• Tue, 21 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

چائے سے جائے مفر نہیں!

Updated: October 21, 2025, 4:50 PM IST | Khalid Raza | Mumbai

چائے کو ہندوستان کا قومی مشروب کہہ سکتے ہیں ۔ وطن عزیز کے باسیوں کی اکثریت کی صبح کی شروعات بھاپ اڑاتی ہوئی چائے کی پیالی کی چسکیاں لیتے ہوئے اور دن کا اختتام بھی’’ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق چائے  نوش کرتے ہوئے ہوتا ہے ۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
چائے کو ہندوستان کا قومی مشروب کہہ سکتے ہیں ۔ وطن عزیز کے باسیوں کی اکثریت کی صبح کی شروعات بھاپ اڑاتی ہوئی چائے کی پیالی کی چسکیاں لیتے ہوئے اور دن کا اختتام بھی’’ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق چائے  نوش کرتے ہوئے ہوتا ہے ۔
جس طرح’’ پینے والوں کو پینے کا بہانا چاہئے‘‘ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح چائے کے شوقین افراد چائے نوشی کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ راستے سے گزرتے ہوئے  جونہی کسی شناسا پر نظر پڑی فوراً اسے چائے کی پیشکش کی جاتی ہے اور قریبی ہوٹل کا رخ کیا جاتا ہے جہاں بہترین اور اچھی چائے سرو کی جاتی ہے۔ چائے خانے کی بہترین نشستوں(کرسیوں ) کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اکثر چھوٹے شہروں میں ہوٹل کے باہر روڈ اور گلیوں کے کنارے رکھی ہوتی ہیں ۔ چونکہ چائے نوش ہوٹل کے اندر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لئے ہوٹل مالکان بلا تکلف روڈ اور راستوں پر ان کے لئے نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
’’چائے پر چرچا‘‘ اور ’’من کی باتیں‘‘ تو ابھی ابھی کی باتیں ہیں تاہم چائے  خانوں میں ’’چائے پر چرچا‘‘ کی قدیم و دیرینہ روایت رہی ہے ۔  چائے خانے ادبا ءو شعراء کے پسندیدہ مقامات ہوتے ہیں جہاں بیٹھ کر بعض شعراء نے اپنی شہرہ آفاق نظمیں و غزلیں تخلیق کیں تو فلمی شعراء نے لازوال فلمی نغمے تحریر کئے  ۔ اسی طرح انہی چائے خانوں میں بیٹھ کر بعض مصنفوں اور ادیبوں کے ذہنوں میں انکی مشہور تصانیف کے مرکزی خیال کا جنم ہوا ۔   چائے خانوں میں ایک مرتبہ نشست پکڑ لی جائے تو چائے کے کئی کئی دور چلتے ہیں اور دنیا جہان کی باتیں ہوتی ہیں، عالمی سیاست، کرکٹ، الیکشن، رشتے ناطے، گھریلو پریشانیاں اور تنازعات، بچوں کے ایڈمیشن اور تعلیم نیز زمین و جائداد کے سودے، گویا گفتگو کے لئے ایک جہان کم ہوتا ہے۔ اب ان نشستوں کی وجہ سے راہگیروں کو تکلیف ہو یا ٹریفک کی روانی میں خلل ہو اس سے نہ تو ہوٹل مالک کو کوئی سروکار ہوتا ہے نہ ہی چائے نوش حضرات کو! چونکہ ان صاحبان کے چہرے سے غالب کے اس مصرعے کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے کہ
’’بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں‘‘
اس لئے ٹریفک میں جوجھنے والے بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے اور چپ چاپ گزر جاتے ہیں ۔
چائے پینے کے لئے بہانوں کا ذکر ہو رہا تھا جس کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں جیسے، کسی فرد کو باپ، دادا یا نانا بننے پر، کسی کے برسر روزگار ہونے یا ترقی و تنخواہ میں اضافے پر، شادی بیاہ کے موقعہ پر، کسی کے فرزند یا پسر زادے کی کامیابی اور ڈگری حاصل کرنے پر، دوکان یا نئے مکان کے افتتاح کے موقع پر، دو فریقین میں تنازعے کے متفقانہ حل کی خوشی میں، کسی کو کسی قسم کا انعام واکرام ملنے کی خوشی میں، کسی قیمتی گمشدہ چیز کی بازیابی پر، رشتہ طے ہونے پر، استاد و بزرگان کے احترام میں چائے کی پیشکش، کسی دوست سے عرصے بعد ملاقات ہونے پر، زمین و جائیداد کی خریدوفروخت کی خوشی میں، دوکاندار کی جانب سے اپنے اچھے گاہکوں کو چائے کی آفر، دینی محفلوں اور سیاسی میٹنگوں میں، کسی دعوت میں کھانا تناول کرنے کے بعد حتیٰ کہ میت کو دفنا کر گھر لوٹتے وقت بھی چائے نوشی سے فرار ممکن نہیں ہے !
’’اکثراکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ چائے کی پیشکش ہونے پر کوئی شخص تسلسل کے ساتھ دو چار مواقع پر اپنے کسی عزیز کو انکار کردے تو آفر کرنے والا شخص باقاعدہ ناراض ہو جاتا ہے تب اسے منانے کے لئے جو نشست ہوتی ہے اس کا اختتام بھی چائے نوشی پر ہوتا ہے !‘‘
الغرض ہمارا ملک محبان چائے کا وطن ہے، چائے پینے اور پلانے والوں کا وطن ہے، محبتیں بانٹنے والوں کا وطن ہے اور یہاں رہتے ہوئے چائے نوشی سے فرار ممکن نہیں۔ حاجت ہو یا نہ ہو آپ کوچائے پینی ہوگی بھلے ہی آپ کے بار بار کے انکار پر چائے کی آفر دینے والا دو میں تین یا تین میں چار کا آرڈر دینے پر مجبور ہو جائے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK