غیر معمولی چیزیں بچپن کی فکر تو رہی ہیں کہ ان میں سے ایک بَلا اسکول کا ہوم ورک بھی تھا۔ شاگرد کا رجحان اس مضمون میں کتنا ہی ہو، ہوم ورک کا نام سنتے ہی سب کو موت آتی ہے۔
غیر معمولی چیزیں بچپن کی فکر تو رہی ہیں کہ ان میں سے ایک بَلا اسکول کا ہوم ورک بھی تھا۔ شاگرد کا رجحان اس مضمون میں کتنا ہی ہو، ہوم ورک کا نام سنتے ہی سب کو موت آتی ہے۔ پھر وہ سب سے مشکل سبجیکٹ ہو یا سب سے آسان۔ میری دلچسپی اُردو زبان میں ہمیشہ سے رہی ہے۔ شاید یہ میرے جینز (Genes) میں ہے، نانا اور ابو اکثر اخبار اور رسالے پڑھتے، ہمارا اپنا ایک مکتبہ بھی ہے جہاں ایک چھوٹی سی اُردو دنیا بسی ہے۔ نانا جان اشعار بھی کہتے ہیں۔ اور ابا کی خوبی اشعار یاد کرنا ہے۔ اُردو پڑھنے، سننے اور سمجھنے میں تو مجھے مشقت نہیں اٹھانی پڑی مگر شاید یہ زبان لکھنے میں دشواری پیدا کرتی ہے۔ بس مجھے لکھنا مشکل لگتا تھا، اب بھی کچھ الفاظ ایسے ہیں کہ جنہیں لکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ مَیں تقریباً ۷؍ برس کی تھی اور دوسری جماعت میں پڑھتی تھی۔ یہ میرے زمانۂ اسکول کی یادوں کا سب سے یادگار حصہ ہے، میں نے اِسی کلاس سے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کی تھیں اور تقریباً سبھی ٹیچرز کی توجہ کا مرکز ہونے کا شرف بھی یہیں سے حاصل ہوا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ میرا اُردو اِملا ٹیسٹ تھا۔ مگر پچھلے دن غیر حاضر ہونے کی وجہ سے مجھے معلوم نہ تھا، یہ حملہ اچانک ہوا تھا۔
میں نے تیاری تو نہیں کی تھی مگر اُردو میرے لئے اتنی مشکل نہ تھی، مَیں نے حوصلے سے کام لیا اور اچھی نیت سے اللہ کا نام لے کر ٹیسٹ دینا شروع کیا۔ تقریباً سارے املا کے الفاظ صحیح تھے اس سے پہلے کہ میری اساتذہ نے ایک الفاظ مزید لکھنے کو کہا۔ جیسے میری چھوٹی سی عقل پہ بوجھ ڈال دیا ہو۔ ’’چَھتّے‘‘ لکھنے کو کہا۔ مَیں دیر تک منہ میں پینسل کترتے ہوئے سوچتی رہی کہ ’چھ‘ کی آواز اُردو میں کس طرح لکھی جاتی ہے؟ اور آخر کار میں ہار گئی، مَیں نے اس الفاظ کو چھوڑنے اور ایک نمبر گنوانے کا ارادہ ’کَھٹےّ‘ جی سے کیا۔ مگر اسی دوران میرے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ ’چھتے‘ کا ’چھ‘ نہیں آتا مگر ’تے‘ تو آتا ہے، پھر ایک نمبر کی محروم کیوں رہوں؟ مَیں نے اپنی چھوٹی سی عقل استعمال کی اور ’چھتے‘ کو ’6تے‘ لکھ ڈالا۔ کم از کم میں نے تلفظ کا نمبر کما لیا۔
اگلے دن میری ٹیچر کلاس میں میری کاپی کے ساتھ میرے پاس تشریف لائیں۔ وہ میری معصومیت، نادانی اور تلفظ کو پہچاننے کی صلاحیت میں پھنس کر رہ گئی تھیں۔ وہ زور سے ہنس پڑیں مگر کشمکش میں تھیں کہ نمبر پورے دوں یا آدھے رکھ لوں؟ جب میں یہ واقعہ یاد کرتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اگر میں ان کی جگہ ہوتی تو ’مائنس مارکنگ‘ ختم کر دیتی، شاید یہی انصاف تھا۔ اور پورے نمبر دیتی، بھلا مَیں نے کیا غلطی کی؟ میری اُردو آج بھی اسی طرح ٹوٹی پھوٹی ہے، کبھی کوئی لفظ پڑھنے میں دشواری پیدا کرتا ہے تو کبھی کچھ کا کچھ لکھ کر مذاق کا موضوع بن جاتی ہوں۔