• Sat, 18 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : لمبی ہے غم کی شام مگر....

Updated: October 16, 2025, 1:34 PM IST | Hina Farheen | New Delhi

’’بابا میرا فوکس ہٹ جائے گا پڑھائی سے۔‘‘ اس نے ملتجیانہ نظروں سے فراز صاحب کی طرف دیکھا تو فراز شاہ جو ایک پرائیویٹ کمپنی میں منیجر کے عہدے پر فائز تھے، بہت محبت کرنے والے باپ تھے اپنی بیٹی کی خواہش کے آگے زیر ہوگئے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
وہ دن اس کی زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔ اسے آج بھی یاد تھا جب فائنل ایئر کا نتیجہ آنے پر اس کے بہترین رزلٹ کی خوشی میں ایک چھوٹی سی سرپرائز پارٹی رکھی گئی تھی اور یہ سب کچھ اس کے والدین اور چھوٹے شان اور سامعہ نے مل کر اس کے لئے کیا تھا۔ وہ جب اپنے شاندار رزلٹ اور خوشی سے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ گھر پہنچی تو اس نے دیکھا گھر کی آرائش اس کے پسندیدہ سرخ گلاب اور سفید ڈیزی کے پھولوں سے اس قدر خوبصورت انداز میں کی گئی ہے کہ وہ مبہوت رہ گئی اور ان کی خوشبوؤں میں کھو سی گئی۔ حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جب اس نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا تو ماما بابا سامعہ اور شان نے زوردار تالیوں سے اس کا استقبال کیا۔ وہ مسرور سی آگے بڑھی اور ماما کی پھیلی ہوئی بانہوں میں سما گئی۔
’’مجھے پتہ تھا میری روشنی ہے ہی اتنی قابل کہ اس سے ایسے ہی شاندار رزلٹ کی توقع کی جاسکتی ہے۔‘‘ ماما کے لہجے میں فخر صاف محسوس کیا جاسکتا تھا اپنوں کے اس قدر مان اور اعتماد نے اس کی پلکوں کو نم کر دیا۔ ’’مگر آپ سب کو کیسے پتہ چلا کہ مَیں نے کالج میں ٹاپ کیا ہے؟‘‘ اس نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے بھی انجان بننے کی کوشش کی۔ ’’بھئی یہ تمہارا بھائی صبح سے کمپیوٹر سے چپک کر بیٹھا ہوا تھا جیسے ہی رزلٹ آن لائن ہوا معلوم کرنا کیا مشکل تھا اور پھر نور کا فون بھی آگیا۔‘‘ بابا ہنستے ہوئے بولے۔ ’’لیکن یہ اتنی تیاری آپ لوگوں نے کب اور کیسے کر لی؟‘‘ روشنی کی حیرتیں ختم ہونے کو نہ آرہی تھیں۔ ’’ارے ہم رات سے ہی خفیہ تیاری میں مصروف تھے، چلو اب تمہارے سوالات ختم ہوگئے ہوں تو ہم کیک کاٹ لیں۔‘‘ شان بے صبری سے کہہ اٹھا اور وہ مسکراتی ہوئی حامی بھر گئی۔ بابا کی لاڈلی بیٹی، ماما کی فرمانبردار، شان کی کرائم پارٹنر، سامعہ کی پیاری دیدی ایسی ہی تھی ہر وقت ہنستی مسکراتی ذہین و فطین، ہر ایک کا خیال رکھنے والی، محبت کرنے والی روشنی۔
ز ز ز
’’بھئی اگر آج تم اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آجاؤ تو بتا دینا کہ کھانے کے لئے کچھ ملے گا یا یوں ہی خالی پیٹ سونا پڑے گا۔‘‘ سمیر کی پاٹ دار آواز سے وہ چونک کر حواسوں کی دنیا میں لوٹ آئی، ’’جی.... جی! کیوں نہیں کھانا تو مَیں نے صبح ہی تیار کر لیا تھا بس روٹیاں ڈالنی باقی ہیں۔‘‘ ’’تو پھر ذرا زحمت فرما ہی دو روٹیاں پکانے کی۔‘‘ سمیر نے کڑوے لہجے میں کہا۔ بات بات پر غصہ کرنا طعنے دینا اس کی فطرت ثانیہ تھی، روشنی کبھی تو کڑوے گھونٹ کی طرح پی جاتی اور کبھی اس کی آنکھیں چھلک پڑتیں، دونوں ہی صورتوں میں سمیر پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ان کی تین سالہ ازدواجی زندگی کا آغاز ابتدا سے ایسا نہیں تھا یا پھر روشنی نے نوٹس کرنا ہی دیر سے شروع کیا وہ آج تک سمجھ نہ پائی۔ کچن میں آ کر اس نے جلدی سے اپنے ہاتھ تیزی سے چلانے شروع کر دیئے وہ تو شکر ہے اماں کسی رشتہ دار کے ہاں دعوت پر مدعو تھیں ورنہ ان کے ہائے واویلے جو بیٹے کے دفتر سے آتے ہی شروع ہو جاتے روشنی کے ہاتھ پیر پھلا دیتے۔ اس نے جلدی جلدی گرما گرم پھلکے اتارے اور ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگ جانے کی اطلاع سمیر کو دی۔ موبائل فون میں مگن سمیر نقص نکال نکال کر کھانا کھاتا رہا اور کھانا ختم کرنے کے بعد اسے چائے لانے کی ہدایت دیتے ہوئے اپنے کمرے کا رخ کیا اور روشنی جھوٹے برتن سمیٹتے ہوئے آج پھر بغیر کھائے رہ گئی۔
ز ز ز
’’بابا! مجھے یونیورسٹی چھوڑ دیں مَیں ذرا ایڈمیشن کی تفصیلات پتہ کر لوں مجھے اب نفسیات میں ماسٹرز کرنا ہے۔‘‘ اس نے بابا کو اطلاع دی۔ ’’بابا کی جان ہم تو تمہارے لئے کچھ اور سوچے بیٹھے ہیں۔‘‘ بابا نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بابا! مجھے آگے پڑھنا ہے۔‘‘ روشنی نے ان کے اشارے کو سمجھتے ہوئے قطعیت سے کہا۔ ’’اوکے اوکے بیٹا! ہم تمہاری اعلیٰ تعلیم کی راہ میں بالکل نہیں آئینگے لیکن ایک بار اس پروپوزل پر نظر تو ڈال لو ہم رشتہ طے کئے دیتے ہیں، شادی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سہی۔‘‘ ’’بابا میرا فوکس ہٹ جائے گا پڑھائی سے۔‘‘ اس نے ملتجیانہ نظروں سے فراز صاحب کی طرف دیکھا تو فراز شاہ جو ایک پرائیویٹ کمپنی میں منیجر کے عہدے پر فائز تھے، بہت محبت کرنے والے باپ تھے اپنی بیٹی کی خواہش کے آگے زیر ہوگئے۔ لیکن شو مئی قسمت یونیورسٹی کے پہلے سال ہی میں فراز شاہ کی ایک سڑک حادثے میں ناگہانی موت نے ان کے اہل خانہ کو ایک ایسے صدمے سے دو چار کر دیا جس نے ان کی زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ ملازمت پیشہ شخص کے پاس جائیداد اور بینک بیلنس کے نام پر ہوتا ہی کیا ہے کہ لے دے کر ایک ذاتی مکان اور معمولی سا اثاثہ ہی ان کا کل سرمایہ تھا۔ اپنوں کی بے اعتنائی جھیلتے فرحت آراء اپنے تینوں بچوں کے ساتھ دنیا میں تنہا رہ گئیں۔ شان اور سامعہ ابھی اسکول میں زیر تعلیم تھے اور روشنی کی تعلیم بھی مکمل نہ تھی ایسے میں ان کا سہارا بنے فراز شاہ کے قریبی دوست جواد ملک جنہوں نے اپنے دوست کے یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھا اور اس طرح زندگی کی گاڑی دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی۔ شوہر کی ناگہانی موت نے فرحت آراء کو توڑ کر رکھ دیا، اپنوں کی بے رخی نے رشتوں پر سے ان کا اعتماد اٹھا دیا۔ ان کی صحت روز بروز گرنے لگی اور انہیں روشنی کو اپنے گھر کا کر دینے کی فکر ستانے لگی۔ ایک بار پھر جواد ملک آگے آئے اور اپنے اکلوتے بیٹے سمیر ملک کا رشتہ روشنی کے لئے پیش کیا۔ روشنی شروع سے بہت فرمانبردار بچی تھی اپنی ماں کی خواہش کے پیش نظر اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی آرزو کو دل میں چھپا کر بہت سادگی کے ساتھ سمیر کی دلہن بن کر اس کے گھر آگئی۔ جہاں زندگی اس کے لئے پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوئی شہناز بیگم جو اپنے بیٹے کی شادی اپنی امیر کبیر بہن کی بیٹی سے کرنے کہ خواب سجائے بیٹھی تھیں انہیں اس یتیم لڑکی کے وجود سے شروع دن سے ہی پرخاش رہی۔ روشنی کی خوبصورتی اور سلیقہ شعار طبیعت بھی ان کے دل سے اس غم کو جدا نہ کرسکی۔ سمیر شروعاتی دنوں میں تو روشنی کے ساتھ محبت سے پیش آتا رہا لیکن جلد ہی روشنی پر یہ واضح ہوگیا کہ اس کا شوہر غصہ ور اور شکی مزاج انسان ہے اور اس کے سارے سنہرے خواب سمیر کے مزاج کی تپش سے بھاپ بن کر تحلیل ہوگئے۔
گزشتہ تین برسوں سے انہی تلخ حقیقتوں کے ساتھ روشنی اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہی تھی۔ اس کے ہزار احتیاط کے باوجود شہناز بیگم کو کوئی نہ کوئی موقع مل ہی جاتا اسے ذلیل کرنے کا۔ روزانہ سمیر کے آفس سے آنے کے بعد اماں جی روشنی کی دن بھر کی کارکردگی کی رپورٹ مرچ مسالہ لگا کر پیش کرتیں اور سمیر کا پارہ چڑھ جاتا اور پھر روشنی کی کلاس لگ جاتی۔ جواد ملک کی موجودگی اس پورے گھر میں روشنی کیلئے باعث غنیمت تھی لیکن مختصر عرصے بیمار رہ کر جب ابا جی بھی ملک عدم سدھارے تو روشنی سارے گھر میں تنہا رہ گئی۔
’’محترمہ اگر اپنے ماضی کے سوگ سے باہر آگئی ہو تو میرے کپڑے پریس کر دو، مجھے آج رات ڈنر پر جانا ہے۔‘‘ سمیر کی درشت آواز نے اسے حقیقت کی دنیا میں لاپٹخا اور برتن دھوتے اس کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے۔ ’’نہ جانے کون سے خیالوں میں کھوئی رہتی ہے اور مجال ہے جو کبھی اس کے چہرے کو مسکراہٹ چھو جائے....‘‘ شہناز بیگم کچن سے باہر آتے ہوئے بڑبڑائیں۔ وہ غلطی سے اس وقت کچن میں جا پہنچی تھیں جو روشنی کے کام کا وقت تھا۔ آپ لوگ کبھی خوش ہونے کا موقع تو دیں، مَیں مسکرانا تو کیا قہقہے لگانا بھی جانتی تھی۔ روشنی نے دل گرفتہ انداز میں سوچا اور سمیر کے کپڑے استری کرنے چل دی۔
’’سمیر کیا آپ آج مجھے ڈنر پر جانے سے قبل ماما کے گھر چھوڑ دینگے۔ کئی دنوں سے ماما کی طبیعت ناساز ہے۔ میرا ان سے ملنے کا بہت دل چاہ رہا ہے۔‘‘ وہ عام طور سے ایسی فرمائشیں کرتی تو نہیں تھی کہ شہناز بیگم کو اس کا میکے جانا سخت ناپسند تھا اور سمیر کو بیوی کی پسند ناپسند کی پروا ہی کب تھی۔ لیکن اس روز اس نے ہمت کرکے درخواست کر ہی ڈالی۔ سمیر پہلے تو اسے گھورتا رہا اور پھر بادل ناخواستہ تیار ہوگیا۔ اس نے جلدی سے وارڈروب سے کپڑے نکالے اور ہلکا پھلکا سا تیار ہو کر کہ ماں کے سامنے خوش ہونے کا بھرم بھی قائم رکھنا تھا بڑی سی چادر میں خود کو چھپا لیا۔ سمیر اسکے سراپے پر نظر ڈال کر تنفر سے کہا کہ، ’’اتنی تیاری کس لئے کون ہے جو وہاں انتظار میں بیٹھا ہے جس کا غم ہر وقت مناتی رہتی ہو؟‘‘ ’’کچھ تو خدا کا خوف کریں سمیر ایسی بات کرتے ہوئے، آپ جانتے ہیں میری ماما کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ان کے سامنے میں بہتر حال میں جانا چاہتی تھی بس اسلئے کہ ان کے دل کو سکون حاصل رہے۔‘‘ اس کی پلکیں بھیگنے لگیں۔ پچھلے تین برسوں سے وہ سمیر کے منہ سے اتنا کچھ سن چکی تھی کہ اسکے اندر کی ساری خواہشیں مر چکی تھیں۔ سمیر کے زہر آلود جملوں نے اس کو اندر سے مار کر رکھ دیا تھا اور آج تک وہ یہ ذلت سہنے کی عادی نہ ہوسکی۔
 
