Inquilab Logo

دیوار پر بنی ہوئی تصویریں

Updated: November 20, 2023, 1:46 PM IST | Muhammad Aleem Ismail | Nandora

وہ ایک بڑی سی دیوار ہے جو ہر روز مجھے خواب میں دکھائی دیتی ہے۔ ہرروز اس کا قد تھوڑا سا بڑھ جاتا ہے۔ اور چوڑائی بھی۔دھیرے دھیرے وہ دیوار بڑی ہوتی جارہی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وہ ایک بڑی سی دیوار ہے جو ہر روز مجھے خواب میں دکھائی دیتی ہے۔ ہرروز اس کا قد تھوڑا سا بڑھ جاتا ہے۔ اور چوڑائی بھی۔دھیرے دھیرے وہ دیوار بڑی ہوتی جارہی ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ اس دیوار پر کچھ تصویریں بنی ہوئی ہیں اور دیوار کے ساتھ ساتھ ان تصویروں کی جسامت بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔لیکن وہ دیوار ہر روز میرے خواب میں آجاتی ہے اور اس پر بنی ہوئی تصویریں مجھے اپنے پاس بلاتی ہیں۔ان تصویروں میں عجیب سی کشش ہے۔کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کی جانب کھنچا چلا جاتا ہوں۔جب میں اُنکے پاس نہیں جا پاتا تو وہ تصویریں رونے لگتی ہیں۔اور اُن کی رونے کی آواز سے میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ کھو گیا ہے۔نہیں! سب کچھ کھو گیا ہے۔بے ترتیب رونے کی آوازیں بڑی ڈراؤنی محسوس ہوتی ہیں۔
بہت سی تصویریں بنی ہوئی ہیں اس دیوار پر اور وہ  تمام تصویریں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئی ہیں۔ گھوڑا، گائے، ہاتھی، کبوتر، چڑیا، کوّا، جن، پری، بادشاہ، فقیر، گھوڑے پر سواری کرتا ہوا آدمی اور نجانے کس کس کی تصویریں....
لیکن کچھ بھی صاف صاف نظر نہیں آ رہا ہے۔ سب کچھ دھندلا دھندلا سا ہے۔ وہ سارے منظر دھوئیں کی چادر سے لپٹے ہوئے ہیں۔ پل بھر کے لئے دھواں چھٹتا ہے اور پھر گہرا ہو جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے اُس دیوار کو کہیں دیکھا ہے۔لیکن یاد نہیں آ رہا ہے۔ کہاں دیکھا؟کہاں؟ کہاں؟ کہاں؟یہاں امریکہ میں؟نہیں تو؟گاؤں میں؟ لیکن میں تو گزشتہ بیس برس سے گاؤں گیا ہی نہیں ہوں۔ گاؤں میں ایسی کوئی دیوار ہے بھی یا نہیں، مجھے یاد نہیں۔
تو پھر کہاں؟کچھ یاد نہیں آ رہا ہے۔جب سے یہ خواب آنے لگا ہے۔ تب سے یہاں امریکہ میں میرا من لگتا نہیں۔ پھر ایک روز ضروری ساز و سامان آپ ہی آپ بیگ میں جمع ہو گئے۔ اور وہ بیگ اچھل کر میرے ہاتھوں میں آ گیا۔ قدم خود بخود اٹھنے لگے۔ نا معلوم منزل کی طرف سفر شروع ہوا۔ جب ہوش آیا تو میں اپنے گاؤں میں تھا۔
سب کام کاج چھوڑ چھاڑ کر میں امریکہ سے گاؤں آ گیا۔ میں تو ایک منٹ بھی باہر نہیں رہتا تھا۔
اگررہتا تو بے چین ہو جاتا۔ ایک دن بھی اپنے کام سے دور نہیں رہ سکتا تھا۔ اگر رہتا تو بے چین ہو جاتا۔ اب یہاں ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔ لیکن سکون ہے۔ گھر پریوار کے لوگوں سے بیس برس بعد ملاقات ہوئی۔پرانے دوست ملے۔ خوب ہنسی مذاق ہونے لگے۔ گھنٹوں ساتھ گزرنے لگے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ گزرے ہوئے دن لوٹ آئے ہیں۔چاروں طرف سکون کی چادر تن گئی ہے۔
ایک ہفتہ گزر گیا، یہاں گاؤں میں رہتے رہتے۔ لیکن سکون ہے۔ بے چینی نام کو نہیں۔ ارے وہ خواب!!! ہاں!!! وہ خواب۔ اور وہ دیوار.... اور وہ تصویریں.... اور وہ رونے کی آوازیں... سب کچھ کھو دینے کا احساس.... بہت دن ہوئے خواب آیا نہیں۔ کب سے نہیں آیا؟  یاد نہیں آ رہا ہے۔ میں ذہن پر زور دے رہا ہوں لیکن کوئی جواب مل نہیں رہا ہے۔ اب وہ خواب میں بھول چکا ہوں۔ ایسا کیوں ہوا؟ خواب آنا بند کیوں ہو گیا؟ کیوں؟ میں ذہن پر زور دے رہا ہوں لیکن کوئی جواب مل نہیں رہا۔
میرے دوست آگئے ہیں۔ہاں وہ بچپن کے دوست۔ گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ وہ مجھے بلارہے ہیں۔ روزانہ شام کو ہم گھومنے جاتے تھے، سیر سپاٹا کرتے تھے، بچپن میں، لڑکپن میں.... اور اب بھی جا رہے ہیں۔ اب یہ روز کا معمول ہے، بچپن کی طرح، لڑکپن کی طرح....
  میں ستائیس برس کا تھا جب امریکہ چلا گیا  اور بیس برس وہاں کام کرتے کرتے گزر گئے۔ اب لگتا ہے کہ زندگی کے اہم دن کہیں کھو گئے۔ میں اور گاؤں میں موجود میرے سبھی دوست عمر کی سیڑھیاں دھیرے دھیرے چڑھ رہے ہیں  اور چڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کنپٹی، سر، اور داڑھی کے بالوں میں سفیدی اتر رہی ہے۔ روز کے معمول کے مطابق ہم گھومنے نکل گئے۔ندی میں نہائے، ریتیلے میدان پر تیز تیز چلنے کا لطف اٹھانے لگے اور تھک کر بیٹھ گئے۔پھر تھوڑا دم لینے کے بعد کھیتوں میں پگڈنڈی پر چلنا شروع کیا۔ چلتے چلتے ہم نے مکئی کے بھٹے توڑ لیے۔ کھیت میں بنی ہوئی جھونپڑی میں بیٹھ کر اُن بھٹوں کو بھونا اور خوب مزے سے کھایا۔ گھومتے گھومتے شام ہو گئی۔ شفق نمودار ہوئی... اور سورج پہاڑ کے پیچھے چھپنے کی تیاری کرنے لگا۔ درختوں کی نہ ختم ہونے والی قطار اور سرسراتے ہوئے پتوں نے ماحول کو پراسرار بنا دیا۔ چلتے چلتے ہم کھنڈرات تک جا پہنچتے۔ کچھ بچے ادھر ادھر دھینگا مشتی کر رہے ہیں۔ کچھ کھیل رہے ہیں اور کچھ ایک بڑی سی دیوار پر اینٹ، کوئلے اور نوکیلے پتھروں کے ٹکڑوں سے آڑی ترچھی لکیریں بنا رہے ہیں.... جس سے کچھ تصویریں ابھر رہی ہیں۔ وہ دیوار میرے سامنے ہے۔
وہ دیوار.... ہاں وہی دیوار جو امریکہ میں میرے خواب میں آتی رہی۔ یہی ہے وہ دیوار۔ اسے دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ اور مجھے سب کچھ یاد آ گیا۔ ہاں سب کچھ..... میں نے دیکھا اس پر کچھ تصویریں بنی ہوئی ہیں جو ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئی ہیں۔ اینٹ، پتھر اور کوئلے کے ٹکڑے میرے استقبال کے  لئے نیچے اتر آئے۔ میں نے ان ٹکڑوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور میرے قدم خود بخود دیوار کی جانب بڑھنے لگے۔
میں ایک بچے کے پاس جا کھڑا ہوا۔ وہ بچہ میری طرف مڑا۔ میری نظر جیسے ہی اس کے چہرے پر پڑی میرے ہاتھ سے اینٹ، پتھر اور کوئلے کے وہ ٹکڑے چھوٹ گئے......میں نے دیکھا...... وہ میں تھا...... ہاں!! بالکل میں....آٹھ دس برس کا.... ہاتھوں میں اینٹ، پتھر اور کوئلے کے ٹکڑے لئے مسکراتا کھڑا تھا اور دیوار پر بنی ہوئی تصویریں بھی مسکرا رہی تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK