Inquilab Logo Happiest Places to Work

اَدب اور فن کا اکھوا، خاموشی، تنہائی اور دھیمے پن کی شاخ سے پھوٹتا ہے

Updated: June 22, 2025, 12:07 PM IST | Javeria Qazi | Mumbai

جنگ کا انجام کبھی خوشگوار نہیں ہوتا، جنگ چاہے کسی بھی نام سے ہو مذہب، زمین، نسل یا سیاست، اس کا نتیجہ ہمیشہ خون، آنسو اور بربادی کی شکل میں نکلتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

بیسویں صدی تاریخ کی سب سے زیادہ پر تشدد صدی تھی۔ اکیسویں صدی کے شانوں پر اسی روایت کا بوجھ ہے۔ جسمانی تشدد سے قطع نظر، تہذیبی، لسانی، سیاسی اور جذ باتی تشددکے بے شمار مظہر اس صدی کی تہہ سے نمودار ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ اس صدی کی اجتماعی زندگی کے عام اسالیب بھی تشدد کی گرفت میں ہیں۔ اس عہد کی رفتار، آواز، آہنگ اور فکر ہر سطح پر تشدد کے آثار نمایاں ہیں ۔ میلان کنڈیرا کا خیال ہے کہ یہ صدی دھیمے پن کا جادو سرے سے گنوا بیٹھی ہے۔ 
ادب اور فن کا اکھوا، خاموشی، تنہائی اور دھیمے پن کی شاخ سے پھوٹتا ہے۔ ہر بڑی تخلیقی روایت کا ظہور، فن کارانہ ضبط اور تحمل سے ہوتا ہے۔ ایک بے قابو اور بے لگام معاشرہ میں جو اپنی رفتار، آواز، اعصاب اور حواس کو سنبھالنے کی طاقت سے محروم ہو چکا ہو، ادب اور فن ایک دفاعی مورچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ’’ہائپر مرکنٹائل‘‘ عہد میں ادب، فن اور فلسفہ تاریخ کے حاشیے پر چلے گئے ہیں، تخلیقی سر گرمی ایک فالتو اور بے اثر سر گرمی بن چکی ہے۔ کہیں ادب میں انسان دوستی کا تصور بھی صرف تخیل تو نہیں ؟ لیکن ایک اور سوال ابھرتا ہے کہ کیا دنیا کی کوئی ادبی روایت و ثقافت میں بہت کچھ مشترک بھی ہے؟ فوسٹر نے ایک سیدھی سادی بات کہی تھی کہ ادب اور فن ہمیں جانوروں سے الگ کرتے ہیں اور طرح طرح کی مخلوقات سے بھری دنیا میں ہمارے لئے ایک بنیادی وجہِ امتیاز پیدا کرتے ہیں گویا کہ انسانی تعلقات کے احساس اور ادراک کے بغیر ادب، فن اور زندگی سب بے معنی اور کھوکھلے ہو جاتے ہیں ۔ 
سائنسی اور سماجی علوم کے برعکس ادبی روایات کی پائیداری اور استحکام کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسانی تجربے کے جن عناصر سے یہ روایتیں مالا مال ہوتی ہیں وہ نئے نظریات کے چلن کی وجہ سے کبھی ناکارہ نہیں ہونے پاتیں۔ بہت محدود سطح پر سہی یہ روایتیں اجتماعی زندگی کے ارتقا میں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ بقول ایلیٹ، ایک انوکھا اتحاد انسانی تاریخ کے مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والی روحوں کو ایک صف میں یکجا کر دیتا ہے بظاہر اجنبی اور پرانی آوازوں میں نئے انسان کو اپنا آہنگ بھی محسوس ہوتا ہے۔ رومی، حافظ، شیکسپئر، اقبال اور ٹیگور ایک ساتھ صف بستہ ہو جاتے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کے بابِ داخلہ پر شیخ سعدی کا مصرعہ کہ ’’بنی آدم اعضائے یک پیکرند ‘‘ (ترجمہ: بنی نوع انسان ایک دوسرے کےاعضاء ہیں ) سے اسی رویے کا پتا ملتا ہے لیکن نسل پرستانہ عزائم والوں نے انسان دوستی کے تصور کو ایک سیاسی حربے اور آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ادب ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان کی داخلی طلب صرف مرئی، ٹھوس اور مادی چیزوں تک محدود نہیں ہوتی اسی لئے دنیا کی تمام تہذیبیں، مذاہب اور نظریے ایک بنیادی اصول پر متفق ہیں، انسانیت سب سے مقدم ہے۔ ادب دنیا کے ہر خطے میں انسانی جذبات، تجربات اور رویوں کا آئینہ دار رہا ہے۔ زبانیں، تہذیبیں اور قومیں مختلف ہو سکتی ہیں مگر ادب کا مرکزی موضوع انسان اور انسانیت ہی رہا ہے۔ عالمی ادب ہمیں ہمدردی، محبت، انصاف، رواداری اور احترام آدمیت کی قدر سکھاتا ہے۔ 
قدیم یونانی ادب میں ہومر کےرزمیہ اشعار میں انسانوں کی بہادری کے ساتھ ساتھ ان کی کمزوریوں کو بھی دکھایا گیا، شیکسپیٔر نے اپنے ڈراموں میں انسانی فطرت کے رنگ ( محبت، حسد، نفرت، وفا، لالچ، ندامت) دکھائے اور بتایا کہ انسان کتنی پیچیدہ مگر خوبصورت مخلوق ہے۔ چارلس ڈکنز نے صنعتی انقلاب کے دور میں غربت، استحصال اور بچوں کی حالت ِ زار پر قلم اٹھایا۔ اس کی تحریریں ہمیں انسانیت کے نقطۂ عروج تک لے جاتی ہیں۔ جارج آرویل اور الڈس ہکسلے نے ادب کو ظلم و جبر اور بے حسی کے خلاف ہتھیار بنایا۔ ان کا ادب آج بھی تحفظِ انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ ٹالسٹائی اور چیخوف جیسے روسی ادیبوں نے انسان کی باطنی کشمکش، اخلاقی بحران اور خدا کے تعلق کو گہرائی سے پیش کیا۔ ٹالسٹائی کا ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘انسان کی بقا، محبت اور قربانی کی شاندار مثال ہے۔ افریقی، لاطینی، امریکی اور ایشیائی ادیبوں نے نو آبادیات، نسل پرستی، ظلم، غربت اور شناخت کے مسائل کو انسانیت کے نقطۂ نظر سے بیان کیا۔ ٹیگور نے لکھا ہے: ’’جہاں ذہن بے خوف ہواور سر فخر سے بلند ہو وہاں انسانیت زندہ رہتی ہے۔ ‘‘ سعدی ؔکے نزدیک اگر ایک انسان دکھ میں ہے تو باقی انسانوں کا بے حس رہنا خلافِ انسانیت ہے۔ رومی ؔ کے نزدیک انسان کا اصل جوہر محبت ہے اور انسانیت اسی محبت کا عملی اظہار ہے۔ حافظؔکی شاعری میں تصوف اور انسان دوستی ایک ساتھ چلتے ہیں ۔ 
مراٹھی ادب میں بھی انسانیت کا تصور نمایاں اور اہم رہا ہے۔ اس میں انسانیت کا تصور بھکتی تحریک سے شروع ہوتا ہے۔ سنتوں نے ذات پات، اونچ نیچ اور مذہبی منافرت کے خلاف آواز بلند کی۔ سنت تکا رام، سنت ایکناتھ، سنت نامدیو اور جانا بائی نے اپنے ابھنگ اور بھجن کے ذریعے انسانیت، اخوت اور محبت کا پیغام دیا۔ ان کی شاعری میں بھکتی صرف عبادت نہیں بلکہ انسانوں سے محبت، ان کی خدمت اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کا نام ہے۔ ساوتری بائی پھلے اپنی ایک نظم میں عورت کو یوں مخاطب کرتی ہیں : ’’ اٹھ! علم کا ہتھیار تھام/ ظلم کے قلعے ڈھا دے / خود کو پہچان، خود کو مان، تو ہی انسانیت کی بنیاد ہے !‘‘ 
ساحرؔ لدھیانوی کے لا فانی مصرعے ’’جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے‘‘ کو آج کے عالمی منظر نامے میں دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے، کاش توپ خاموش ہو اور قلم بول رہا ہو، میدانِ جنگ کی بجائے کھیتیاں لہلہا رہی ہوں، جب سرحدوں پر سپاہی نہیں بلکہ دوستی کے پل ہوں تبھی انسانیت سکون کا سانس لے سکتی ہے۔ آج کے پُرآشوب عالمی منظرنامے میں ’’جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے‘‘ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ وقت کی سب سے اہم اور فوری ضرورت بن چکا ہے۔ جنگ کا انجام کبھی خوشگوار نہیں ہوتا، جنگ چاہے کسی بھی نام سے ہو مذہب، زمین، نسل یا سیا ست، اس کا نتیجہ ہمیشہ خون، آنسو اور بربادی کی شکل میں نکلتا ہے۔ بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں نے یہ سچائی پوری دنیا کے سامنے رکھ دی۔ آج کے دور میں جنگ صرف میدان میں سپاہیوں کے ٹکراؤ تک محدود نہیں بلکہ ایٹمی ہتھیار، ڈرونز، کیمیائی گیس، سائبر حملے، اور میڈیا پروپیگنڈا اسکی نئی شکلیں ہیں۔ 
امن کی طاقت جنگ سے کہیں زیادہ ہے۔ جنگ وقتی فتح دے سکتی ہے لیکن مستقل حل نہیں۔ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ امن، بات چیت، سفارت کاری اور بین الاقوامی ادارے جیسے اقوام متحدہ، عالمی عدالت ِانصاف اور جی۲۰ ؍ جیسے فورم پائیدار ترقی اور استحکام کی ضمانت ہیں۔ دنیا کے طاقتور ممالک کے سر براہان کو تعلیم، شعور اور مکالمہ جیسی اصطلاحات سے روشناس ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر دنیا کے نوجوانوں کو ہتھیاروں کی جگہ کتابیں دی جائیں، اگر اقوامِ عالم اپنے وسائل جنگ کے بجائے فلاح و بہبود پر صرف کریں، اگر سیاسی قیادت نفرت کی جگہ مفاہمت کو ترجیح دے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا ایک پرامن اور خوشحال مقام نہ بن جائے۔ 
آج جب دنیا نئے خطرات، نئی ٹیکنالوجی اور تیز تر تبدیلیوں سے دوچار ہے، جنگوں کو ٹالنا اور امن کو فروغ دینا وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ جنگ جیتنے سے بہتر ہے جنگ کو روک لینا کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ نئے مسائل کی بنیاد ہے۔ لہٰذا، جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے کا نعرہ سب کا نعرہ ہو۔ 
آج کا انسان خلا کی وسعتوں کو کھنگال رہا ہے، سمندروں کی شناوری کر رہا ہے، فاصلوں کو زیر کر چکا ہے مگر دل سے دل تک کا فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ ساحرؔکا یہ مصرعہ شاعرانہ اظہار ہی نہیں بلکہ انسانیت کی اجتماعی عقل، تجربے اور درد کا نچوڑ ہے۔ الفاظ سے انقلاب لانے والے ساحرؔ کے پیغام میں امن کی وکالت ہی نہیں ہے، انسان کو اس کے انجام کی خبر بھی دی گئی ہے۔ یہ مصرعہ اُس وقت لکھا گیا جب دنیا پر جنگی جنون چھایا ہوا تھا، ہتھیاروں کی دوڑ، ایٹمی تجربے اور جنگی نفسیات عام تھی۔ ایسے میں ساحرؔنے انسان کو آئینہ دکھایا کہ جنگ کا مطلب جیت نہیں، بربادی ہے۔ آج جب دنیا پھر ایک بار جنگوں کے دہانے پر کھڑی ہے تب یہ مصرعہ گویا ایک عالمی دعا بن گیا ہے۔ ساحرؔکی شاعری ہمیشہ انسان کی قیمت پر بات کرتی ہے۔ یہ مصرعہ یاد دلاتا ہے کہ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا صرف لاشیں، بیوائیں، یتیم، اجڑے شہر، اور بکھرے خواب رہ جاتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK