Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ، مودی اور اڈانی: جنگ بندی میں پس پردہ کرداروں کی کہانی

Updated: June 29, 2025, 2:25 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اڈانی گروپ پر امریکہ میں قائم مقدمے اور ٹرمپ کا جنگ بندی کا اعلان آپس میں جڑے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں ، اسی لئے مرکزی حکومت اس کی سختی سے تردید نہیں کر پا رہی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ایک ماہ قبل جنوبی ایشیاء ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑا تھا۔ کشمیر کے پہاڑوں سے کراچی کے ساحل تک خوف کی ایک دبیز دھند چھا چکی تھی۔ اپریل کے آخری ہفتے میں پہلگام کے قریب سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعدہندوستان جتنا برہم تھا اس نے وہ برہمی پاکستان پر نکالنے کے لئے باقاعدہ اس کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار دن تک نہ صرف شدید گولہ باری ہوئی بلکہ دونوں ممالک کے عوام بھی ایک ممکنہ ایٹمی تصادم کے سائے میں جی رہے تھے کہ نہ جانے کب دونوں میں سے کوئی ملک خاص طور پر پاکستان غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور ایٹمی حملہ نہ کردے لیکن اچانک چار دنوں کے اندر ہی دونوں ملکوں نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں نے اس وقت سے پہلے کی گئی جنگ بندی کو ’فوجی سطح پر باہمی رابطے‘ کا نتیجہ قرار دیا لیکن عالمی سیاست میں ایک اور بیانیہ سَر اُٹھانے لگا — اور وہ تھا سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا دعویٰ کہ ’’یہ جنگ میں نے روکی ہے۔ ‘‘یہ صرف ایک سیاسی دعویٰ تھا یا اس کے پیچھے کوئی سفارتی حقیقت چھپی تھی؟ اور اس پورے معاملے میں ہندوستان کی حیرت انگیز خاموشی کا اڈانی گروپ کے امریکہ میں جاری قانونی معاملات سے کوئی تعلق ہے؟ یہی سوالات اس مضمون کی بنیاد ہیں۔ 
۱۸؍جون کو ٹرمپ نے ایک انتخابی ریلی میں اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ انہوں نے وزیراعظم مودی اور پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بات کی اور دونوں کو امن پر راضی کیا۔ پاکستان نے تو اسی ہفتے ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کرنے کا اعلان بھی کر دیا مگر ہندوستان نے ایک مرتبہ پھر اس دعوے پر کوئی سخت یا باضابطہ ردِعمل دینے سے گریز کیا۔ ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے بس اتنا کہا کہ ہندوستان کسی تیسرے فریق کی ثالثی تسلیم نہیں کرتا۔ اس مختصر اور محتاط بیان نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ آخر ہندوستان جو ہمیشہ اپنی خودمختاری پر زور دیتا ہے، اس بار ٹرمپ کے بیان پر کیوں خاموش رہا؟
 اس کی وجہ جو ہماری سمجھ میں آتی ہے اور یہ دور کی کوڑی بھی ہو سکتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ اس وقت اڈانی گروپ امریکی عدلیہ میں سنگین الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ نیویارک کی ایک عدالت میں گوتم اڈانی اور ان کے قریبی ساتھیوں پر مبینہ طور پر جھوٹے بانڈ جاری کرنے، امریکی سرمایہ کاروں کو گمراہ کرنے اور ہندوستان میں توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لئےکروڑوں ڈالرس کی رشوت دینے جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ رائٹرز اور فائنانشل ٹائمز کی تحقیقات کے مطابق اڈانی گروپ نے ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی امریکی لابنگ تیز کر دی ہے۔ اڈانی گروپ کے نمائندے مئی اور جون کے دوران کم از کم پانچ مرتبہ امریکی لابنگ فرموں کے ذریعے ٹرمپ کے قریبی مشیروں سے رابطے میں رہے۔ ان ملاقاتوں کا مقصد مبینہ طور پر یہی تھا کہ امریکہ کی عدالتی کارروائیاں کمزور پڑیں اور گروپ کی امریکہ میں سرمایہ کاری بحال ہو سکے جوکہ ان الزامات کے بعد سے انجماد کا شکار ہیں۔ اڈانی گروپ پوری سرگرمی کے ساتھ کوشش کررہا ہے کہ اس پر لگا داغ مٹ جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ٹرمپ کے ’جنگ روکو‘ بیان اور اڈانی کی امریکی مشکلات کا ایک غیر اعلانیہ رشتہ سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم مودی نے نہ تو ٹرمپ کے دعوےکی سختی سے تردید کی اور نہ ہی ان کی ثالثی کے بیانیے کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ خاموشی خود ایک سفارتی علامت تھی۔ اس کے ذریعےاڈانی کو بچانے کا انتظام کرلیا گیا۔ 
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت اس وقت امریکہ سے کسی قسم کا تنازع نہیں چاہتی کیوں کہ اڈانی معاملے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاہدہ پر بھی پیچ پھنسا ہوا ہے۔ تجارت کے ذیل میں بھی اڈانی گروپ کو اہمیت حاصل ہے۔ ایسے وقت جب مودی کے انتہائی قریبی گوتم اڈانی کے صنعتی گروپ پر امریکہ میں شکنجہ کسا جا رہا ہو اسے بچانے کیلئے کوئی نہ کوئی اقدام ضروری تھا۔ اڈانی گروپ ملک کے بنیادی ڈھانچے، بندرگاہوں اور توانائی کے منصوبوں میں سب سے اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ اگر امریکہ میں ان پر مقدمات سخت ہوئے تو اس کا اثر ہندوستان کی معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ساتھ ہی اپوزیشن پارٹیاں بھی حکومت کی ناک میں دَم کرسکتی ہیں۔ لہٰذا مودی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ٹرمپ کے ساتھ کسی براہ راست محاذ آرائی سے امریکی بزنس ماحول متاثر ہو، خاص طور پر اس وقت جب عالمی سرمایہ کاری کا بڑا مرکز ایشیاء بنتا جا رہا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ٹرمپ کا بیان ان کی اس مہم کا حصہ تھا، جس میں وہ خود کو دنیا کا سب سے بڑا امن کا پیامبر اور عالمی لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اڈانی کی موجودگی امریکہ میں سفارتی نرم رویے کو متاثر کر سکتی ہے۔ 
گوتم اڈانی کی لابنگ کے وقت، ٹرمپ کا جنگ بندی کا کریڈٹ لینا، پاکستان کی طرف سے نوبیل انعام کی نامزدگی، اور ہندوستان کی خاموشی  یہ سب مل کر ایک ایسا سفارتی پیٹرن بناتے ہیں جو نئی دہلی، واشنگٹن اور اڈانی کے درمیان تعلقات کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ بظاہر جنگ بندی تو ہو گئی مگر کئی سوال اب بھی تشنہ ہیں : کیا واقعی ٹرمپ نے جنگ رکوائی یا صرف سیاسی فضا سے فائدہ اٹھایا؟ یہ مودی کی خاموشی سفارتی حکمت تھی یا اڈانی کو بچانے کی کوشش؟ کیا اڈانی مقدمے کے فیصلے ہندوستان اور امریکہ تعلقات پر براہ راست اثر ڈالیں گے؟اس وقت تک ہمارے پاس حقائق کم اور قیاس زیادہ ہیں، لیکن جس تیزی سے عالمی سیاست کارپوریٹ مفادات کی باندی بنتی جا رہی ہے اس سے کوئی بعید نہیں کہ ایک سرمایہ دار کی قانونی جنگ عالمی سفارت کاری کا رُخ بدل دے۔ یہ مضمون صرف ایک سیاسی دائو پیچ کا بیان ہی نہیں بلکہ اس بات کی بھی جھلک ہے کہ اکیسویں صدی میں جنگ و امن کے فیصلے محض فوجی اڈوں اور وزارتِ خارجہ کی میزوں پر نہیں بلکہ بورڈ رومس، اسٹاک مارکیٹس اور عدالتوں میں بھی طے ہوتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK