Inquilab Logo Happiest Places to Work

محبّت کے حصے....

Updated: April 22, 2025, 4:20 PM IST | Nazanin Firdous | Mumbai

’’مجھے یہ شادی نہیں کرنی....‘‘ اس نے سر جھکا کر کہا تھا۔ آخر اس نے خاموشی توڑی تھی لیکن منگنی توڑنے کی بات سے۔ وہ یوں اچانک اس بات کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ان دونوں کی مرضی ہی سے یہ منگنی طے ہوئی تھی۔ محبت نہیں تھی لیکن ناپسند کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ اس کی حیرت فطری تھی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’ہانی.... یہ سوٹ دیکھو تو۔ مَیں نے خاص تمہارے لئے سلوایا ہے۔ یہ کلر تمہارے پاس نہیں ہوگا اور تم پر سوٹ بھی بہت کرے گا۔‘‘ عائشہ خالہ نے اس کے سامنے ایک پیارا نیلے اور زرد رنگ کا ڈیزائنر سوٹ پھیلایا تھا۔
 ’’خالہ، مجھے یہ کلر پسند ہی نہیں۔ یہ زرد رنگ سے تو مجھے سخت چڑ ہے۔ آپ ابیہہ کو دے دیں۔ اسے ہی اول جلول رنگ پسند آتے ہیں۔‘‘ ہانی نے بیزار سا لہجہ اپنایا۔ عائشہ خالہ اس کے انداز کو زیادہ محسوس نہ کر سکیں۔
 ’’ہانی! ایسا کرو میرے ساتھ چل کر کوئی دوسرا سوٹ پسند کر لو۔ مَیں چاہتی ہوں میری ہونے والی بہو اپنی نند کی شادی میں بالکل شہزادی لگے۔‘‘ ان کے لہجہ میں بچوں والا جوش تھا۔ ہانی نے نظریں پھیر لیں، ’’ابھی بہت مصروف ہوں خالہ۔ ایگزام ہے میرا۔‘‘ اس کا دوبارہ اسی لہجہ میں جواب تھا۔
 ’’ہاں! اب ایگزام کا بہانہ تو مت بناؤ۔ سب جانتے ہیں تمہاری پڑھائی اور پڑھائی میں تمہاری دلچسپی کو....‘‘ انیلہ، خالہ کے قریب ہی بیٹھی تھی یکدم ہنس کر بولی تھی۔
 ’’کیا مطلب۔ کیا پڑھائی میں میری دلچسپی نہیں رہتی۔ آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟‘‘ اس کے اکھڑے لہجہ پر انیلہ حیران رہ گئی۔ لیکن اوپر اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر کام کرتا امین نے اس کے اکھڑے لہجہ کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ ’’ارے بیٹا! وہ تو مذاق کر رہی تھی۔ تم دل پر کیوں لے رہی ہو۔‘‘ اسے اب امی کی آواز آئی تھی۔
 ’’مذاق کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کوئی یونہی کسی کو بھی کچھ کہہ دے اور پھر اسے مذاق کا نام دے۔ ہو نہہ....‘‘ وہ اب بگڑ کر باہر کی جانب رخ کر رہی تھی۔ امین نے یہ سب بہت غور سے سنا تھا۔
 حالانکہ وہ کام کر رہا تھا لیکن شاید ہانی کے لہجہ میں کچھ تھا جو اسے متوجہ ہونا پڑا تھا۔
 اس نے لیپ ٹاپ بند کیا تھا۔ ایک گہری سانس لی تھی۔
 ’’اچانک لہجے بدل جاتے ہیں تو اسے کیا کہیں گے....‘‘ وہ اس کی منگیتر تھی۔ ابھی کچھ ماہ پہلے ہی ان دونوں کی منگنی ہوئی تھی۔ بڑی دھوم دھام سے منگنی ہوئی تھی جس میں خاندان کے سبھی افراد شریک تھے۔ 
 ’’ہانی.... رکو نا.... امین تمہیں چھوڑ دے گا۔‘‘ عائشہ خالہ اسے یوں اٹھتا دیکھ کر پریشان ہوئی تھیں۔ ’’امین.... امین....‘‘ وہ اسے ہی پکارنے لگیں تو وہ سیڑھیاں پھلانگتا نیچے آگیا تھا۔
 ’’ہانی کو گھر چھوڑ آؤ ورنہ وہ اکیلی چلی جائے گی۔‘‘ ’’ہوا کیا ہے؟ یوں اچانک اٹھ کر کیوں چلی گئیں۔‘‘ ‌وہ گاڑی کی چابی جیب میں چیک کرنے لگا تھا۔ ’’موڈی تو بچپن سے ہی ہے۔ اب بھی پتا نہیں کیا ہوا۔‘‘ امی نے فکرمندی سے کہا۔
 ’’انیلہ ساتھ جانا چاہو تو چلی جاؤ‌۔‌‘‘ اب امی انیلہ سے مخاطب تھیں۔
 ’’نا بابا.... یہ دونوں خشک قسم کے لوگ۔ نہ وہ بات کریں گی نہ بھائی کچھ پوچھیں گے۔ دونوں جانب سے سرد ہوائیں ہی آتی رہتی ہیں۔ اللہ بچائے مجھے.... نہیں سہنا ایسی سرد ہوائیں۔‘‘ انیلہ نے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا۔ چونکہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے کٹے کٹے رہتے تھے۔

 امین جب باہر آیا تو وہ گیٹ سے باہر نکل چکی تھی۔ اسے غصہ آیا۔
 ’’وہ ایک بار پیچھے مڑ کر تو دیکھتی۔ بھاگی جا رہی ہے بے وقوف۔‘‘ اس نے کار اسٹارٹ کی تھی۔ ہانی کا گھر ان کے گھر سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر تھا۔
 وہ جب کار لے کر اس کے قریب گیا تو وہ چونکی تھی۔
 ’’بیٹھو۔‘‘ اس نے فرنٹ ڈور کھولا۔‌
 وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔ سیاہ دوپٹہ سر پر لپیٹے وہ اسے اداس لگ رہی تھی۔ (اکھڑی ہوئی سی لگ رہی ہے۔ مگر کیوں؟)
 کافی دیر تک وہ دونوں خاموش تھے۔‌ امین کو یہ خاموشی کوفت میں مبتلا کر رہی تھی۔
 ہانی بدستور اپنے براؤن بیگ پر نظریں جما کر بیٹھی تھی۔ اسے یوں دیکھ کر امین نے بھی خاموشی اختیار کر لی۔ لیکن وہ اس پر گاہے بگاہے نظریں ڈال رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں کو مروڑتی کبھی انگلیاں چٹخاتی بے چین لگ رہی تھی۔ جب اس کا گھر آیا تو اس نے کار روک دی تھی۔
 خیال یہی تھا کہ وہ اتر کر چلی جائے گی۔ وہ بیٹھی رہی۔
 ’’کیا ہوا؟‘‘ اب وہ حیرانی سی اسے دیکھنے لگا، ’’اتر جاؤ۔ مجھے کام ہے اندر نہیں آ سکوں گا۔‘‘ وہ اپنی گھڑی پر نظریں جمائے بولا۔
 ’’جی....‘‘ وہ جیسے خواب سے جاگی۔ وہ اب پرس ٹٹولنے لگی تھی۔
 ’’اب کیا کرایہ دینے کا ارادہ ہے۔‘‘ اسے پرس کھنگالتے دیکھ کر وہ سچ مچ حیران تھا۔
 وہ پھر انگلیاں توڑنے لگی۔ امین اس کی انگلیوں کی حرکت کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔
 ’’کچھ کہنا چاہتی ہو؟‘‘ وہ پوچھنا چاہتا تھا اس سے پہلے اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتار دی تھی اور سامنے ڈیش بورڈ پر رکھ دی۔
 ’’مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔‘‘ اس نے سر جھکا کر کہا تھا۔
 آخر اس نے خاموشی توڑی تھی لیکن منگنی توڑنے کی بات سے۔ وہ یوں اچانک اس بات کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ ان دونوں کی مرضی ہی سے یہ منگنی طے ہوئی تھی۔ محبت نہیں تھی لیکن ناپسند کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ اس کی حیرت فطری تھی۔
 ’’کیوں؟‘‘
 وہ چپ رہی۔ ‌کار میں خاموشی ہی خاموشی تھی۔ ’’کیوں؟‘‘ اس نے پھر پوچھا تھا۔ انداز اب بدل گیا تھا۔ (کیا کوئی اور پسند آیا؟)
 ’’اب کہو گی بھی کیوں؟‘‘ اس کے لہجہ میں اب شدت تھی۔
 ’’یہ ہے وجہ۔‘‘ اس نے اپنا فون کھول کر ایک بریکنگ نیوز دکھائی۔
 کسی سگی خالہ نے اپنی ہی بھانجی کا قتل کر دیا اور لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے تھے۔ یہ لرزہ خیز قتل ہر جگہ وائرل ہو چکا تھا۔ اس کے اپنے فون میں بھی موجود تھا۔
 وہ فون دکھاتے ہوئے بھی رونے لگی تھی۔
 ’’بس اسی لئے نہیں کرنی شادی۔ مَیں نہیں چاہتی میری خالہ جو مجھ سے اتنی محبت کرتی ہیں شادی کے بعد مجھ سے نفرت کرنے لگ جائیں۔ محبت کا خون ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ میری جان سے بڑھ کر بہنیں جو دوست بھی ہیں وہ نندیں بن کر مجھ سے دشمنی پر اتر آئیں۔ اور نفرت نفرت میں مجھے....‘‘ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا، ’’اور خالو.... وہ تو شروعات ہی سے اس رشتہ کے خلاف تھے۔‘‘ روتے روتے اب حلق سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔
 ’’تو....‘‘
 ’’تو آپ اس شادی سے انکار کر دیں.... پلیز....‘‘ اس نے سوجی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔ (کتنی آسانی سے کہہ رہی ہے۔ جیسے سب یوں چٹکی بجاتے ہوگا۔ ڈفر....) اس نے کوفت سے اسے دیکھا۔
 (بچپنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ہانی میں۔ تم سنبھال لینا۔ کہیں کانوں میں امی کی آواز آئی تھی۔)
 اس نے کچھ کہا نہیں۔ آگے بڑھ کر انگوٹھی اٹھا لی تھی۔ اور جیب میں رکھ لی تھی۔
 ’’ٹھیک ہے۔ اب جاؤ۔‘‘ اس نے جھٹ دروازہ کھولا تھا اور اندر بڑھ گئی تھی۔ یہ سوچے بغیر کہ اس وقت امین کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔
 وہ واپس گاڑی موڑ چکا تھا لیکن اس کے ذہن میں کئی باتیں گردش کر رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : پگلی

امین اور ہانی دونوں ہی خالہ زاد بھائی بہن تھے۔ ان دونوں کی ماؤں کا آپس میں پیار بہت تھا۔ امین اور دو بہنیں عائشہ انیلہ تھے تو ہانی اور اس کے دو چھوٹے بھائی۔ امین سب سے بڑا بیٹا تھا آج کل کمپیوٹر سافٹ ویئر کی ایک اچھی کمپنی میں ملازم تھا اور اچھی تنخواہ پاتا تھا۔ جبکہ اس کی چھوٹی بہن نے انٹر کے بعد کالج جانا ہی چھوڑ دیا تھا اس کی شادی اپنے پھوپھو زاد سے طے تھی اور رمضان بعد متوقع تھی۔ انیلہ پڑھ رہی تھی وہ اور ہانی ایک ہی کالج میں پڑھتی تھیں۔ امین اور ہانی کا رشتہ ان کے والدین کی مرضی ہی سے طے ہوا تھا۔‌
 امین کے ابو کچھ پرانی باتوں کو لے کر تحفظات کا شکار تھے جس کی وجہ سے وہ اس رشتہ کے حق میں نہیں تھے۔لیکن‌ان کی بیوی نے باہمی رضامندی سے انہیں منا لیا تھا لیکن یہ بات ہانی تک پہنچ گئی تھی۔‌
امین گاڑی ڈرائیو کرتے وہ سب باتیں سوچ رہا تھا۔ اور وہ ویڈیو کلپ بار بار اس کے ذہن میں آرہا تھا جسے ہانی نے بنیاد بنا کر اس شادی کو توڑنے کی بات کی تھی۔ جیب میں موجود انگوٹھی اسے اچانک بھاری محسوس ہونے لگی تھی۔ ابھی تو رمضان کے بعد انیلہ کی شادی تھی۔ اس شادی کی ذمہ داری بھی اسی کے کندھوں پر تھی۔ اور ابھی وہ ہانی کی بچکانہ خواہش پر غور بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
 ہانی انگوٹھی واپس کرکے اب بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی رو رہی تھی۔ رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھیں۔ وہ اب متوقع دھماکہ کے انتظار میں تھی جو اس کے خیال میں کبھی بھی ہوسکتا تھا۔
 رمضان کے آغاز کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو عبادت میں مصروف کر لیا تھا۔ روزے بھی پابندی سے رکھ رہی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ شادی میں ہی نہیں جائے گی۔ وہ کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
 ہانی کا رمضان رونے دھونے میں گزر رہا تھا تو امین‌کے گھر میں شادی کی تیاریوں میں، دونوں بہنیں اس تمام صورتحال سے انجان اپنی شادی کی شاپنگ، دلہے والوں کی خاطر مدارات اور ایسے ہی بےشمار کاموں میں الجھی تھیں۔ ایسے میں ہانی کے رویے پر کسی نے بھی غور و خوض نہیں کیا تھا۔ عید کا چاند نظر آگیا تھا۔ ہانی کی امی اب عید کی تیاری میں‌مصروف تھی انہوں نے ہانی کو سویاں بھوننے دیا تھا اور خود میوہ تراشنے بیٹھی تھیں۔
 تبھی امین کی امی، انیلہ، علیشہ اور رحمٰن صاحب تحفے تحائف کے ساتھ ان کے گھر پر آچکے تھے۔ اور گھر میں ایک خوشگوار ہلچل مچ چکی تھی۔ ہانی افطار کرکے بیٹھی تھی۔ ان سب کو دیکھ کر اسکے دل نے جیسے خطرے کے سائرن بجا دیئے۔
 ’’یا اللہ رشتہ توڑنے بھی اتنے سب آگئے۔‘‘
 ان سب کے ہاتھوں میں تحائف تھے۔ اس کا بھائی ابھی ابھی پھلوں کے ٹوکرے رکھتا جا رہا تھا۔ اس نے گنا تھا۔ وہ شگون کے گیارہ ٹوکرے تھے۔ وہ گھبرا کر اوپر ٹیرس پر آئی اور فون کرنے لگی۔ وہ امین کو ہی فون کرنے لگی تھی۔ لیکن امین فون اٹھا نہیں رہا تھا۔ آخر تنگ آکر اس نے میسیج کرنے شروع کئے تھے۔
 ’’آپ کہاں ہیں۔ اور یہ سب کیا ہے۔ رشتہ توڑنے آئے ہیں اور وہ بھی گیارہ ٹوکروں کے ساتھ۔‘‘ ’’آپ جواب دیں گے کہ یہ سارے خوش فہمی کے ٹوکرے یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘
 ’’مجھے اس سب سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
 ’’آپ جواب دے رہے ہیں یا میں خود جا کر انکار کر دوں۔‘‘ ’’جواب دیں۔ نہیں تو....‘‘ اس نے دھمکی دینی چاہی تھی مگر وہاں ان سب میسیج کے جواب میں ایک ہی پیغام آیا تھا۔ ’’خاموش رہو گی اب.... ضروری میٹنگ میں بیٹھا ہوں۔ پہلے جا کر سب سے مل آؤ۔ کچھ دیر بعد بات کرتا ہوں۔‘‘
 غصہ کے ڈھیروں ایموجیز اس کے جواب میں بھیج کر وہ واپس نیچے کی جانب بڑھی تھی۔ وہاں پہلے ہی اس کے نام کی پکار شروع ہو چکی تھی۔
 ’’السلام علیکم خالہ!‘‘ اس نے شرافت سے سلام کیا تھا۔ ’’میری بچی!‘‘ خالہ آگے بڑھیں اور اسے گلے لگایا۔ ’’روحی بتا رہی تھی بہت عبادت کی تم نے اس رمضان۔‘‘ انہوں نے امی کا نام لے کر پوچھا۔ ’’ہاں اور ایک روزہ بھی نہیں چھوڑا، ورنہ ہمیشہ ایک نہ رکھتی تھیں۔‘‘ خالو ہشاش بشاش اس کے سر پر ہاتھ رکھے شفقت سے کہہ رہے تھے۔
 ’’خالو جان! پورے روزے رکھے میں نے۔‘‘ اس نے فوراً جتا دیا، ’’اور تراویح بھی پوری پڑھی۔‘‘ اس نے فخر سے بتایا۔ ’’اچھا! خیر ہے تراویح کے درمیان سجدہ میں سوئی تو نہیں۔‘‘ خالو ہنسے۔ ’’خالو جان! وہ بچپن کا واقعہ تھا۔‘‘ اس نے شکایتی لہجہ میں کہا تو سب ہنسنے لگے۔
 ’’ارے اب جانے دیں۔ پہلے میں اپنی بچی کو عیدی تو پہنا دوں۔‘‘ خالہ نے ایک باکس اٹھایا تھا۔ ویلویٹ کا ڈارک گرین سوٹ جس پر سلور ورک تھا۔ امی اب مسکرانے لگیں۔ وہ حق دق انہیں دیکھنے لگی۔ اور خالہ نے بڑا چوڑا دوپٹہ اس کے سر پر ڈالا۔ ہاتھوں میں گجرے پہنائے۔ بڑا سا ہار اس کے گلے میں ڈالا گیا۔ وہ پھولوں میں بالکل پھنس کر رہ گئی۔ ’’انیلہ کی شادی اگلے پندرہ دن میں طے ہے۔ تمہیں بھی تمام مایوسی کو دور پھینکنا ہے۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘ خالہ نے اس کی بلائیں لی تھی۔ خالو نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ’’ہانی بیٹا! آپ تو ہمارے گھر کی سب سے خوبصورت چہکتی چڑیا ہو گی۔‘‘ وہ سب کی محبتوں کے احساس میں گھری کچھ شرمندہ سی تھی۔
 ٹیرس پر آنے تک اس کی کال آ رہی تھی۔ ‌اس نے فون نہیں اٹھایا تو میسیج کے نوٹیفکیشنز بجنے لگے۔
 ’’اب فری ہوں۔ بات کرو۔‘‘
 ’’کیا ہوا؟‘‘
 ’’اگر فون نہیں اٹھایا تو میں وہاں آجاؤں گا۔‘‘
 اس نے فون اٹھایا، ’’آپ نے انکار کیوں نہیں کیا؟‘‘ ’’آپ کو انکار کرنا چاہئے تھا۔‘‘ اس نے سب سے پہلے وہی سوال کیا۔
 ’’ہانی! زندگی گڑیا گڈے کا کھیل تو نہیں۔ تمہارے خدشات پر میں اپنی زندگی کو یوں برباد نہیں کرسکتا۔ جو نیوز تم نے دیکھی وہ میں نے بھی دیکھی تھی۔ دل تو میرا بھی کانپ گیا تھا لیکن ہم اسے ہر ایک پر لاگو نہیں کر سکتے۔‘‘
 ’’لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ اکثر ایسے رشتوں میں شادی کے بعد دراڑیں آنی شروع ہوتی ہیں۔ پیاری بہن جیسی دوست مکمل نند بن جاتی ہے۔ محبت کرنے والی پھپھو یا خالہ ساس بن جاتی ہے۔ جو رشتہ محبت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے وہی نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ آگے ایسے رشتوں سے محبت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ میری کئی سہیلیوں نے کئی مثالیں بتائی ہیں کہ جان چھڑکنے والی پھپھو کیسے جان لینے والی بن جاتی ہے۔ ایسے رشتے زندگی میں شامل کرنے سے بہتر ہے کہ انسان ان رشتوں کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے کسی دوسرے رشتے میں نہ پڑے۔ تبھی یہ محبتیں قائم رہیں گی۔‌‘‘ وہ فون ہاتھ میں لئے سنجیدہ تھی۔ ’’تمہاری بات صحیح ہے لیکن ایک لفظ توازن ہوتا ہے۔ جسے رشتوں میں توازن رکھنا آتا ہو وہ رشتے بچا لیتا ہے۔ تمہیں شاید پتہ نہیں میں نے امی کو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ جب شادی ہوگی تو میری آمدنی رشتہ کے حساب سے تقسیم ہوگی۔ میں اپنی بیوی کے خرچ کا ذمہ دار ہوں گا لیکن والدین کے بہن بھاؤں کے بھی حقوق مجھ پر فرض ہیں۔ میں ان حقوق سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا۔ میری محبت میں بھی ہر ایک کا حصہ ہوگا اور آمدنی میں بھی۔ محبت کے حصے ہوں گے محبت کے ٹکڑے نہیں۔ میری محبت کی جہاں تم حقدار ہوگی وہاں میرے والدین بہن بھائی کا بھی حصہ ہوگا۔ تم حقدار رہو گی لیکن ایک توازن کے ساتھ، اور یہی اصول رشتوں کا بھرم قائم رکھ سکتا ہے۔ امی ابو کے چہروں میں اطمینان جھلکتا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ ان کا بیٹا ان سے غافل نہیں ہوسکتا۔ وہ بیوی سے جتنی محبت کرے گا مگر اپنی بہن بھائیوں کی محبت میں کو ئی کمی نہیں کرے گا۔‘‘ امین اسے سمجھا رہا تھا، ’’میری زندگی میں ہر محبت کے حصے ہوں گے۔ مَیں محبت کو ٹکڑوں میں کبھی نہیں بانٹوں گا اور نہ محبت کے ٹکڑے ٹکڑے کروں گا۔ اتنا ذہن نشین کر لو۔ میری محبت کی مکمل حقدار صرف تم نہیں میرے اپنوں کا بھی حصہ ہوگا اور ایسی محبت کے کبھی ٹکڑے نہیں ہوتے۔‘‘ ’’وہ تو ہے....‘‘ وہ قائل ہوئی۔
 ’’لیکن تمہاری محبت کا حصہ زیادہ ہوگا۔‘‘ ایک نرم اور لطافت بھرے احساس نے ہانی کے دل کو چھو لیا۔ اس کے چہرے پر رنگ دہکنے لگا۔
 ’’اچھا! اب میں فون رکھ دوں؟‘‘
 ’’نہیں، ابھی نہیں۔‘‘ سرعت سے جواب آیا۔ ’’کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
 ’’مَیں محترمہ ہانی کو کچھ دیر اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ بیوقوف زیادہ لگتی ہے یا خوبصورت۔‘‘ وہ ہنسا تھا۔ ’’یہ میری تعریف ہر گز نہیں ہے۔‘‘ وہ چلائی۔ ’’مَیں نے تعریف کی بھی نہیں۔ ویسے اگر بالکونی کے کچھ اور قریب آؤ گی تو ہماری آنکھوں کی عید کا سامان ہو جائے گا۔‘‘
 وہ چونکی۔ اور بالکونی کے کچھ قریب گئی تو وہاں اپنی بائیک کے ساتھ وہ کھڑا تھا۔ نظریں اوپر ہی تھیں فون کان کو لگا ہوا تھا۔
 اس کے چہرے پر مسکراہٹ چاند کی طرح چمکنے لگی دھیمی دھیمی سی۔
 ’’عید مبارک ہانی!‘‘ وہ اس پر ہی نظریں جمائے اب فون پر کہہ رہا تھا۔
 ’’آپ کو بھی، عید مبارک!‘‘ کہہ کر اب وہ فون رکھ چکی تھی۔
 اسے امید تھی کہ امین اپنے نام کی طرح رشتوں کا بھی امین رہے گا۔ ایسے لوگ محبتوں کے حقدار بھی ہوتے ہیں۔ اور امین اور اس کا رشتہ بھی مکمل محبت کا حقدار رہے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK