’’لبیک اللهم لبیک‘‘ کی آواز پر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں جو وہ کھولنا نہیں چاہتی تھی۔ اسی خواب والے شہر میں ہی ہمیشہ رہنا چاہتی تھی۔ اس نے اس خواب کو سوچنے کی کوشش کی جو وہ بارہا دیکھ چکی تھی۔ اب تو اس کو سارے مناظر بھی ازبر ہوگئے تھے، عرفات کا میدان اور اس کا بارش میں رو رو کر دعائیں مانگنا، کبھی خانہ کعبہ کے غلاف سے لپٹ کر رونا، تو کبھی ننگے پاؤں تپتی زمین پر جمرات کی طرف کنکری مارنے جانا، کبھی مزدلفہ میں کنکری چننا۔ ہر بار مناظر الگ ہوتے تھے مگر وہ خود کو مکّہ کی سر زمین پر خانہ کعبہ کا طواف یا حج کے ارکان پورے کرتے ہوئے دیکھتی۔ اس نے کبھی خود کو طواف اور سعی کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا بلکہ ہمیشہ حج کی بھیڑ اور حج کے مناظر دیکھے تھے اس لئے عمرہ پر جانے کے بجائے اس نے حج کی نیت کر لی مگر حج اس پر فرض تو نہیں تھا وہ تو کسی طرح اپنا امّاں اور اپنی بچی کا پیٹ دو وقت کی روٹی سے بھرتی تھی۔ مٹی کا وہ بوسیدہ ایک کمرے کا گھر جہاں وہ تین نفوس بھی بڑی مشکل سے زندگی گزار رہے تھے اس پہ یہ آرزو کرنا اسے کبھی کبھی یہ سب سوچنا صرف حماقت ہی لگتی تھی۔ اپنے شوہرکی ناگہانی موت کے بعد اسے اپنا ہوش کہاں تھا ایسا لگتا تھا جیسے کل ہی کی بات ہو۔
’’آمنہ جلدی تیار ہو جاؤ ڈاکٹر کے یہاں چیک اپ کے لئے جانا ہے۔‘‘ اس کے شوہر علی نے نئی نوکری کی پہلی تنخواہ ملتے ہی گھر میں گھستے ہی آواز لگائی۔ ’’جی آ رہی ہوں۔‘‘ آمنہ نے جواب دیا۔ آج آمنہ بہت خوش تھی اتنے دنوں سے علی کی نوکری کی تلاش، گھر میں نئے فرد کے آنے کی خوشخبری اور اس کی طبیعت کی خرابی سب کچھ اب ٹھیک ہو جائےگا۔ اسے لگ رہا تھا علی کی فیکٹری میں ملی نوکری سے اب آگے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ وہ اپنی جگہ ٹھیک بھی تھی اگر وہ حادثہ نہ ہوا ہوتا۔ وہ تو سڑک پار کر چکی تھی مگر علی پانی کی بوتل لینے کے لئے رک گیا تھا۔ پانی کی بوتل لے کر سڑک پار کرتے ہوئے وہ بس جانے کیسے علی کو کچلتے ہوئے چلی گئی۔ ایک چیخ کے ساتھ وہ بیہوش ہو گئی، اور سڑک کے کنارے ہی ڈھیر ہوگئی۔
اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ سرکاری اسپتال میں تھی لوگوں کا جم غفیر اوراس بھیڑ میں اس نے علی کو ڈھونڈنا چاہا پھر یاد آیا ہاں وہ بھی تو اسپتال میں ہی ہوں گے.... انہیں بھی تو چوٹ لگی تھی۔ وہ دوڑ کر دوسرے کمرے تک گئی تیسرے، چوتھے، ہر کمرے میں ڈھونڈا، علی کہیں نہیں تھے۔ ایک نرس نے اسے غور سے دیکھ کر کہا، ’’تو اور تیرا بچہ ٹھیک ہے.... مگر.... وہ سانس لینے کیلئے رکی.... مگر تیرا آدمی مر گیا، وہ نہیں بچ سکا۔ سب لایا تھا اس کو یہاں.... مگر وہ نہیں بچا، بس کے شیشے کو سب لوگ جو سڑک پر تھے وہ توڑ دیئے۔ مگر نشے میں دھت جو ڈرائیور تھا وہ بھاگ گیا۔‘‘ اب کی بار اس نے ایک سانس میں ہی ساری بات اس بیس سالہ بیوہ کو بتا دی جس کو سننے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔
آمنہ پر تو غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، وہاں اس کے سسرال سے کوئی موجود نہیں تھا اس کو اپنے نیم مردہ وجود کو جس میں ایک اور جان پل رہی تھی، خود ہی گھسیٹ کر گھر تک لے جانا تھا۔ کسی طرح رات کے اندھیرے میں جب وہ اپنے سسرال پہنچی وہاں لوگوں کی بھیڑ، پولیس کی گاڑی اور سسرال والوں کا بیگانہ سا رویہ اور اپنے شوہر کی ایسی لاش جسے دیکھنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ کب بھیڑ چھٹی، کب صبح ہوئی، کب لوگ گئے اسے کچھ پتا نہیں چلا وہ بس خلا میں کچھ ڈھونڈتی رہی۔ اچانک تیز آواز سے کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اسے گھسیٹ کر باہر نکال رہا تھا۔ بس لوگوں کے جانے کی دیر تھی سسرال والوں نے ہمیشہ کے لئے اسے گھر سے باہر نکال دیا۔ ’’میرے بیٹے کو کھا گئی، منحوس نکل جا اب تو کبھی اپنا منحوس چہرہ لے کر مت آنا۔ جا اسی کے پاس جس سے میرے بیٹے کو مروایا ہے۔ بے حیا چلی جا....‘‘ اس کی ساس کی عجیب بھاری آواز جو رونے سے مزید بھاری ہوگئی تھی بہت خوفناک لگ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا اگر وہ کچھ دیر اور یہاں رہی تو وہ اس کا گلا دبا دیں گی۔ اب وہ کہاں جائے گی اپنے اندر پل رہے اس وجود کے ساتھ۔ وہ جب گھر کے باہر اندھیری رات میں نکلی تو اسے سب سے پہلے اپنے ابّا کی یاد آئی، کتنا سائبان ہوتا ہے باپ کے رہنے سے، اگر وہ زندہ ہوتے تو کبھی وہ لوگ اسے گھر سے ایسے نہ نکالتے۔ ماں تو پیدا ہوتے ہی چل بسی تھیں بس ابّا تھے جنہیں اپنی بیماری کاپتہ چلا تو پڑھائی کے درمیان ہی علی سے اس کی شادی کر دی۔ وہ صرف میٹرک ہی کرسکی تھی۔ کچھ سال کینسر سے لڑے اور پھر دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔
اس وقت تو اس کا یہ حال تھا کہ وہ ڈپریشن کی گولیاں لینے لگی تھی۔ اسے گھبراہٹ ہوتی اور رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی اور اب.... اب تو اس نے اپنا شوہر کھویا ہے وہ کیوں بچ گئی وہ بس یہی سوچتی۔ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے رات گہری ہونے لگی اب اسے خوف آنے لگا۔ کیسے لوگ تھے وہ جن کے ساتھ دو سال سے تھی ایک پل میں انہوں نے اجنبی کر دیا۔
وہ چلتی جا رہی تھی ارد گرد سے بےخبر تب پہلی بار اسے خیال آیا وہ مکّہ میں ہے اور ننگے پاؤں چلتی جا رہی ہے جبل رحمت کی طرف۔ اچانک ہی اس کے دل کو قرار آنے لگا جیسے گھبراہٹ کم ہوگئی ہے۔ ہاں تب اسے حضرت مریمؑ کا خیال آیا تھا، کیسے انہوں نے اللہ کے حکم پر ساری آزمائش برداشت کی تھیں اور تنہا بچے کو پیدا کیا تھا۔ اسے بھی آزمائش کے لئے چن لیا گیا تھا مگر وہ مریم نہیں تھی نہ بن سکتی تھی، وہ آمنہ تھی، مگر بی بی آمنہ حضورؐ کی ماں انہوں نے بھی بہت آزمائشیں برداشت کی تھیں۔ شوہر کی وفات کا غم اور پھر اپنی بیماری اور پھر فوتگی.... سب کی اپنی آزمائشیں سب کے اپنے غم۔ وہ ”آمنہ حیات“ تھی ان جیسی عظیم ہستی سے اس کا کیا مقابلہ مگر اسے اپنے بچے کے لئے اپنی آزمائش پر پورا اترنا تھا، صبر اور شکر کے ساتھ۔ اچانک ایک بوسیدہ مٹی کے گھر سے کسی کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی، ’’پانی.... پانی.... کوئی پانی دے دو۔‘‘ آواز تیز ہوئی۔ اس نے ادھ کھلا دروازہ ڈرتے ڈرتے کھول دیا۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت بستر سے لگی بخار سے کراہ رہی تھی۔ مٹی کے گھڑے سے پانی نکال کر اس نے انہیں پلانے کی کوشش کی جبکہ اس کی خود کی ایسی حالت تھی کہ پہلے خود ہی اپنا حلق تر کرتی اور وہیں گر جاتی۔ مگر اس نے انہیں صبر سے پانی پلایا جو رک رک کر پانی حلق میں اتار رہی تھیں۔ دواؤں کا ڈبہ بغل میں ہی ادھ کھلا پڑا تھا۔ اس نے اس میں سے بخار کی دوا نکال کر پانی کے ساتھ دوبارہ دیا جسے کھا کر وہ پھر غنودگی میں چلی گئیں۔ وہ ابھی لب کھولنے ہی والی تھی کہ پانی پینے اور رات میں وہاں رکنے کی اجازت لیتی مگر وہ سو چکی تھیں۔ اب وہاں سے جانے کی تو اس میں ہمت نہیں تھی۔ اس نے گھڑے سے سیر ہو کر پانی پیا اور دروازے کی کیل کو مضبوطی سے بند کرکے وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ چاروں طرف کمرے کا جائزہ لینے کے بعد بھی کوئی کھانے کی چیز اسے نظر نہیں آئی۔ اوپر مٹی کے برتن میں سکھر پر کچھ لٹکا ہوا نظر آیا، وہ بھوک سے نڈھال تھی برتن میں تھوڑا دودھ بچا ہوا تھا.... وہ خوش ہوگئی اور کہا، ’’یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر، میرے بچے کو دودھ مل جائے گا۔‘‘ مگر جیسے ہی اس نے حلق میں دودھ کا پہلا قطرہ ڈالا اس کو ابکائی آنے لگی، دودھ خراب ہوچکا تھا۔ بوڑھی اماں کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے شاید وہ اسے آج ابال نہیں سکیں۔ بھوک کی شدت ایسی تھی وہ خراب دودھ بھی اس نے حلق سے کسی طرح اتار لیا۔ کمرے میں نظر دوڑانے کے بعد اسے ایک کونے میں لکڑیوں کی گٹھری، پانی کا مٹکا، ایک ٹین کا زنگ آلود صندوق اور ایک چٹائی نظر آئی۔ بمشکل اس نے اس بوڑھی اماں کی چارپائی کے نزدیک تھوڑی سی جگہ بنا کر چٹائی بچھا دی....