ماں باپ کو پُرسکون دیکھنے کے لئے بیٹیاں اپنی جان پر کیا کچھ نہیں سہہ جاتی اگر ماں باپ جان لیں تو ان کی نیندیں حرام ہو جائیں۔ اس نے جلدی سے میک اپ صاف کیا مبادا سمیر اسے لے جانے سے ہی انکار نہ کر دے۔ گاڑی میں سارا راستہ خاموشی رہی۔ روشنی کا سوگوار حسن سمیر کے دل کو موم نہ کر سکا وہ بے حسی سے سارا راستہ میوزک سنتا گاڑی ڈرائیو کرتا رہا اور روشنی اپنے آنسو اپنے اندر اتارتی باہر کے بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھنے میں مشغول رہی۔ ماما کے گھر ڈراپ کرکے سمیر بنا ایک لفظ معذرت کا کہے گاڑی آگے بڑھا لے گیا تو وہ بھی خاموشی سے اپنے وجود پر جبر کی ایک دبیز چادر چڑھائے ماما کے گھر میں داخل ہوئی۔ ڈرائنگ روم سے آنے والی باتوں کی ہلکی ہلکی آوازوں پر وہ ٹھٹک گئی کہ اس وقت تو ماما گھر پر اکیلی ہوتی ہیں کہ شان نے شام کو ایک اکیڈمی جوائن کر لی تھی جہاں وہ کالج سے واپسی کے بعد پڑھایا کرتا۔ اس طرح اس نے اپنے پڑھائی بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔ ماما کو اس سے بہت سی امیدیں تھیں جنہیں وہ ہر حال میں پورا کرنا چاہتا تھا۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے اس کے قدم ڈگمگا گئے جب اس کے کانوں میں ماما کا یہ جملہ پڑا کہ میری بچی اپنے گھر میں بہت خوش ہے۔ خود کو سنبھالتے ہوئے جب وہ اندر داخل ہوئی تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی۔ سامنے اس کی بے حد عزیز دوست نور فاطمہ موجود تھی جو نہی دونوں کی نگاہیں ملیں دونوں فرط جذبات سے ایک دوسرے سے لپٹ گئیں۔ دونوں کی ہی آنکھیں جھلملانے لگیں اور آخر کیوں نہ ہوتی یہ کیفیت وہ آج پورے چار سال کے بعد ایک دوسرے سے مل جو رہی تھیں۔ ’’ارے اب مجھ سے بھی مل لو میری چندا ماں بھی تو ترس رہی ہے تمہاری صورت دیکھنے کو۔‘‘ فرحت آراء نے ممتا سے لبریز لہجے میں پکارا تو روشنی ان سے بغلگیر ہو کر اپنے جذبات پر قابو پانے میں ہلکان ہوگئی۔ ’’ارے ارے بس بس میری جان یوں نہیں کرتے بیٹھو آرام سے۔‘‘
نور اور روشنی ایک دوسرے کی بچپن کی سہیلیاں ہم راز، ہم پیالہ و ہم نوالہ مگر یہ ساتھ کالج تک ہی رہا جس کے بعد نور اعلیٰ تعلیم کیلئے ملک سے باہر چلی گئی اور کون یقین کریگا کہ آج کے اس ٹیکنالوجی زدہ دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہو دو اتنی قریبی سہیلیوں کا رابطہ ٹوٹ جائے مگر یہ فاصلہ ایک حقیقت بن کر آج انکے درمیان کھڑا تھا جس کی وجوہات جاننے کیلئے نور بے چین تھی۔ ناشتے کا انتظام کرنے جو فرحت آراء منظر سے غائب ہوئیں تو شکوے نور کی زبان پر مچل گئے۔ ’’میری کہانی بعد میں، پہلے تم بتاؤ تم کہاں رہی اتنے برسوں؟‘‘ روشنی کے استفسار پر نور یوں گویا ہوئی، ’’یاررر لمبی کہانی ہے.... خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود ابو نے میرا ساتھ دیا اسکالرشپ حاصل کرکے میں اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ چلی گئی۔ پاپا کو کسی صورت لیٹ ڈاؤن نہیں کرسکتی تھی اسلئے ہر قسم کے شوق اور مصروفیات چھوڑ کر صرف پڑھائی پر ہی توجہ مرکوز کر لی اور آج تمہاری یہ دوست خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کیساتھ جڑ چکی ہے۔ اور اسی خوشی میں ایک گرینڈ پارٹی کا دعوت نامہ لئے میں تم سے ملنے آئی تو پتہ چلا آپ تو پیا دیس سدھار چکی ہیں۔ خیر میری کہانی تو سن لی اب اپنی سناؤ کیسی جا رہی ہے زندگی؟‘‘ روشنی کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ایسے ہی کچھ تو ارمان تھے روشنی کے دل میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا، اپنا مقام بنانا، انسانیت کے کام آنا، کچھ بھی تو حاصل نہ ہوسکا تھا ہاں جو کچھ حاصل ہوا تھا وہ پہلی ملاقات میں افشا تو نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فرحت آراء کے آنے پر ان کی باتوں کا رخ بدل گیا۔ روشنی نے مختصر لفظوں میں فراز شاہ کی اچانک موت اور انکی زندگی میں آنے والے دگرگوں حالات کی روداد نور کے گوش گزار کر دی جسے سن کر نور بھی افسوس میں گھر گئی۔ نور نے روشنی سے دعوت پر آنے کا اصرار کیا اور جلد ہی دوبارہ ملاقات کی امید لئے رخصت ہوئی۔ روشنی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پارٹی میں جانا ممکن نہ ہوگا نور کے سوالوں سے بچنے کی خاطر آنے کی حامی بھر لی۔
رات کو شان کے آتے ہی روشنی نے اسے گھر واپس چھوڑ آنے کی رٹ لگا دی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی تاخیر گھر میں کسی نئے ہنگامے کی وجہ بن جائے اس لئے سامعہ اور شان کے بے حد اصرار کے باوجود وہ کھانا کھائے بغیر ہی بجھے دل کے ساتھ اپنے سسرال واپس لوٹ آئی۔ سارے کام سمیٹنے کے بعد جب وہ سونے کیلئے اپنے بیڈ پر آئی تو دیکھا گھڑی رات کے ڈیڑھ بجا رہی تھی اس کا پہلو اب بھی ویران تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے لیٹ آنا سمیر کا معمول بن چکا تھا لیکن اس سے کچھ بھی باز پرس کرنے کا حق اسے کبھی حاصل نہ رہا تھا۔ شہناز بیگم بھی بیٹے کی غلط روش پر اسے ٹوکنے کے بجائے اس کی حمایت کرتیں پھر کسی شکایت کا سوال کہاں پیدا ہوتا تھا۔ روشنی نے تھکن سے آنکھیں موند لیں یہ جسم سے کہیں زیادہ ذہنی تھکن تھی جو اسے نڈھال رکھے ہوئے تھی۔ شادی کے تین برسوں بعد بھی اسکی گود سونی تھی جس کیلئے بھی اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا جا چکا تھا۔ چپکے سے دو آنسو پلکوں کی باڑھ توڑ کر نکلے اور تکیے کے شفاف غلاف میں جذب ہوگئے۔ یہ کوئی پہلی رات تو نہیں تھی، تکیہ اس کے آنسوؤں کا گواہ گزشتہ تین برسوں سے تھا۔ اس کے کردار پر لگنے والی ہر تہمت اور ہر الزام تراشی پر ملنے والے دکھ کو اس نے اسی تکیے کے ساتھ بانٹا تھا آج ایک اور رات سہی۔
رحیمن بوا پچھلے چار دنوں کی چھٹی کے بعد آج صبح ہی صبح حاضر تھیں اور شہناز بیگم کی پھٹکار سے بچنے کیلئے جلدی جلدی کچن کی تفصیلی صفائی شروع کر چکی تھیں۔ شادی سے پہلے گھر میں یوں تو کئی نوکر چاکر تھے لیکن روشنی کے آجانے کے بعد سارے نوکروں کی چھٹی کر دی گئی تھی۔ صرف رحیمن بوا جو گھر کی بہت پرانی ملازمہ تھیں جواد صاحب کے اصرار کی وجہ سے اب تک گھر میں موجود تھیں۔ جواد صاحب کے بعد روشنی کیلئے رحیمن بوا کا وجود دم غنیمت تھا۔ شہناز بیگم کے طعنوں اور سمیر کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد رحیمن بوا ہی تسلی کے دو بول بول کر اس کے زخموں پر مرہم رکھتی تھیں۔ ’’بوا آپ اتنی لمبی چھٹی پر نہ جایا کریں مجھے اس گھر میں وحشت ہونے لگتی ہے۔‘‘ ’’ارے بیٹی کیا بتاؤں میری بٹیا رجو کے خلع کا معاملہ چل رہا تھا اور کل ہی اس کا فیصلہ آگیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری بچی اس ظالم کے چنگل سے آزاد ہوگئی۔‘‘ روشنی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ’’کیا بات کر رہی ہیں بوا، یہ کیسے ہوگیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی، آپ کو ڈر نہیں لگا زمانے کا؟ آگے کیا ہوگا اس کے تو دو بچے بھی ہیں نا....‘‘ ’’ارے بیٹی مَیں نے اپنی ساری زندگی رجو کے ابّا کی مار کھاتے گزار دی، لیکن جب بیٹی پر بھی وہی بپتا پڑی تو میں برداشت نہ کرسکی۔ یوں بھی ہم غریبوں کا ہوتا ہی کون ہے ساتھ دینے والا، مَیں بھی اگر ساتھ نہ دیتی تو رجو گھٹ گھٹ کر مر جاتی.... جب خود ہی کما کر کھانا ہے تو اس نامراد کی مار کیوں کھائے! کھا لینگے روکھی سوکھی لیکن عزت کی زندگی تو مل جائیگی میری دکھیاری بچی کو۔ سلائی کڑھائی کا کام جو وہ پہلے گھر پر ہی کرتی تھی، وہ کرنل صاحب کی بیگم وہ جو ادھر چار گھر چھوڑ کر بڑی سی کوٹھی میں رہتی ہیں، انہوں نے کوئی نیا بوتیک کھولا ہے، میری رجو کے حالات جان کر اسے اپنے یہاں نوکری پر رکھ لیا ہے۔ بہت نیک دل عورت ہے اللہ اس کا بھلا کرے۔ بیٹا مَیں تو تم سے بھی یہی کہوں گی، اب بھی وقت ہے خود کے بارے میں کوئی درست فیصلہ کر لو۔ تم اس قابل نہیں ہو کہ ساری زندگی ان ناقدرے لوگوں میں رلتی رہو۔‘‘ رحیمن بوا تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے کہے جا رہی تھیں اور روشنی سوچنے لگی کہ یہ ان پڑھ عورت جس نے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا کس قدر سمجھدار ہے کہ زمانے کے رسم و رواج کیخلاف جا کر اپنی بیٹی کا ساتھ دینے کو تن کر کھڑی ہوگئی۔
سمیر کا رویہ روشنی کے ساتھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا تھا اس نے گھر کے باہر نئی دلچسپیاں تلاش لی تھیں۔ پہلے کسی بات سے درگزر کر بھی جاتا لیکن اب تو روشنی کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا گویا اس نے یہ خیال کر لیا تھا کہ اس نے کسی جیتے جاگتے وجود سے نہیں بلکہ کسی مشین سے جو احساس و جذبات سے یکسربیگانہ ہو رشتہ جوڑا ہے۔ گھر میں معاشی تنگی نہ تھی لیکن دلوں میں وسعت نہ تھی اور اس دن تو انتہا ہوگئی جب شہناز بیگم کی شکایت پر سمیر نے روشنی سے موبائل فون چھین لیا اور چیختے ہوئے اس پر چڑھ دوڑا، ’’بتاؤ کس خفیہ آشنا سے راز و نیاز کر رہی تھی۔‘‘ روشنی اس اچانک افتاد پر سہم کر رہ گئی اور روتے ہوئے بولی، ’’مَیں آپ کو بتا نے ہی والی تھی کہ میری سہیلی نور مجھ سے ملنے کیلئے گھر آنا چاہتی ہے کیونکہ اس کے دعوت دینے پر بھی میں اس کی کامیابی کے جشن میں شریک نہ ہوسکی تھی اور میں صرف اس لئے نہیں گئی کہ آپ کو اور اماں جی کو میرا گھر سے باہر میل جول پسند نہیں۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی روشنی کے آنسو تواتر سے گرے جا رہے تھے۔ ’’آخر مجھے اپنے کردار کی کتنی صفائی دینی ہوگی سمیر آپ کو.... آپ کب میرا اعتبار کریں گے؟‘‘ روشنی شکستہ لہجے میں بولی۔ 
اور جواب میں سمیر کا ایک زوردار طمانچہ اس کے رخسار کو سرخ کر گیا۔ دہکتے ہوئے رخسار کے ساتھ روشنی بے یقینی کہ عالم میں دیوار سے جا لگی کہ اگر دیوار کا سہارا میسر نہ ہوتا وہ خود بھربھری دیوار کی طرح ڈھے جاتی۔ ’’مجھ سے زبان درازی کی کوشش بھی نہ کرنا گھٹیا عورت، مَیں صرف اپنے مرحوم باپ کی وجہ سے تمہیں برداشت کئے جا رہا ہوں لہٰذا میری برداشت کی حد کو مت آزماؤ۔‘‘ کمرے کا دروازہ دھاڑ سے بند کرکے سمیر جا چکا تھا۔ شہناز بیگم اپنے کمرے کے کھلے دروازہ سے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ انہیں اپنے اندر ایک عجیب سی خوشی اترتی محسوس ہوئی اور اپنی چہیتی بھانجی کے لئے ماحول سازگار ہوتا نظر آیا۔
پتہ نہیں ازل سے عورت ہی عورت کی دشمن کیوں ہے؟ وہی عورت جو ماں بن کر اپنی اولاد پر ممتا لٹاتی ہے ساس بن کر اتنی تنگدل کیوں ہو جاتی ہے کہ بہو کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ ساری رات روشنی اس تھپڑ کے زیر اثر رہی۔ نازوں سے پلی اس لڑکی نے اتنے کھردرے اور سنگدل رویوں کا سامنا ہی کب کیا تھا۔
 
کال بیل مسلسل بج رہی تھی آخر روشنی نے ہی جو کچن میں بری طرح مصروف تھی، دروازہ کھولا اور نور کو اپنے سامنے دیکھ کر بجائے خوش ہونے کے سہم کر رہ گئی۔ ’’اندر آنے کو نہیں کہو گی؟‘‘ نور نے شوخی سے کہا۔ ’’آؤ آؤ....‘‘ اس نے چار و ناچار اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ ’’بھئی تم نے کیا سمجھا تھا، تم نہیں آؤ گی تومَیں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں گی۔ چار سال بنا کسی رابطے کے رہی ہیں ہم، اب یہ غلطی نہیں دہرانی۔‘‘ نور اپنائیت سے کہہ رہی تھی۔ روشنی اپنے حالات کی پردہ پوشی میں ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ اچانک شہناز بیگم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں، ’’ارے او کمبخت کچن میں کیا چھوڑ آئی ہے چولہے پر سارے گھر میں عجب سی بو پھیل رہی ہے...‘‘ نور پر نظر پڑتے ہی ان کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔ روشنی جلدی سے ’’مَیں ابھی آئی....‘‘ کہتی ہوئی کچن کی طرف بھاگی۔ نور روشنی کی ساس کے انداز تخاطب پر حیرت زدہ سی ان کے چہرے کو تکے جا رہی تھی۔ روشنی نے جلدی سے واپس آکر نور کا تعارف شہناز بیگم سے کرایا ’’امّاں جی یہ میری بہت قریبی دوست ہے حال ہی میں امریکہ سے لوٹی ہے۔ اسی کے گھر جانے کا ذکر مَیں کر رہی تھی اس روز....‘‘ روشنی نے اپنی ساس کےکہے جملے کہ اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی لیکن نور نے ان کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا کہ انہیں اس کا یہاں آنا ناگوار گزرا ہے اس لئے ذرا دیر بیٹھنے کے بعد روشنی کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے ہوئے رخصت ہوئی۔ جاتے جاتے اس نے روشنی کے کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’’مَیں تمہاری دوست ہوں، جب بھی کسی سامع کی ضرورت ہو مَیں حاضر ہوں۔‘‘ روشنی ممنونیت سے پلکیں جھپکا کر رہ گئی۔
’’السلام علیکم آنٹی! خیریت سے ہیں آپ!‘‘ نور نے فرحت آراء سے فون پر رابطہ کیا۔ ’’وعلیکم السلام بیٹا! مَیں بالکل خیریت سے ہوں، تم سناؤ کیسے یاد کیا؟‘‘ آنٹی آپ سے کچھ پوچھنا تھا، ’’ہاں ہاں بیٹا پوچھو نا....‘‘ ’’آنٹی روشنی کی شادی شدہ زندگی کیسی ہے، آئی مین.... کیا وہ اپنی شادی میں خوش ہے؟‘‘ نور نے جھجکتے ہوئے بالآخر وہ سوال پوچھ ہی لیا جو کئی دنوں سے اسکے ذہن میں کلبلا رہا تھا۔ ’’ہاں بیٹا! مَیں مانتی ہوں، مَیں نے بہت جلد بازی میں روشنی کی شادی کا فیصلہ کر لیا تھا کہ اس وقت مجھے اس سے بہتر کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنے گھر میں خوش ہے۔ ہاں ابھی اس کی گود خالی ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھی اداس نظر آتی ہے لیکن مجھے خدا کی ذات سے پوری اُمید ہے جلد ہی وہ اسے اولاد کی نعمت سے بھی نواز دے گا۔ میری بچی بڑی صابر ہے بیٹا!‘‘ فرحت آراء کے لہجے میں ممتا کا مان محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ’’لیکن آنٹی مَیں نے تو اس کی ساس کا رویہ کچھ اچھا محسوس نہیں کیا۔ مَیں یہی جاننا چاہتی تھی کہ سمیر بھائی کے ساتھ روشنی کی کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ ’’ارے وہ تو بہت ہی ریزور نیچر کے ہیں اسلئے آنا جانا بہت کم ہے ان کا ہمارے ہاں اور رہی سسرال کی بات تو بیٹا سسرال تو ہے ہی کانٹوں بھرا تاج۔ بہت کچھ سہنا پڑتا ہے اور بہت کچھ درگزر کرنا پڑتا ہے بیٹیوں کو تب ہی تو گھر بس پاتے ہیں۔‘‘ ’’لیکن یہ سہنا، برداشت کرنا، قربانی دینا صرف عورتوں کے نصیب میں کیوں لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ نور محض سوچ کر رہ گئی۔
آج پھر شب کے اندھیرے میں روشنی اپنے رب سے ہم کلام تھی سمیر کا آدھی آدھی رات تک باہر رہنا معمول بن چکا تھا۔ یا میرے اللہ میں نے کبھی تجھ سے شکوہ نہیں کیا جن حالات میں تو نے مجھے رکھا میں شکر ادا کرتی رہی صبر کے ساتھ اچھے دنوں کا انتظار کرتی رہی۔ اگر میرے مولا! میرا صبر اب چھوٹا پڑ رہا ہے میں ہم سفر کے ہوتے ہوئے بھی زندگی کی راہوں پر تنہا سفر کر رہی ہوں۔ اپنی ذات کا بھرم قائم رکھنے کیلئے مَیں بظاہر ہنستی مسکراتی بھی ہوں مگر میرے اندر کیسی ویرانی اترتی جا رہی ہیں تو تو اس سے آگاہ ہےنا اے ظاہر و باطن کے جاننے والے میری مدد فرما اور میری اس آزمائش کو مختصر کر دے کہ اب مجھ میں مزید سکت باقی نہیں رہی۔ آنسو اسکے دامن کو بھگو رہے تھے اور اسکا سارا وجود لرز رہا تھا۔ رات خاموشی سے گزر رہی تھی۔
’’سنو! میری پیکنگ کر دینا مَیں آفس کے کام سے ۳؍ دنوں کیلئے باہر جا رہا ہوں۔‘‘ رات کے کھانے کے بعد سمیر نے حکم صادر کیا۔ ’’جی بہتر۔‘‘ روشنی نےدھیمے لہجے میں کہا ’’کیا مَیں کچھ دنوں کیلئے ماما کے گھر سے ہو آؤں میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔‘‘ ’’ہاں ضرور کیوں نہیں تم تو قید سے آزاد ہونا ہی چاہتی ہو، کہو تو مکمل آزاد کر دوں۔‘‘ سمیر چبا کر بولا۔ ’’جانے دو بیٹا! مَیں بھی تمہارے ماموں کے گھر جا رہی ہوں، تمہارے ماموں کب سے مجھے بلا رہے ہیں کچھ زمینوں کے معاملات چل رہے ہیں ادھر میرا جانا ضروری ہے، ادھر کون اس کے نگرانی رکھے۔‘‘ شہناز بیگم بیزاری سے بولیں۔ ’’ٹھیک ہے امی لیکن میں اسے چھوڑنے نہیں جاؤں گا، میں کوئی اس کا نوکر نہیں لگا ہوں۔‘‘ ’’میں.... میں چلی جاؤں گی خود ہی، شان مجھے واپس چھوڑ دے گا ہمیشہ وہی تو چھوڑتا ہے۔‘‘ اس نے اداسی سے کہا۔ کتنی خواہش تھی اس کی کبھی اس کا شوہر بھی اس کے ساتھ میکے جائے، ان کے ساتھ ہنسے بولے مگر شان، سامعہ اور ماما تو ان کیلئے آج بھی اجنبی ہی تھے۔ دو جوڑے کپڑے بیک میں ڈال کر جب روشنی میکے پہنچی تو چھوٹے بھائی بہن اسے دیکھ کر کھل اٹھے۔ ’’آپی آپ کتنے برسوں بعد آج ٹھہرنے کیلئے آئی ہیں، مجھے تو یقین نہیں آرہا۔‘‘ سامعہ جو اَب کالج میں پہنچ چکی تھی اس سے لپٹتے ہوئے کہنے لگی۔ ماما بھی خوشی سے نہال ہوئی جارہی تھیں۔ ’’آج میں میری بیٹی کی پسند کا کھانا بناؤں گی۔‘‘ شام کو فرحت آراء نے نور کو فون کرکے گھر بلا لیا وہ بھی فوراً دوڑی چلی آئی۔ ’’آہا آج ہمارے نصیب جاگے جو روشنی بی بی ہماری زندگی میں اجالا کرنے چلی آئی ہیں۔‘‘ نور، شان اور سامعہ کے ساتھ مل کر اسے چھیڑ رہی تھی۔
روشنی کو اپنے اندر اطمینان اترتا محسوس ہوا۔ کھانے کے بعد نور نے روشنی کو گھیرا اور اسے تھام کر گویا ہوئی ’’میری پیاری دوست تمہاری سحر انگیز شخصیت کو یہ کیسا گہن لگ گیا ہے۔ کالج کے زمانے میں تمہاری امپریسیسو پرسنالٹی نے جانے کتنوں کو اپنا اسیر کر رکھا تھا۔ تمہاری پرسنالٹی کا چارم وہ اعتماد، تمہارا علم، تمہاری وہ مہربان نرم مسکراہٹ آخر کہاں غائب ہوگئی روشنی، آخر کوئی انسان اس قدر کیسے بدل سکتا ہے۔‘‘ نور شکوہ کناں تھی۔ روشنی سرد آہ بھرتے ہوئے بولی ’’حالات اورواقعات، لہجوں اور رویوں کے آگے انسان کہاں ٹھہر پاتا ہے۔ یہی سارے عوامل تو ہوتے ہیں جو لوگوں کو بدل جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔‘‘ نور کے بے حد اصرار پر روشنی نے خود پر بیتے ہرظلم کی داستان اسے سنائی۔ ان تین برسوں نے کیسے اس کی زندگی کی ہر خوشی کو نچوڑ لیا، کس طرح شک و شبہ نے اس کی شخصیت کے اعتماد کو متزلزل کر دیا اور کیسے ان ماں بیٹے نے ایک ہنستی مسکراتی زندگی سے پیار کرنے والی لڑکی کو زندگی سے بیزار کر دیا۔ تمام حالات جان کر نور ششدر رہ گئی ’’روشنی تم نے یہ روگ آخر کیوں پالا؟ کیوں نہیں کی اپنے فیصلے پر نظر ثانی؟ اگر شادی اچھی نہ نکلے تو شریعت نے بھی ہمیں اسے ختم کرنے کا راستہ سکھلایا ہے، تم اتنی باشعور، اتنی باصلاحیت اور اتنی باکردار ہو کر بھی اتنے اوچھے الزامات سہتی رہی اپنی کردار کشی پر خاموش رہی۔ نور نے اسے شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔ مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ اتنی پڑھی لکھی ہو کر بھی تم ایسی حماقت کرسکتی ہو، کالج کے امتحانوں میں ٹاپ کرنے والی زندگی کے امتحانوں میں ناکام ٹھہری۔‘‘ ’’اتنے برسوں سے میں برداشت کر رہی ہوں اور.... اور اب بھی پُر امید ہوں کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائیگا، یہ میری ناکامی ہے!‘‘ روشنی وحشت سے کہہ اٹھی۔ ’’ہاں میرے نزدیک یہ حقیقت سے فرار کی کوشش ہے۔ ایک دن بندہ بدل جائیگا اس امید پر اپنی پوری زندگی قربان کر دینا یہ کہاں کی دانشمندی ہے روشنی۔‘‘ نور نے اسے سمجھانے کے ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔
 
پتہ نہیں میں خود میں کبھی اتنی ہمت کر ہی نہیں پائی۔ میرے اندر ایک گھر بنانے کی شدید خواہش تھی یا لوگ کیا کہیں گے کے ڈر سے مجھ میں کبھی اتنا حوصلہ پیدا ہی نہ ہو سکا، ماما کی مشکل زندگی کو مزید مشکل میں بنانا نہیں چاہتی تھی۔ سامعہ کے بارے میں سوچتی ہوں اس کے رشتے میں کتنی مشکلات آئیں گی اور شان وہ تو ابھی خود اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں سرگرداں ہے۔ میں اپنے پیاروں کے لئے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرنا چاہتی اس لئے جیسی گزر رہی ہے گزر جانے دو۔‘‘ روشنی نے یاسیت سے کہا۔ ’’روشنی ایک اسپرنگ بھی دبائے جانے پر اچھل پڑتی ہے، ایک چیونٹی بھی کچلے جانے پر کاٹ لیتی ہے اور تم.... تم تو انسان ہو اشرف المخلوقات کچھ تو خود کو عزت دو۔‘‘ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی نور فاطمہ اپنی دوست کو اتنی ذلت بھری زندگی گزارتے کسی طور دیکھ نہ پا رہی تھی۔ ’’یہی تو فرق ہے نا نور ایک انسان اور حیوان میں۔ انسان ہی تو خود کو ہر طرح کے ماحول میں ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کیا خواب میں بھی میں نے ایسی زندگی کا تصور کیا تھا مگر دیکھو جی رہی ہوں نا...‘‘ ’’وہی تو میں کہہ رہی ہوں کیوں جی رہی ہو آخر.... کیوں نہیں خود کے لئے اسٹینڈ لیتی....‘‘ ’’ کیا ہوا بھئی کس کیلئے اسٹینڈ لینا ہے۔‘‘ فرحت آراء کے کانوں تک نور کا آخری جملہ پہنچا تھا۔ ’’کچھ نہیں ماما آپ بتائیے شان کی پڑھائی کیسی جا رہی ہے اور سامعہ نے آپ کو تنگ کرنا چھوڑا یا نہیں؟‘‘روشنی نے فوراً موضوع بدل دیا۔
گھر لوٹنے کے بعد بھی نور کی باتیں روشنی کے ذہن میں گونجتی رہیں اور اس کے دل و دماغ میں تلاطم برپا رہا لیکن وہ کبھی انتہائی قدم اٹھانے کی ہمت نہ کرسکی آخر کار وہ کچھ ہوا جس نے اسے ایک فیصلہ کن مقام پر پہنچا دیا۔ سمیر کی بے توجہی اور روشنی کی ذات میں عدم دلچسپی اب معمول کا حصہ بن چکی تھی لیکن اس کے طعنے دیتی زبان گویا دو دھاری تلوار بن چکی تھی جو بات بے بات پر روشنی کے دل کو چیر کر رکھ دیتی۔ آج کل اس کی طبیعت گری گری سی رہتی، ایسے میں ہزار احتیاط کے باوجود کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو ہی جاتی اور ماں بیٹا ایک محاذ کھول دیتے۔ ایک شام آفس سے خلاف معمول جلد لوٹنے کے بعد سمیر کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ روشنی کو اس کی مصروفیات سے ہمیشہ ہی بے خبر رکھا گیا تھا۔ اس وقت اس کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ سمیر بیڈ روم میں اپنی تیاریوں میں مصروف ہے، وہ کسی چیز کو ڈھونڈتی ہوئی بیڈ روم میں پہنچی کہ سمیر کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ ’’ہاں میری جان میں بس پہنچنے ہی والا ہوں تمہیں پک کرنے، تم بس جلدی سے تیار ہو جاؤ اور ہاں وہی ریڈ ڈریس پہننا جو میں نے تمہیں گفٹ کیا تھا۔ کتنی حسین لگو گی تم اس میں؟ میں ابھی سے تصور کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ سمیر کے الفاظ نے روشنی کی سماعت میں زہر انڈیلا۔ جیسے خواب ٹوٹا تھا یا نظروں کے سامنے پڑے سارے پردے ہٹ گئے تھے، روشنی تڑپ کر کمرے میں داخل ہوئی۔ سمیر روشنی کو اپنے سامنے دیکھ کر پہلے تو بوکھلایا مگر پھر ڈھٹائی سے روشنی پر چڑھائی کرتے ہوئے پھنکارا، ’’تم... تم جاہل عورت، تمیز نہیں ہے تمہیں بالکل، کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دینے کا رواج نہیں ہے تمہارے یہاں۔‘‘ روشنی کی آنکھیں چھلک پڑیں، ’’آپ ابھی کس سے اس طرح کی باتیں کر رہے تھے؟‘‘ تم سے مطلب سمیر نے بگڑتے ہوئے کہا، ’’تمہیں میرے ذاتی معاملات میں مداخلت کی اجازت میں نے کب دی؟ اپنی حد میں رہو یہی تمہارے لئے بہتر ہوگا۔‘‘ ’’سمیر آپ کی بیوی ہوں میں کچھ تو خیال کیجئے آپ نے ان تین برسوں میں مجھ پر سیکڑوں بار الزام تراشی کی، مجھ پر شک کیا اور آج وہی بات ایک حقیقت بن کر سامنے کھڑی ہے فرق صرف یہ ہے کہ مجرم میں نہیں آپ ہیں۔‘‘ نہ جانے ان لمحوں میں روشنی میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ وہ سمیر کے سامنے تن کر کھڑی ہوگئی سوال پوچھنے اور سمیر یہ گوارا کیسے کرسکتا تھا، ’’تمہاری ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ مجھ سے سوال پوچھو...‘‘ اس نے روشنی پر تھپڑوں کی بارش کر دی اور ساتھ ہی روشنی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا کہ وہ چکرا کر گری؟ کارنر میں پڑے پیتل کے بڑے گلدان سے اس کا سر ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔
ہسپتال کے بیڈ پر روشنی نے جب آنکھیں کھولی تو اسے اپنے اطراف وہ مہربان چہرے نظر آئے جو اس کی فکر میں پچھلے دو دنوں سے ہلکان تھے اس نے نظریں گھما کر ارد گرد کا جائزہ لیا، چند لمحے لگے اسے صورتحال کو سمجھنے میں۔ ڈاکٹر ذکیہ زیدی جو مشہور گائناکولوجسٹ تھیں اس پر جھکی چیک اپ کر رہی تھیں۔ روشنی کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائیں اور پوچھا، ’’اب کیسا محسوس کر رہی ہو؟‘‘ روشنی نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔ ’’یہ اب ٹھیک ہیں مگر ان کا نقصان بہت بڑا ہے اس لئے آپ لوگوں کو بہت اسپیشل کئیر دینی ہوگی۔‘‘ روشنی اس جسمانی اور ذہنی دھچکے کے بعد اپنے ۶؍ ہفتوں کے بچے کو کھو چکی تھی وہ خوشی جسے اس نے ابھی پوری طرح محسوس بھی نہیں کیا تھا وہ اس سے چھینی جا چکی تھی۔ اس لمحے روشنی کی آنکھوں میں ویرانیاں اتر آئیں مگر اس نے خود کو سمیٹتے ہوئے کہا، ’’ماما مجھے گھر لے چلیں۔‘‘ اور اس طرح کچھ نہ کہہ کر بھی اس نے ساری داستان بیان کر دی۔ ’’ہاں بیٹا! ضرور تمہارے گھر کے دروازے ہمیشہ سے تمہارے لئے کھلے ہیں۔‘‘ماما نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے پرنم آنکھوں سے کہا۔ ہر تلخی کو ہنس کر پی جانے والی اپنی ماں کہلانے سے محروم کر دیئے جانے کے صدمے کو سہہ نہ سکی تھی۔
 
نور اس شام روشنی کے سامنے بہت سارے کاغذات کے ساتھ موجود تھی۔ ’’مجھے بس ان پر تمہارے دستخط چاہئیں۔‘‘ ’’آخر یہ ہے کیا؟‘‘ روشنی نے حیرانی سے ان کاغذات کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’یہ تمہارے کیس کے پیپرز ہیں بہت اسٹرانگ ڈومیسٹک وائلنس کا کیس بنے گا سمیر اور اس کی فیملی پر... ہم کورٹ جائیں گے طلاق اور مینٹیننس دونوں لیں گے، اس ماں بیٹے کو میں چھوڑنے والی نہیں ہوں جب تک انہیں سلاخوں کے پیچھے نہ پہنچا دوں چین سے نہ بیٹھوں گی۔‘‘ نور کے لہجے میں قطعیت تھی۔ وہ سمیر اور اس کی ماں کو کسی طرح کی رعایت دینے کو تیار نہ تھی۔
روشنی کاغذات کو پرے کرتے ہوئے گویا ہوئی، ’’واقعی اب اس مردہ رشتے کو نبھانے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی مجھے ان کے پیسوں سے کوئی غرض ہے۔ رہا ان کو جیل پہنچانے کا معاملہ تو نور میں نے اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے جہاں نا انصافی کا کوئی امکان نہیں۔ اللہ واقف ہے کہ میری آنکھ سے گرنے والے ہر آنسو سے، میری ہر تکلیف اور ہر اذیت سے اور وہ سب سے بہترین حساب لینے والا ہے۔‘‘ روشنی کے لہجے میں صدیوں کی تھکن تھی۔ ’’تمہاری ہر بات درست ہے روشنی لیکن اللہ نے اس دنیا کو اسباب کے ذریعے چلایا ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہر ممکن اسباب اختیار کرکے اپنے لئے کوشش کریں اور پھر نتائج اللہ پر چھوڑ دیں۔‘‘ ’’نور آپا بالکل درست کہہ رہی ہیں۔‘‘ شان جانے کب سے کھڑا ان کی گفتگو سن رہا تھا کمرے میں داخل ہوتے ہوئے عزم سے کہنے لگا، ’’میں بالکل آپ کی تائید کرتا ہوں، ہمارے ملک میں نہ جانے کتنی بیٹیاں یہ ظلم سہہ رہی ہیں خاموشی سے گھٹ گھٹ کر جی رہی ہیں۔‘‘ ’’ارے اگر میں تمہیں اعداد و شمار بتاؤں تو تمہارے ہوش اڑ جائیں گے شان، اس ملک میں ہر ۵؍ میں سے ایک عورت گھریلو تشدد سہہ رہی ہے... یہ جنسی جسمانی، جذباتی اور ذہنی کسی بھی قسم کا ہوسکتا ہے۔‘‘ نور اس شعبے میں تجربہ کار ہونے لگی تھی۔ سارے اعداد و شمار اسے ازبر ہونے ہی تھے۔ ’’بس روشنی دیدی آپ کو یہ کرنا ہی ہوگا ہم اس طرح انہیں آزاد چھوڑ دیں جنہوں نے ہماری پیاری دیدی کی زندگی کی ہر خوشی چھین لی، یہ نہ ہوگا۔‘‘ شان پرجوش تھا۔ ’’لیکن میرے بھائی یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ہمارے یہاں کے عدالتی نظام کا حال کس سے مخفی ہے؟ برسوں لگ جاتے ہیں فیصلہ آتے آتے اور پھر وہ لوگ اثر و رسوخ والے ہیں، کیا اپنے وسائل کا استعمال نہ کریں گے۔‘‘ روشنی اب بھی متامل تھی۔
’’ہوتے رہیں رسوخ والے ہمیں کم از کم یہ اطمینان تو رہے گا کہ ہم نے کوشش کی ظالموں کو سزا دلانے کی۔‘‘ فرحت آراء بھی گفتگو میں شامل ہوئیں۔ جب سے رحیمن بوا نے انہیں روشنی کے ساتھ بیتے مظالم کی داستان سنائی تھی وہ خود کو ملامت کر رہی تھیں کہ انہوں نے کیسے بے حسوں کے حوالے اپنی بچی کر دی۔ ’’تم اس بات کی فکر نہ کرو، روشنی میں بھی اپنے ذرائع کا استعمال کرکے پوری کوشش کروں گی کہ کیس کا ٹرائل جلد مکمل ہو اور جلد از جلد اس کا فیصلہ آجائے۔‘‘
سب کے مشترکہ اصرار پر بالآخر روشنی کیس کرنے کیلئے تیار ہو ہی گئی۔ ہاں منزل اب بھی دور تھی لیکن سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ ابھی قدم قدم پر مشکلیں سہنی ہوں گی، اپنی ذات کو معتوب ہوتے دیکھنا ہوگا، اپنے کردار پرالزام تراشی سہنی ہوگی مگر جس نے زندگی کو جھیل لیا اب اسے یہ مصیبتیں کیا ڈرائیں گی؟ وہ پرعزم تھی کہ اس کے پیارے اس کا ساتھ دینے کے لئے اس کے ہم قدم تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK