ادب، اقدار اور پاپولر کلچر کے حوالے سے معروف نقاد اور دانشور دیوندر اسر کا یہ مضمون اہمیت کا حامل ہے، ملاحظہ کیجئے:
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 12:29 PM IST | Devendra Asr | Mumbai
ادب، اقدار اور پاپولر کلچر کے حوالے سے معروف نقاد اور دانشور دیوندر اسر کا یہ مضمون اہمیت کا حامل ہے، ملاحظہ کیجئے:
کسی صبح ہم اٹھیں اور خبر ملے کہ ہومر، کالی داس، فردوسی، شیکسپئر، غالب، پرساد کے شاہکار کسی زلزلے یا آگ سے فنا ہوگئے ہیں تو شاید چند سنکی لوگوں کے سوا کسی کو غم نہ ہوگا کہ کوئی حادثہ ہوگیا ہے۔ اخباروں میں زلزلے اور آگ اور کسی لیڈر کے دورے اور تقریر اور غم کے اظہار کی خبر ضرور چھپ جائے گی۔ ادب کی ضرورت کسی کو بھی نہیں ہے۔ دھوبی، نائی، کسان، انجینئر، سرکاری ملازم، فوجی، سپاہی، ڈاکٹر، رکشا والے، سیاستداں، مل مزدور، کسی کو بھی میگھ دوت، ہیملیٹ، شاہنامہ، اوڈیسی، دیوانِ غالب یا کامائنی کی ضرورت نہیں، سب لوگ اپنے اپنے شعبوں میں ان کے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ کاروبار میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور آرام دہ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ ادب زندگی کا اہم مسئلہ نہیں۔ عام لوگوں کے لئے جن میں خواص بھی شامل ہیں، امیر، غریب، متوسط طبقہ، تعلیم یافتہ، ناخواندہ، نوعمر اور عمررسیدہ کسی کے لئے بھی ادب کی کوئی اہمیت نہیں۔ ادب شاید کچھ ادیبوں کو چھوڑ کر موجودہ دور میں شہرت، رتبہ، دولت، مقبولیت کچھ بھی نہیں دے سکتا جب تک کہ ادیب ادارہ بندی کا اسیر نہ ہوجائے اور ادب کو تفریح کے عمومی فارمولوں کی سطح پر نہ لے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ادیب اور عوام میں اکثر ایک سماجی اور ذہنی فاصلہ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی قوم کا کلچر فلم، کرکٹ اور ٹیلی ویژن اور صارفیت تک محدود ہوجائے تو حالات اس سے بہتر نہیں ہوسکتے۔
ادیب اور فنکار عام لوگوں سے اگر برتر نہیں تو الگ ضرور سمجھے جاتے ہیں۔ فنکار اور عوام کے مابین ایک ذہنی فاصلے کے باوجود لوگوں کے ذہن میں اُن کی جداگانہ حیثیت کے ساتھ ساتھ اُن کا ایک رومانی تصور بھی ہوتا ہے کہ وہ سماج کے باشعور اور حساس افراد ہیں جن کے باعث ادب اور فنونِ لطیفہ کو اپنے عہد کی ثقافت میں مرکزی اور ممتاز مقام حاصل ہوتا ہے۔ سامنتی دَور میں انہیں راجاؤں، سامنتوں اور اشرافیہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان کے پاس دولت تھی، تعلیم تھی، فرصت تھی اور وہ باذوق سمجھے جاتےتھے۔ ماس میڈیا کی ہماہمی اور غلغلہ سے قبل ادب اور فنکار شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے سرپرستوں اور اپنے قارئین، ناظرین اور سامعین سے متاثر ہوتے تھے۔ ان کی فکر اور تحریر پر اس کا اثر پڑنا ناگزیر تھا۔ ادب کا مواد اور موضوع ہی نہیں بلکہ اس کا فارم اور اسلوب بھی اس سے متاثر ہوتے تھے۔
موجودہ دور میں ماس میڈیا کی وسعت اور مقبولیت کے باعث کلچر، درباروں اور محلوں کی دیواروں سے باہر نکل کر عام لوگوں کے گھروں میں داخل ہورہا ہے۔ عام لوگوں کے شعور کے ساتھ ساتھ ان کی سماجی حیثیت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب عام لوگ بھی ’’سماج‘‘ میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل سماج سے مراد ایک مخصوص برسرِاقتدار طبقہ تھا۔ اس طبقے کے ادب اور فن، کلاسیکی ادب اور فن کو جہاں جدیدیت سے نبردآزما ہونا پڑا وہیں عوام کی نئی ابھرتی ہوئی تہذیب نے بھی چیلنج کیا ہے۔ لوک سنسکرتی اور ادبی ورثہ نے بھی اس کے اثر کو کم کرنے میں کوئی کم رول ادا نہیں کیا۔ جب ماس میڈیا کے وسائل عام ہوگئے اور عام لوگوں کی رسائی ادب اور فن تک ممکن ہوسکی تو پاپولر کلچر کی نموتیزی سے ہونے لگی۔
لیکن پاپولر کلچر سے ادیب اور فنکار، مفکر اور دانشور اور کچھ ماہرین نفسیات اور سماجیات بڑے پریشان ہوئے۔ انہوں نے بارہا اس خدشے کا اظہار کیا کہ فن اور ادب کی اعلیٰ قدریں ختم یا مسخ ہورہی ہیں۔ شائستہ ادب اور فن کے قارئین، ناظرین اور سامعین کا دائرہ سمٹ کر بہت ہی محدود ہوتا جارہا ہے۔ اسی لئے آج زندگی کے بارے میں اہم اور بنیادی سوالات نہیں پوچھے جارہے ہیں اور نہ ان کے جواب کی کوئی سنجیدہ تلاش کی جارہی ہے۔ پاپولر کلچر کی اصطلاح کئی معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ عمومی، عوام پسند، مقبول عام اور عامیانہ۔ یہ اس پر منحصر کرتا ہے کہ ہم کون سا رویہ اپناتے ہیں۔ تعلیم کی اشاعت جمالیاتی ذوق کی پرورش کرنے میں پوری طرح ناکام نہ سہی، بے اثر ضرور ثابت ہوئی ہے۔ اس لئے تعلیم بھی ادب اور ثقافت کی نشوونما میں ممد ثابت نہیں ہورہی ہے اور نہ ہی انسان کی حس ِ لطیف اور نفاست کو تیز کررہی ہے۔ ایک دور میں یہ خیال عام تھا کہ عام لوگوں کی تعلیم ہماری ثقافتی پسماندگی کو دور کر دیگی۔ اگر تعلیم عام ہو تو تہذیبی احیا اور ادبی اقدار کی اشاعت ممکن ہوسکتی ہے، لیکن تعلیم کے فروغ کی بے پناہ کوشش (عام پرچار) سے بھی یہ امید پوری نہیں ہوئی۔
یہ صحیح ہے کہ اب زیادہ لوگ کتابیں اور رسالے پڑھتے ہیں لیکن کیا یہ جمالیاتی ذوق یا روحانی بالیدگی کیلئے ہے یا تفنن طبع اور نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے؟ یا وقت گزارنے اور نیند لانے کے لئے؟ ان میں ادبی کتابیں اور رسالے بہت ہی کم ہیں۔ سائنس، ادب اور کلچر کے شعبوں میں سستی کتابیں بھی شائع ہورہی ہیں لیکن ذوق کی تربیت عنقا ہے۔ رچرڈ ہوگرڈ نے اپنی کتاب ’’دی یوسس آف لٹریسی‘‘ میں اس مسئلے کا گہرا سائنسی تجزیہ کیا ہے۔ اس نے تحریر کیا ہے کہ یہ خیال غلط ثابت ہوگیا ہے کہ جو لوگ معاشی مجبوریوں کے باعث جمالیاتی ذوق سے محروم رہ جاتے ہیں، تعلیم ان کے لئے ایسے مواقع مہیا کریگی جن سے وہ ادبی ذوق کی تسکین کرسکیں گے لیکن اگر آج ہم عام لوگوں اور تہذیب یافتہ لوگوں کی زبان کاذرا غور سے مطالعہ کریں تو ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ بگڑے ہوئے شہری لوگوں کی زبان ہے۔ اس لئے جہاں پاپولر کلچر کی نشوونما کیلئے سماجی اور تکنیکی ماحول سازگار ہورہا ہے وہیں اس کے خلاف ایسی فضا تیار ہوچکی ہے۔
آخر پاپولر کلچر کے خلاف دائر کیس کے بنیادی نقطے کیا ہیں ؟
(۱) ہر سماج میں معدودے چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو باذوق ہوتے ہیں یا جن میں ادب اور فن کی خلاقانہ صلاحیت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ایک مخصوص مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور وہ ادب اور فن کی تخلیق کیلئے سازگار ماحول تیار کرتے ہیں۔ تعلیم کے پرچار کیلئے یہ ضروری نہیں کہ یہ دائرہ وسیع ہوجائیگا۔ تخلیقی قوت اور فنی اپج ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کسی کو ادبی پرکھ اور اس کی قدر متعین کرنے اور اس سے محظوظ ہونے کی صلاحیت اور استطاعت حاصل ہوتی ہے۔
(۲) ماس میڈیا/پاپولر کلچر (مَیں نے یہاں ماس میڈیا اور پاپولر کلچر کو ایک ہی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے حالانکہ کمیونکیشن کی سماجیات کی رو سے یہ صحیح نہیں۔ دونوں میں کئی اجزاء کے مشترک ہونے کے باوجود فرق ہے) طبع زاد رنگ کا حامل نہیں ہوتا۔ اس کا فکر اور اظہار منفرد اور مخصوص نہیں ہوتا، اجتماعی اور عمومی ہوتا ہے، اس میں یکسانیت کے باعث جدت، وسعت اور گہرائی ممکن نہیں اور یہ ایک موضوع، مواد اور طرز اظہار کے محدود دائرے میں ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ ہم ایک ہی طرح کے گانے سنتے ہیں، ایک ہی طرح کی فلمیں دیکھتے ہیں، ایک ہی طرح کے رسالے پڑھتے ہیں۔ مسلسل پرچار اور اشتہار کے باعث ہمارا ذوق یکساں ہوتا جارہا ہے۔ ہمارا نجی فیصلہ، پسند اور ذوق دھیرے دھیرے اس کا شکار ہورہے ہیں، یا تو وہ ختم ہوجاتے ہیں یا عمل میں نہیں آسکتے، اور ہم ایک بے معنی مجہولیت کا شکار بن کر رہ جاتے ہیں۔
(۳) ماس میڈیا/پاپولر کلچر ادیب، فن کاروں اور دانشوروں کے بجائے شوبزنس کے اداکاروں کو پیش کرتا ہے۔ اگر اہل علم و دانش ان پروگراموں میں پیش ہوتے ہیں تو وہ بھی ایک قسم کا ’’رول پلے‘‘ کرتے ہیں۔ فلم اور ٹی وی ہیرو کو مقبول بناتے ہیں، ہیرو کوئی بھی ہوسکتا ہے، اس کیلئے غیرمعمولی ذہانت و صلاحیت کی ضرورت نہیں۔ کلچر کے زوال کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آج کوئی عظیم ہستی پیدا نہیں ہوتی، سب معمولی ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ اینٹی ہیرو کا دور ہے جو حالات کو اپنے آدرش کے مطابق موڑنے کے بجائے خود حالات کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ آج کوئی بھگت سنگھ ہیرو نہیں بن سکتا کیونکہ بھگت سنگھ کے پاس جذبہ تھا، نصب العین تھا، ماس میڈیا کی براہ راست اور پوشیدہ طور پر ذہنوں کو متاثر کرنے والی قوت نہیں تھی۔
(۴) ادب اور فن کے خلاف سب سے بڑا حربہ جو استعمال میں لایا گیا ہے وہ ماس میڈیا ہے۔ فلم، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور کثیرالاشاعت رسالے (ویسے یہ ادب کے نام پر بہت کچھ شائع اور نشر کرتے رہتے ہیں ) ماس میڈیا نے ایک غیراخلاقی، غیرجمالیاتی اور لمحاتی لذت پرستانہ تفریحی ادب کی اشاعت میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ ہم کیا کھائیں، کیا پہنیں، کیا خریدیں، کیا سوچیں، کیا دیکھیں، کس کی سرپرستی کریں، کس سے نفرت کریں، کیا پسند کریں، کیا ناپسند کریں، کیا پڑھیں کیا نہ پڑھیں، یہ سب کچھ ماس میڈیاطے کرتا ہے اور یہ سب کچھ پوشیدہ نفسیاتی طور پر نیم شعوری اور بعض اوقات براہ راست شعوری تحریک کے مطابق ہوتا ہے۔
(۵) پاپولر کلچر لوگوں کی توجہ ان کے پیچیدہ اور سنجیدہ مسائل کی طرف نہیں دلاتا بلکہ ہر چیز کو سطحی طور پر پیش کرتا ہے۔ مسائل کا مطالعہ بھی سطحی اور ان کا حل بھی سطحی۔ اس طرح یہ مسائل اور زیادہ الجھتے جاتے ہیں۔ اسی لئے جب تک کسی دیش میں کوئی بحرانی صورت پیدا نہیں ہوتی، عوام فعال نہیں ہوتے۔ اہل علم و دانش لوگوں کی توجہ ان کے روزمرہ کے مسائل اور زندگی کی طرف دلاتے ہیں ، لیکن ماس میڈیا سے متاثر لوگ حقیقت سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ جدید دور نے ایک ایسے روحانی خلا کو جنم دیا ہے جس میں تلاش، مسرت اور خام جذبات اور جبلتوں کی بے روک ٹوک تسکین کو زندگی کا مقصد تسلیم کرلیا جاتا ہے۔
…… اور یہ فہرست بہت طویل ہے۔
(بحوالہ:ادب کی آبرو )