جانے رات کا کون سا پہر تھا تہجد کا وقت ابھی باقی ہوگا اس نے دل میں سوچا۔ فجر کی اذان کی آواز اس نے نہیں سنی تھی جب تک وہ باہر تھی سنسان سڑک پر چلتی ہوئی اسے صرف کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ہی ڈرا رہی تھیں.... کتنی نمازیں قضا ہوئیں اسے وہ سب بھی پڑھنی تھیں۔ کل شام سے آج تک میں کیا کچھ ہوگیا اس کے ساتھ.... کتنی خوش تھی وہ کل.... اور آج یہ اذیت۔ علی کی پہلی تنخواہ جو شاید اس کے جیب میں ہی تھی اس وقت اور بعد میں سڑک حادثے میں مدد کی خاطر آئے ہوئے لوگوں کی جیبوں میں.... اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا ناک کی لونگ اتارنے کے بہانے کہ تو بیوہ ہوگئی ہے ان لوگوں نے کان اور گلے کا بھی جو اکلوتا زیور تھا جو اس کے مرحوم ابّا نے دیا تھا وہ بھی لے لیا۔ اب صرف اللہ تھا اور وہ تھی۔ اس کے ہاتھ کو کبھی چھوٹنے نہیں دینا تھا۔ اس نے ذرا سے پانی سے کسی طرح وضو کیا اور ٹوٹی چٹائی پر اللہ کے حضور کھڑی ہوگئی۔ تھکن میں وضو کے چھینٹوں سے کمی آئی اور وہ پوری انہماک سے اپنی قضا نمازیں پڑھنے لگی، تہجد پڑھ کر جیسے ہی فارغ ہوئی.... اللہ اکبر کی صدائیں فضا میں بلند ہونے لگیں، جیسے کوئی اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی نمازیں پوری ہونے کے انتظار میں تھا۔
صائمہ صدیقی (نئی دہلی)
فجر پڑھ کر وہ کبھی نہیں سوتی تھی مگر وہ دو راتوں کی جاگی ہوئی، نیند حد سے سوا تھی وہیں پر لیٹ کر کروٹیں بدلنے لگی۔ اچانک اسے اماں کا خیال آیا کہ وہ اتنی دیر سے سوئی ہیں کہیں زیادہ طبیعت خراب نہ ہو۔ یہی سوچ کر اس نے چادر کا کونہ دھیرے سے ہٹا کرکہا، ’’امّاں.... امّاں.... اٹھیں.... کیسی ہیں آپ... مَیں آمنہ مجھے.... مجھے آپ کی ضرورت ہے.... میرا کوئی نہیں ہے....‘‘ اچانک اسے احساس ہوا وہ بیہوش ہیں۔ وہ ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالنے لگی۔
پانی کے قطرے پڑنے سے انہیں ہوش آیا۔ وہ اٹھ بیٹھیں، ’’تم کون ہو میرے گھر میں کیسے گھس آئی، مَیں نے بہت آوازیں دیں بہت پکارا اللہ کو میرے بیٹے کو واپس بھیج دے مگر اس نے نہیں سنی وہ آج تک نہیں آیا، سات سال نو مہینے ہوگئے کل تک تو نو دن ہوئے تھے، پتا نہیں کب سے بیہوش تھی مَیں بخار میں، تجھے اللہ نے بھیج دیا۔ کون ہے تو؟ مرنے دیتی مجھے.... اب جینے کا دل نہیں کرتا۔ تو جانتی ہے کیا میرا بیٹا کہاں ہے؟ بتا کہاں ہے بتا....‘‘ وہ عجب ہذیانی انداز میں اسے جھنجھوڑنے لگیں۔ وہ خائف سی بس اتنا ہی بول سکی، ’’کیا ہوا آپ کے بیٹے کو؟ مَیں نہیں جانتی اس کو کہاں گیا وہ؟ میرا تو کل شوہر مر گیا اور سسرال والوں نے نکال دیا کوئی نہیں ہے میرا۔ مَیں جا رہی تھی ادھر سے آپ کی آواز سنی تو رک گئی۔ رات سے یہاں ہوں کوئی آسرا نہیں میرا۔ اللہ سے بیٹا مانگا تھا نا آپ نے اس نے بیٹی دے دی۔ مجھے اپنے پاس رکھ لیں۔‘‘ اتنا سننا تھا کہ وہ پھٹ پڑیں اور انہوں نے اپنی اور اس نے انہیں اپنی پوری کہانی بتائی۔ ان کا پانچ سالہ بیٹا گم ہوا تھا وہ ایک شام گھر سے کھیلنے میدان میں گیا تھا اور کبھی واپس نہیں آیا۔ کیسے ہوتے ہیں وہ لوگ جو کسی کے دل کا ٹکڑا چرا لیتے ہیں محض چند پیسوں کی خاطر، اتنی بد دعائیں اور گناہ اپنے سر لیتے ہیں۔ وہ سوچ کر ہی رہ گئی۔ اسے اپنے ہونے والے بچے کا خیال آیا اس نے جیسے جھرجھری لی اور واپس سے انہیں سنے گئی جو اب اپنی بیوگی کی داستان سنا رہی تھیں۔ اور کیسے پندرہ سال بعد اللہ نے انہیں اولاد سے نوازا تھا اور پھر واپس لے لیا۔ ان کا غم سن کر اسے اپنا غم کم لگنے لگا کیسے کیسے لوگ ہیں اس دنیا میں اور سب کو اپنا ہی غم ہے کہ وہ ہی پریشان حال ہیں۔ اس طرح وہ ان کے ساتھ رہنے لگی اور وہ ایک دوسرے کا سہارا بنے۔
سلائی بُنائی کرکے ان دونوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی تھا۔ امّاں کے ہاتھوں میں بہت صفائی تھی وہ مہین نقش و نگار بنا لیتی تھیں جو وہ دیکھ کر ہی رہ جاتی۔ نئے مہمان کی آمد کے لئے ٹوپی، سوئٹر، موزے، دستانے امّاں نے بہت کچھ بنایا تھا چھوٹے چھوٹے تکیے، کپڑے اور جانے کیا کیا۔ وہ یہ سب دیکھ کر سوچتی کہ کیسے ساگ روٹی کھا کے بھی امّاں کے نسخوں سے اس کے اندر کمزوری کا شائبہ نہیں ہوتا تھا نہ پھل نہ دودھ بس دو وقت کی روٹی میں بھی اللہ نے اتنی طاقت رکھی تھی کہ اس کا بچہ تندرست تھا۔ کل ہی سرکاری اسپتال جا کر اس نے کچھ ضروری ٹیسٹ کرایا تھا۔ اپنے آنے والے بچے کا سوچ کر اسے خوف آتا کہ اس کا خرچ کیسے پورا ہوگا۔
نئے فرد کے آنے کے بعد کیا ان پیسوں سے گزارا ہو جائے گا؟ وہ سوچتی اور آخرکار عدت پوری ہوتے ہی اسپتال اور اسکول میں نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ ایک میٹرک پاس اور چند آخری مہینوں میں فربہی مائل جسم میں کون نوکری دیتا۔ تب اس نے کم پیسے لے کر گھر پر ہی آس پڑوس کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ بچے کی پیدائش میں جتنی مشقت سے وہ اس ننھی پری کو اس دنیا میں لے کر آئی تھی تب اس کے ذہن کے پردے پر صرف ایک نام ہی لہرایا تھا اور وہ تھا مریم ہاں وہ ’مریم علی‘ جو جب دنیا میں آئی تھی تب آمنہ نے اسے گود میں لے کر مریم پکارا تھا اور وہ مسکرا دی تھی جیسے اسے یہ نام پسند آیا ہو۔ ہاں وہ ایسی ہی تھی سب بچوں کی طرح بےجا روتی نہیں تھی، بہت صبر والی تھی۔ کہیں پر بھی ڈال کر چھوڑ دو گھنٹوں پڑی رہتی۔ کوئی فرمائش کرتی نہ ہر وقت ماں کو ڈھونڈتی۔ امّاں بھی ان دنوں بہت خوش تھیں مگر سلائی وغیرہ کے کام میں الجھی رہتیں تو کبھی کبھی غفلت ہو جاتی تھی۔ اسی طرح وہ پروان چڑھنے لگی۔
پہلی بار اس نے ’الله‘ بولنا سیکھا تھا جب وہ سات مہینے کی تھی۔ دن، مہینے اور سال پَر لگاکر جیسے اڑ گئے اور وہ مریم علی سے حافظہ مریم علی ہوگئی۔ آمنہ کی دلی خواہش پر اس نے اس کا داخلہ مدرسے میں کرایا تھا اور گھر پر سب بچوں کے ساتھ مزید تعلیم بھی دیتی تھی۔ ۹؍ سالہ مریم حافظہ بن چکی تھی اور آمنہ کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہا تھا کیونکہ اس میں آدھی محنت اس کی بھی تھی۔ دن دن بھر اس کے پیچھے لگی رہتی اور سبق دہراتی جاتی۔ اس دن جب مریم کی دستاربندی تھی اس نے حفظ مکمل کیا تھا۔ آمنہ نے پھر وہ خواب دیکھا، وہ جب سے اس گھر میں آئی تھی تب سے اسے بار بار آ رہے تھے جو کہ اس کی دلی خواہش بھی تھی کہ ایک دن وہ اللہ کے گھر کا دیدار ضرور کرے گی۔ اپنی اسی خواہش پر وہ ہر مہینے کچھ پیسے بچا لیتی اور اس زنگ آلود صندوق میں جمع کرتی جاتی۔ جس کا تالا زنگ لگنے کی وجہ سے کھل نہیں پاتا تھا امّاں کے کچھ پرانے کپڑے شاید اس میں تھے اس لئے انہوں نے اس تالے کو توڑنے کی کوشش نہیں کی اور وہ اس میں چھوٹے سے سوراخ سے پیسہ ڈالنے لگی تھی اور اب تو مریم بھی پرائیویٹ میٹرک کر چکی تھی۔ امّاں نے اسے کئی زری بوٹے، سلائی، بنائی سب سکھائی تھی۔ مگر اس کا دل ان سب سے زیادہ خطاطی میں لگتا تھا۔ کیلی گرافی اس کا جنون تھا۔ وہ کبھی کبھی پھول بوٹے ٹانکتے ٹانکتے عربی آیات کندہ کر دیتی اور وہ یہ سب اتنی مہارت اور خوبصورتی سے کرتی تھی کہ اسے خود یقین نہیں ہوتا تھا کہ یہ اس نے بنایا ہے۔
