Inquilab Logo

یہ حسن عمل رمضان کے بعد بھی جاری رہے

Updated: May 25, 2020, 9:05 AM IST | Editorial

بندگان خدا میں آئندہ سال اسے دوبارہ پانے کی تمنا جگا کر رمضان کا بابرکت مہینہ رخصت ہوگیا۔ اس سال کا رمضان المبارک کئی زاویوں سے ماضی میں سال بہ سال آنے والے رمضان سے مختلف تھا

Ramadan - Pic : INN
رمضان ۔ تصویر : آئی این این

 بندگان خدا میں آئندہ سال اسے دوبارہ پانے کی تمنا جگا کر رمضان کا بابرکت مہینہ رخصت ہوگیا۔ اس سال کا رمضان المبارک کئی زاویوں سے ماضی میں سال بہ سال آنے والے رمضان سے مختلف تھا۔ وباء کی سنگینی، مریضوں کی پریشانی، اسپتالوں کی زبوں حالی، لاک ڈاؤن کی وجہ سے عائد پابندیاں، مساجد میں حسب معمول باجماعت نمازوں سے احتراز کی احتیاط اور گھروں میں انفرادی طور پر نماز ادا کرنے کی تاکید، محلوں، چوراہوں، بازاروں اور دیگرعوامی مقامات پر سناٹا، صنعت و کاروبار کی حالت زار، غرضیکہ اس رمضان کے دوران جو کیفیت تسلسل کے ساتھ پائی جاتی رہی وہ اُن لوگوں نے بھی کبھی نہیں دیکھی تھی جو عمر کی ۷۰؍ ویں یا ۸۰؍ ویں بہار دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی وباء اس سے پہلے کبھی نہیں پھیلی تھی جس کا ٹیکہ ہے نہ علاج اور جس کی ضرب سہنے کیلئے طبی ڈھانچہ ہے نہ صحت عملہ۔ گویا ہر چیز ناکافی ہے۔ اب بھی اس صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے، آج عید کے دن رب العالمین کی بارگاہ میں الحاح و زاری کے ساتھ ہر خاص و عام کو یہ دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انسانیت پر رحم فرمائے اور اس مہلک وباء سے نجات دِلائے جس نے وطن عزیز کے ہزاروں گھروں کو ماتم کدوں میں تبدیل کردیا اور جس کی وجہ سے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن نے لاکھوں کروڑوں کا ذریعۂ معاش چھین لیا ہے۔ معاشی ماہرین جو پیش گوئیاں کررہے ہیں کہ بے روزگاری اتنی اونچی سطح پر پہنچ جائیگی، حالات کو معمول پر آتے آتے اتنا وقت لگ جائیگا، جی ڈی پی اس حد تک گر جائیگی، وغیرہ، ان کی وجہ سے ایک انجانا خوف ستانے لگا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کا اپنا تجزیہ بھی کچھ ایسے ہی حالات کا تصور اُبھارتا ہے۔ رب العالمین کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سارے مسائل ہیچ ہیں۔ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ وہ چاہے اور اُس کا حکم ہوجائے، جو مسبب الاسباب ہے، تو دیکھتے ہی دیکھتے حالات بدل جائینگے اور موجودہ بے چینی ختم ہوکر سکون و اطمینان سے بدل جائے گی۔ شرط اُس کے حکم کی ہے لہٰذا اُسی سے مانگنے کی ضرورت ہے جو اپنے بندوں سے ستر ّماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔
 وباء اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس دینیہ کا بھی بڑا نقصان ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے ممتاز علمائے کرام نے یہ کہتے ہوئے توجہ دلائی ہے کہ یہ مدارس مضبوط  دینی قلعے ہیں جہاں عقائد، عبادات اور روحانی اقدار کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ ہر سال ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کے سفراء رمضان المبارک ہی میں مختلف شہروں کا دورہ کرتے ہیں اور صاحبان استطاعت سے امداد وصول کرتے ہیں۔ اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ سےکچھ بھی ممکن نہیں ہوسکا۔ اب چونکہ رمضان بھی رخصت ہوچکا ہے اس لئے ایسا نہ ہو کہ مدارس دینیہ کو فراموش کردیا جائے۔ اس سلسلے میں ہر شخص کو سوچنا چاہئے کہ وہ خود تو اپنی نئی نسل کیلئے علوم اسلامیہ کی تدریس کا فرض انجام نہیں دے سکتا لہٰذا جو لوگ اور ادارے اس کار خیر میں مصروف ہیں، معاشی پریشانی اُن کا راستہ نہ روکے۔ جب یہ فکر بیدار ہوگی تو ہم رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں بھی دینی مدارس کی معاشی سرپرستی کو اپنے پر لازم کرسکیں گے۔ آج عید کے دن یہ دُعا بھی ہو کہ رب العالمین دین کے ان مضبوط قلعوں کو جن پر مخالفین کی نگاہیں ہمہ وقت جمی رہتی ہیں، ہر طرح کی مشکل، مصیبت اور پریشانی سے محفوظ رکھے اور ان کی خدمات کو دوام عطا فرمائے (آمین)۔ 
 کون نہیں جانتا کہ موجودہ حالات نے سب سے زیادہ آزمائش اُن لوگوں کیلئے پیدا کی ہے جو سماج کے بالکل نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاکھوں مزدور ملک بھر میں انتہائی پریشانی کے عالم میں طویل مسافتیں پیدل طے کرنے پر مجبور ہوئے۔ آنے والے مہینے اُن تمام کیلئے مزید سختی کے ہونگے اس لئے رمضان کے جذبہ ٔ خیر کو رمضان تک محدود نہ رکھا جائے۔ ہمیں ان کی  مدد آئندہ بھی جاری رکھنی ہوگی

eid Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK