔ بچوں کو اس کے مضمر اثرات سے آگاہ کریں اور خود نشے سے پاک زندگی گزاریں تاکہ مثال بن سکیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دینی اداروں میں مستقل بیداری مہم چلائی جائے۔ صرف تقریریں نہیں، عملی اقدامات ہوں۔ ویڈیوز، ڈرامے، ورکشاپس اور کونسلنگ سیشنز کے ذریعے بیداری مہم چلائی جائے۔ محلوں اور سوسائٹی سطح پر نگرانی ہواور رپورٹنگ کے نظام ہوں جہاں نشہ فروشوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے۔ قانونی نظام کو سخت، فعال اور غیر لچکدار بنایا جائے۔ سزا صرف کاغذوں تک نہ رہے بلکہ عمل میں آئے۔ بحالی مراکزکی تعداد میں اضافہ کیا جائے جہاں طبی علاج کے ساتھ اخلاقی و دینی تربیت بھی ہو۔
آصف جلیل احمد(چونابھٹّی، مالیگاؤں )
قانونی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے
سب سے پہلے قانونی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جانی چاہئے جو اس معاملے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہو، اس کے خلاف قانونی کارروائی میں تعاون کرے۔ اس کےمنشیات مخالف حکومتی اداروں کے ساتھ بھی تعاون کیا جانا چاہئے تاکہ وہ ان مراکز پر نظر رکھیں اور ضرورت پڑنے پر ان کے خلاف کارروائی کریں۔ سماج کے وہ لوگ جو علم و عمل سے لائقِ احترام ہوں، وہ جگہ پر پہنچ کر منشیات کے عادی لوگوں کی ذہن سازی کریں اورانہیں با عزت زندگی گزارنے کی طرف صحیح رہنمائی کریں تاکہ وہ سماج میں اچھی زندگی گزار کر اپنے اطراف کے ماحول کو منشیات سے پاک کرنے میں معاون بن سکیں ۔ آج کے پرفتن دور میں حقوق العباد کا یہ عمل کسی جہاد سے کم نہیں۔ اس پر عمل کرکے لوگوں کی تباہ ہوتی زندگی کو راہ راست پر لاکر اپنی اور سماج کی صحیح تصویر ملک و بیرون ملک پیش کرکے سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی )
منشیات کے خلاف منصوبہ بندی کیلئے پہلے ہمیں اس کی وجوہات کوسمجھنا ہوگا
منشیات کے خاتمے اور اس کے خلاف منصوبہ بندی کیلئے پہلے ہمیں اس کی وجوہات کوسمجھنا ہوگا۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ان میں پہلی وجہ ذہنی دباؤ ہے۔ یہ دباؤ تیزی سے انسانوں کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے جبکہ تیسری وجہ دوستوں کی صحبت ہے یعنی چار دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو پانچواں دوست دباؤ میں آکر اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔ اس سنگین اور خطرناک لعنت کے خاتمے کا واحد ذریعہ اسلامی قوانین کو اپنانا ہے۔ منشیات کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر قانون سازی کی جانی چاہئے اور اس کے خاتمے کیلئے متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے کوششیں کرنی ہوں گی۔ اس میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کیلئے ہر علاقے میں سینٹرز بنائے جانے چاہیں ۔ اس کے ساتھ ہی زہر فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی بھی ہونی چاہئے۔ اس کیلئے والدین کا اپنے بچو ں پر نظر رکھنے کا عمل بھی انتہائی ضروری ہے۔ بچو ں کے ساتھ ان کے دوستوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی صحبت کے فو ائد بتائیں۔ جہاں اُن کے قدمو ں میں ہلکی سی بھی لرزش نظر آئے اُن پر قابو پانے کی کوشش کریں بصورت دیگر زندگی کا یہ اہم ترین سرمایہ ضائع ہو سکتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔ اس خطرناک وبا سے نجات اسی وقت ممکن ہے، جب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی قومی، ملی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ برسرپیکار ہوجائیں ۔
ش۔ شکیل (اورنگ آباد)
سماجی اور انفرادی سطح پر مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے
اس لعنت کے خاتمے کیلئے صرف وعظ و نصیحت کافی نہیں بلکہ ریاستی، سماجی اور انفرادی سطح پر مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سخت قوانین بنانے اور منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور کڑی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقے میں بحالی مراکز قائم کئے جائیں جہاں نشے میں مبتلا افراد کا بہتر علاج اور ذہنی بحالی ممکن ہو۔ معاشرے کے تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ اس برائی کے خلاف آواز بلند کریں اور نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کریں۔ جب اسلام کی حقیقی تعلیمات دلوں میں قائم ہوں گی، تب ہی اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسان کو جسمانی، ذہنی، اور روحانی طور پر پاکیزہ زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ نشہ آور اشیاء سے بچنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کے نقصانات سے آگاہ کریں تاکہ ہم ایک صحت مند، بااخلاق اور باکردار معاشرہ تشکیل دے سکیں۔
مولانا حسیب احمد انصاری (انچارج عربک ڈپارٹمنٹ آف حراء انگلش اسکول اینڈ جونیئر کالج، مہاپولی)
اس ہفتے کا عنوان
گزشتہ کچھ ہفتوں اور مہینوں سے ملک کی بعض ریاستوں بالخصوص مہاراشٹر میں مساجد میں لگنے والے لاؤڈ اسپیکر کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں۔ آئے دن پولیس وہاں پہنچ جاتی ہے، آواز چیک کرتی ہے، اجازت نامہ طلب کرتی ہے اور ذمہ داران سے طرح طرح کے سوالات کرتی ہے۔ بعض جگہوں پر پولیس خود نہیں پہنچتی بلکہ مسجد کے ذمہ داران ہی کو پولیس اسٹیشن طلب کرتی ہے۔ پولیس کی ان کارروائیوں نے مسلمانوں کو ایک نئے مسئلے میں الجھا دیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
مساجد میں لاؤڈاسپیکر کیخلاف پولیس کی کارروائیوں سے بچنے کیلئے مسلمان کیا کریں ؟اس کا مستقل حل کیا ہوسکتا ہے؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۶؍جولائی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔ ان کالموں میں حصہ لینے والے قلمکار حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں ۔ الگ سے نہ لکھیں۔