ایک دن مریم آمنہ کے پاس آئی، ’’امی مجھے خانہ کعبہ کا غلاف بنانا ہے کیا مجھے مخمل لا دیں گی اور کچھ سنہرے ریشم۔‘‘ ’’ہاں میری جان کیوں نہیں ضرور بنانا، مَیں مارکیٹ جاؤں گی تو لا دوں گی۔‘‘ آمنہ نے پیار سے اس کا ماتھا چوما۔ پھر کیا، لا کر دینے کی دیر تھی اس نے بنانا شروع کر دیا۔ اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ خانہ کعبہ کا غلاف سورتوں کی تلاوت کرتے کرتے بنایا جاتا ہے۔ وہ بھی شروع سے قرآنی سورتیں پڑھتی جاتی اور غلاف تیار کرتی جاتی اس کی تلاوت کی آواز اس چھوٹے سے گھر کو سحر میں لئے رہتی۔ وہ بڑے انہماک سے اپنے کام میں لگی رہتی۔
اس نے اس میں سورہ بقرہ کی آخری رکوع کو بڑی نفاست سے سنہری کیلی گرافی کی تھی۔ جب اس نے پورا غلاف تیار کیا تب تک وہ قرآن پاک کی پوری ۱۱۴؍ سورتوں کی تلاوت پوری کر لی تھی۔ غلاف تیار ہو چکا تھا اور اب بس تھوڑی سلائی باقی تھی۔ اس نے سارا کچھ ایسے مکمل کیا تھا کہ قرآن پاک بھی مکمل ہو جائے اور غلاف کا سارا کام بھی پورا ہو جائے۔ اس دن وہ بہت خوش تھی جب اس نے تھرموکول سے بنے ماڈل میں اپنا بنایا ہوا غلاف لگا کر امّاں کو دکھایا۔ ’’امّاں نے اسے ڈھیروں دعائیں دیں کہ وہ ایک دن اللہ کے گھر تک ضرور پہنچے گی۔ انہوں نے مریم کو جو سکھایا تھا وہ اسے کہیں زیادہ نفاست سے کیا گیا کام تھا۔ آمنہ اس وقت بچوں کو سلائی سکھا رہی تھی اور بچوں نے بھی خانہ کعبہ کے اس ماڈل کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا جو خود بھی ایسا شاہکار بنانا چاہتے تھے۔ یونہی دن گزرتے گئے اب آمنہ کے ساتھ مریم نے بچوں کو پڑھانا اور سلائی بنائی سکھانی شروع کر دی تھی۔ امّاں کی طبیعت آئے دن خراب رہنے لگی تھی۔ بڑھاپا تو خود ہی ایک مرض ہے اور وہ بستر سے لگ کے رہ گئی تھیں۔ مریم نے اب پرائیویٹ انٹر اور بی ایس سی بھی کر لیا تھا۔
ایک دن امّاں کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔ انہیں سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ آمنہ انہیں لے کر اسپتال گئی وہاں انہیں داخل کرا کر وہ کچھ دوائیں لینے باہر نکلی۔ باہر ایک جوان عورت زور زور سے رو رہی تھی کوئی میرے بچے کو بچا لو کوئی بچا لو۔‘‘ وہ دہاڑے مار کر رو رہی تھی۔ آمنہ کے قدم وہی جم سے گئے، ’’کیا ہوا۔ آپ کے بچے کو؟‘‘ اس نے ان کے قریب جا کر پوچھا۔ ’’اسے ہارٹ اٹیک ہوا ہے بابو، میرے جوان بیٹے کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔‘‘ وہ گلہ پھاڑ کر روتے ہوئے بولی۔ اندر جا کر دیکھا تو مختلف نالیوں میں جکڑا اس کا بیٹا زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا۔ بغیر پیسے کے ڈاکٹرز آپریشن کو تیار نہیں ہو رہے تھے۔ اس نے کافی کوشش کی ڈاکٹرز کو راضی کرنے کی کہ پیسے کا انتظام تھوڑی دیر میں وہ کر دے گی۔ مگر وہ تیار نہیں ہوئے۔ ’’اچھا آپ فکر نہ کریں میں کچھ پیسوں کا انتظام کرتی ہوں۔‘‘ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔ امّاں کی دوائیں لا کر انہیں دے کر وہ گھر آگئی۔ اس نے صندوق میں پڑا ہوا تالا کھولنے کی کافی کوشش کی مگر وہ زنگ آلود تالا کھولنے میں نہیں آ رہا تھا۔ حج پر جانے کی خواہش اور اس کی جمع کردہ رقم، تالے کو کھولنے کی کوشش میں اس کے آنسو رواں تھے۔ وہ اب کبھی اللہ کے گھر کو نہیں دیکھ پائے گی۔ کتنے برسوں سے وہ یہ پیسے جما کر رہی تھی، اس کی بچی چھوٹی سے بڑی ہوگئی اس نے آج تک اسے چھوا تک نہیں تھا۔
کتنا مشکل وقت آیا مگر اس نے اسے نہیں کھولا۔ مگر آج یہ کیا ہوگیا کسی کی زندگی بچانے کے لئے وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کو ہار گئی۔ اس نے تالے کو پوری طاقت سے ہتھوڑے سے دے مارا۔ تالا ٹوٹ گیا تھا، اتنے پیسے کو وہ جلدی گن نہیں سکتی تھی اس لئے بس امّاں کے پرانے کپڑے اس سے نکالے اور صندوق اٹھا کر بغیر گنے اس ماں کو دے آئی جس کے بیٹے کے پاس وقت بہت کم تھا اور بس اتنا ہی کہا ’’رکھ لیں، مجھے نہیں پتا اس میں کتنے پیسے ہیں مگر اتنے تو ضرور ہوں گے کہ آپ کے بچے کا علاج ہو جائے۔ اللہ آپ کے بچے کو صحت والی زندگی عطا فرمائے۔‘‘ وہ اسپتال کے اندر امّاں کے روم کی طرف چلی گئی اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
وہ اب بہت خالی خالی سی لگ رہی جیسے اس کے جینے کا مقصد ہی ختم ہوگیا۔ اس نے کچھ نہیں سوچا۔ نہ اپنی بچی کی شادی کو نہ ہی کسی اور چیز کی خواہش کی۔ اسے یقین تھا کہ اللہ اس کی بچی کو ایک محفوظ ہاتھوں میں دیں گے اور اس میں اسے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔
امّاں گھر آ چکی تھیں۔ وہ اب ٹھیک تھیں تو اسپتال والوں نے گھر لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ ان دنوں بھی ان بوڑھی آنکھوں میں اپنے بیٹے کے آنے کا انتظار تھا۔
’’امی وانیا کا خط آیا ہے۔ اس میں اس نے لکھا ہے، خانہ کعبہ کا ماڈل جو میں نے اسے اس کی شادی کے تحفے میں دیا تھا، وہ اس کے شوہر نے ان کے آفس میں لگانے کے لئے اپنے باس کو تحفے میں دے دیا اور وہ انہیں اتنا پسند آیا ہے کہ انہوں نے مجھے وہاں بلایا ہے۔ انہوں نے مجھے بیسٹ کلیلگرافر آف دی ورلڈ (Best calligrapher of the world) کہا ہے۔ وہ کچھ دن میں ہمارا ویزا اور ٹکٹ بھیج دیں گے۔ پاسپورٹ ہمیں بنوانا ہوگا امی۔‘‘ آمنہ نے خط اس کے ہاتھ سے لے کر بار بار پڑھا اور آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔ کون کہتا ہے معجزے انبیاء کے زمانے میں ہی ہوتے تھے، آج بھی معجزے ہوتے ہیں۔ اگر انسان دل سے دعا کرے تو وہ ضرور قبول ہوتے ہیں۔ اسے یاد آیا کیسے پیسے کی تنگی کی وجہ سے مریم نے دل پر پتھر رکھ کر وہ تحفہ اپنی دوست وانیا کے نکاح میں دیا تھا اور پھر وہ سعودی عرب جا رہی تھی اپنے شوہر کے ہمراہ تب ہی مریم کو اس کا خیال آیا کہ اس کے ہاتھ سے بنا وہ غلاف مکّہ کی سر زمین تک تو پہنچ جائے گا اور بس اس نے دے دیا۔ آج اتنے دن بعد جب وہ وہاں (اللہ کی سر زمین پر) جانے کی خواہش کو مار کر اس بچے کی ماں کو وہ پیسے دے آئی تو اللہ نے اسے ایسے نواز دیا۔
امّاں کو بس اس کے خواب اور اس کی خواہش کا پتہ تھا۔ انہوں نے کہا، ’’اللہ نے تیری سن لی آمنہ.... میری کیوں نہیں سنی؟ میں تو آج بھی اپنے بیٹے کے لئے دعا کرتے نہیں تھکتی مگر مجھے یقین ہے جب مَیں اللہ کے گھر جاؤں گی اور تب اس سے مانگوں گی تو وہ ضرور میرا بیٹا مجھے واپس دے گا۔ مَیں اپنی آخری سانس تک اس کا انتظار کروں گی، میرا برہان جانے کہاں ہوگا ؟‘‘
مَیں انہیں دیکھ کر بس اتنا ہی کہہ سکی، ’’ہاں خانہ کعبہ پر ڈالی گئی پہلی نظر کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے مگر دنیا کی نہیں آخرت کی دعا ہمیں کرنی چاہئے مگر آپ کی سانس آپ کے بیٹے سے ملنے سے مشروط ہے تو آپ وہ مانگ لینا اماں....‘‘ وہ بچوں کی طرح خوش ہوگئیں۔ جینے کی نئی وجہ جیسے انہیں مل گئی اور وہ پہلے سے بہت بہتر نظر آنے لگیں۔ آنے والے دن بہت تیزی سے گزرے پاسپورٹ، ویزا، ٹکٹ، سامان سب تیار ہوچکا تھا۔
جب وہ تینوں جدہ کے کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچیں، اس سے آدھے گھنٹے پہلے ہی میقات کا اعلان ہوگیا تھا اور انہوں نے عمرہ کی نیت اور لبیک کا ورد شروع کر دیا تھا۔ اب وہ احرام میں آچکی تھیں۔ جدہ پہنچ کر انہیں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا انہیں لینے گاڑی کے ساتھ اس کی دوست اور اس کا شوہر موجود تھے جنہیں کسوہ فیکٹری سے بھیجا گیا تھا۔ انہیں ان کے کوارٹر تک پہنچانے کے لئے اور پھر عمرہ کے لئے لے کر جانے کے لئے۔ تین آبدیدہ آنکھیں جب عمرہ کرکے فارغ ہوئیں تو ان کے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ اللہ نے انہیں اتنا نوازا تھا کہ فرش سے عرش تک پہنچا دیا۔ اس کا جتنا شکرادا کریں وہ کم تھا۔
دوسرے دن ہی سے مریم کو مکہ کی کسوہ فیکٹری میں اپائنٹ کر لیا گیا۔ اس کا کام اتنا اچھا تھا کہ ٹریننگ کی ضرورت اسے نہیں تھی تو فوراً ہی اس نے کام شروع کر دیا۔ مصنوعی غلاف سے لے کر کر اصلی غلاف تک کا سفر جو اس نے طے کیا تھا وہ بس ایک خواب سا لگتا تھا ۔ایسا لگتا تھا اگلے ہی پل آنکھ کھلے گی اور وہ خواب تحلیل ہو جائے گا۔
زبان کی وجہ سے انہیں شروع میں تھوڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر بعد میں وہ سیکھ گئی تھیں۔ مریم کو فیکٹری کی طرف سے پک اینڈ ڈراپ سروس بھی تھی اور رہائش بھی بہت اچھے کوارٹر میں دی گئی تھی جہاں سے نماز پڑھنے حرم جانے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔
رمضان کے آخری کچھ دن باقی تھے۔ وہ تینوں باقاعدگی سے قِیامُ اللَّیل پڑھنے حرم آ رہی تھیں۔ اماں کی وہیل چیئر گھسیٹتی مریم، آمنہ کے ساتھ انہیں چھوڑ کر زمزم پینے گئی تھی جب واپس آئی تو اماں چیئر پر نہیں تھیں۔
دونوں بے چینی سے انہیں ادھر ادھر تلاش کرنے لگیں کہ آخر وہ کہاں جاسکتی ہیں وہ بھی اپنے پیروں پر؟ وہ زیادہ دور نہیں گئی ہوں گی یہ سوچ کر اطراف میں ہی دیکھ رہی تھیں۔ ’’اماں.... اماں....‘‘ کی پکار مگر بے سود وہ کہیں نہیں تھیں۔
آخر تھک کر وہ دونوں وہیں ان کا انتظار کرنے لگیں اور ملنے کی دعائیں مانگنے لگیں۔ ۱۰؍ منٹ گزرے ہونگے اماں کسی کے ہمراہ آتی دکھائی دیں۔ وہ احرام پہنا ہوا ایک لمبا چوڑا مرد تھا۔
’’آمنہ ،میں نہ کہتی تھی میرا بیٹا آئے گا، وہ زندہ ہے میرا دل گواہی دیتا تھا۔اسے کچھ ہوتا تو میں اتنے سال زندہ نہ رہتی۔ یہ برہان ہے میں نے اس کے کندھے کا نشان دیکھا اور اسکے پیچھے چل دی یہ نشان بہت عجیب تھا جب یہ پیدا ہوا تھا تو میں نے سوچا ایسا نشان تو کبھی کسی بچے کو نہیں ہوتا جلنے کا نشان جیسے جلایا گیا ہو۔آج اسی نشان سے احرام کی وجہ سے مجھے میرا بچا مل گیا۔‘‘
برہان چائلڈ ٹریفکنگ سے متاثر ہوا تھا۔ کچھ لوگ اسے بیہوش کرکے دوسرے شہر لے گئے۔ جب اسے ہوش آیا اسے ایک لاولد امیر کبیر شخص نے خرید لیا۔ اس نے اچھی زندگی گزاری، ان کے ساتھ وہ کچھ دن انڈیا میں رہا اور پھر سعودی عرب آ گیا۔ جن ماں باپ نے اسے گود لیا وہ کچھ سال پہلے کار ایکسیڈنٹ میں نہیں رہے۔ یہ یہاں کنگ فہد یونیورسٹی میں لیکچرر ہے۔امّاں نے سب کچھ جلدی جلدی بتایا۔ آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔ برہان کو بھی اپنی حقیقی ماں دھندلی سے یاد تھیں۔ وہ اس وقت پانچ برس کا تھا۔ وہ خوفناک رات وہ کبھی بھول نہیں پایا تھا جب لوگ اسے اٹھاکر لے گئے تھے۔ عید سے پہلے الله کا یہ تحفہ، وہ روئے یا ہنسے سمجھ ہی نہیں پا رہیں تھیں۔ اب اس کا نام حمزہ تھا اور اس کا عمرہ پورا ہو گیا تھا۔ وہ چھٹیوں میں دہران سے مکہ عمرہ کرنے آتا تھا۔ اس نے اپنی اماں کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت چاہی۔ آمنہ اور مریم تو پہلی بار ایسا منظر دیکھ رہی تھیں جسے وہ بس قصے کہانیوں میں سنتی تھیں۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ماں بیٹے کا ملن دیکھ رہی تھیں۔ اب وہ دونوں الله کے حضور سجدہ ریز تھے۔ وہ صرف اماں کی دعا کا انعام نہیں تھا، وہ اس لڑکے کی بھی دعا تھی کہ الله اسے اس کے حقیقی رشتے سے ملا دے۔ جب دعا کو یقین کے ساتھ مانگوگے تو وہ کیوں نہیں سنےگا۔
عید کے دن اماں نے اعلان کر دیا کہ وہ مریم کو اپنی بہو بنائیں گی۔ حمزہ کو اپنی ماں کا فیصلہ دل سے قبول تھا۔ حرم میں ہی ان کا نکاح ہوا اور ہزاروں لوگوں نے ان کی خوشگوار زندگی کی دعائیں کیں۔ ایک کے بعد ایک معجزے! یہ انبیا اور حضورؐ کا شہر تھا۔ یہاں معجزے نہ ہوتے تو کہاں ہوتے۔ آمنہ تو سجدۂ شکر کرتے نہیں تھک رہی تھی۔ اب بس اس کی ایک خواہش باقی تھی، وہ تھی حج کی۔ جس میں بس دو مہینے ہی باقی تھے اور وہ اسی سال اسے پورا کرنا چاہتی تھی۔
حج کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ تمام حجاج کرام کے ساتھ ان چاروں کا نام بھی شامل ہو گیا تھا۔ غلاف کعبہ کو اوپر کرکے نیچے کے حصے کو سفید کپڑے سے ڈھک دیا گیا تھا۔ یہ غلاف کو بےحرمتی سے بچانے کیلئے حفاظتی اقدام تھا۔ عمرہ اور وزٹ ویزا کو روک دیا گیا تھا۔ ان تینوں عورتوں کو ان کا محرم مل گیا تھا جو ان کے حج کے سفر میں ساتھ ساتھ تھا۔آمنہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔اسکے سارے خواب سچ ہو رہے تھے۔ جیسے جیسے مناظر وہ خواب میں دیکھتی تھی سب حقیقت بن کر سامنے آرہے تھے۔ عرفات کے میدان میں بارش میں اس کا رو رو کر دعائیں مانگنا ،مزدلفہ میں کنکری چننا اور جمرات کی طرف کنکری مارنے جاتے ہوئے اس کی چپل کا ٹوٹنا اور ننگے پاؤں تپتی دھوپ میں جمرات کی طرف جانا سب تو سچ ہو گئے تھے۔
قربانی کے بعد طوافِ زیادرت بھی انہوں نے ۱۰؍ ذی الحجہ کو پورا کیا۔ پھر ۱۱؍ اور ۱۲؍ کو کنکری مار کر منیٰ سے نکل گئے تھے۔ ان چاروں نے حج کے سارے ارکان خوش اسلوبی سے پورے کئے۔ اماں کو بھی بیٹے کی ہمراہی میں حج میں آسانی ہوئی تھی۔ جوان بیٹے جن کے ساتھ ہوتے ہیں ان ضعیف لوگوں کو زیادہ مشکلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ورنہ جو بچے اپنے ماں باپ کو اکیلے بھیج دیتے ہیں انہیں نئے شہر میں بڑی دقتیں آتی ہیں۔
حرم پہنچ کر ان تینوں کو اب طوافِ وداع کرنا تھا کیونکہ وہ مکّہ میں نہیں رہتے تھے بس آمنہ ہی تھی جو مکّہ سے دہران جانے کو تیار نہیں ہوئی تھی وہ مکّہ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی۔ اسے اس جگہ سے عشق تھا اور اسے طواف ِ وداع نہیں کرنا تھا۔ وہ خانۂ کعبہ کے سامنے سجدے شکر کے نوافل ادا کرتی جاتی۔ اس کی پوری زندگی فلم کی مانند اس کے ذہن کے پردے پر چل رہی تھی اور کلائمیکس؟ ہاں وہ کیا تھا اس کی زندگی کا؟
جب وہ تینوں طواف ِ وداع کرکے واپس آئے تو آمنہ سجدے میں تھی۔کافی دیر جب انہوں نے اسے سجدے کی حالت میں دیکھا تو مریم نے ان کا کندھا ہلایا ’’امی .....امی ....‘‘
مگر ...یہ کیا وہاں تو ٹھنڈا وجود تھا جو ایک طرف لڑھک گیا۔ مریم کی چیخ بلند ہوئی۔ نمازِ جنازہ اور تدفین حرم میں، یہ تھا اس کی زندگی کی فلم کا کلائمیکس۔ وہ کبھی بھی اپنی زندگی کا اتنا خوبصورت اختتام نہیں سوچ سکی تھی۔
کچھ سال بعد!
’’آمنہ اسکول آف کیلی گرافی‘‘ کا انعقاد بہت بڑے پیمانے پر ہو رہا تھا۔
اپنی ماں کے نام سے اسکول کھولنے کیلئے مریم نے بہت محنت کی تھی۔ حمزہ نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔ آج وہ اس مقام پر تھی کہ ہر جگہ اس کی کیلی گرافی کی دھوم تھی۔ وہ خوش کیوں نہ ہوتی آخر کو وہ اس ماں کی بیٹی تھی جس نے صبر اور شکر کا دامن تھام کر اس کی پرورش کی تھی۔