• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : مسٹر پرفیکٹ

Updated: November 19, 2025, 4:16 PM IST | Ulfat Riyaz | Mumbai

شبانہ جب بہت چھوٹی تھی تب سے اس میں ایک عجیب سی عادت تھی۔ وہ ایسی کسی بھی چیزوں کو اپنانا پسند نہیں کرتی تھی جو اس سے قبل کسی کی پسندیدہ ہو یا کسی کے استعمال میں رہی ہو۔ اسے اپنے لئے ہمیشہ نئے کپڑے، کھلونے اور کتابیں چاہئے ہوتی تھیں۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
جس وقت عصمت تھکی ہاری یونیورسٹی سے فلیٹ پر آئی تو اس کا ارادہ تھا کہ کچھ ہلکا پھلکا بنا کر کھا لوں گی اور آرام سے سو جاؤں گی۔ وہ آج کلاسیز لینے کے بعد گھر آنے کے بجائے کافی دیر تک اپنی دوست صائمہ کے ساتھ کینٹین میں بیٹھی رہی تھی۔ صائمہ کچھ روز سے اسے اداس اور چپ چپ سی لگ رہی تھی۔ آج اسے وجہ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ذیشان، جس سے صائمہ گزشتہ تین برسوں سے رابطے میں تھی، وہ اب کسی اور کا دیوانہ ہوگیا ہے۔ عصمت پہلے بھی صائمہ کو خبردار کر چکی تھی کہ وہ لڑکا صحیح نہیں ہے۔ اس وقت صائمہ کو عصمت کی بات پر یقین نہ ہوا تھا مگر ایک ہفتہ پہلے جب اس نے اپنی آنکھوں سے ذیشان کو پارک میں کسی اور کے ساتھ بے تکلف ہوتے دیکھا تو اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ حالانکہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اس نے خود ہی تعلق ختم کر دیا تھا مگر اس کا غم ابھی تک دل سے لگا ہوا تھا۔ عصمت تقریباً ایک گھنٹہ تک اسکے پاس بیٹھی اسے سمجھا بجھا کر تسلی دیکر چلی آئی تھی۔ گھر آ کر ابھی وہ کپڑے تبدیل کر کے کچن میں پہنچی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی....
وہ الٹے پاؤں کچن سے کمرے میں آئی اور بیگ سے اپنا فون نکالا۔ اسکرین پر چمکتے ہوئے نام کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی.... شبانہ.... اس نے فون کان سے لگایا....
’’السلام علیکم.... پہچانا مجھے؟‘‘ وہ شبانہ ہی تھی۔ ’’وعلیکم السلام۔ تم شبانہ ہو؟ کیسے بھول سکتی ہوں بھلا....‘‘ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو لگا تھا کہ واقعی بھول ہی گئی ہو.... نہ کوئی خبر نہ خیریت.... اور تو اور اس بار عید پر بھی نہیں آئی۔‘‘ شبانہ شکوہ کرنے لگی۔
’’تم تو جانتی ہی ہو کہ یہاں یونیورسٹی میں کتنا کام ہوتا ہے.... بس اسی لئے اس بار عید اور بقرعید دونوں یہی گزارنے پڑے۔‘‘ عصمت نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’وہ سب چھوڑو، یہ بتاؤ کیسی ہو اور کیسے یاد کیا؟‘‘
’’مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔ مَیں نے تمہیں ایک خوش خبری سنانے کے لئے فون کیا ہے۔‘‘ وہ بہت خوش تھی۔
’’اچھا! واقعی؟ جلدی بتاؤ پھر۔‘‘
عصمت کو پورا یقین تھا کہ وہ ضرور اپنی شادی کی خبر دینے والی ہے، پھر بھی وہ اس کے منہ سے سننے کے لئے بےتاب تھی۔
’’تم کو ہمیشہ مجھ سے شکایت ہوتی تھی نا کہ مَیں شادی نہیں کر رہی تو لو، مَیں نے تمہاری شکایت دور کر دی۔ اگلے مہینے کی ۵؍ تاریخ کو میری شادی ہے۔ اور ہاں.... اس بار کوئی حیلہ بہانہ نہیں سنانا مجھے.... تم کو ہر حال میں آنا ہے۔‘‘
خبر سنتے ہی عصمت کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ ابھی چند منٹ پہلے اس کا چہرہ ایسا تھا جیسے سارا دن کام کرنے کے بعد کسی دہاڑی مزدور کا ہو جاتا ہے اور اب.... اب چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔
’’ہاں ہاں ضرور.... مَیں تمہاری شادی میں تو ضرور آؤنگی، بھلے سے مجھے استعفیٰ دینا پڑے....‘‘ اتنا کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ وہ دونوں کافی دیر تک اگلی پچھلی باتیں کرتی رہیں، پھر عصمت نے آنے کا وعدہ کرکے فون رکھ دیا۔
عصمت اور شبانہ بچپن کی دوست تھیں۔ دونوں کے گھر کی دیواریں ملی ہوئی تھیں اور چھت بھی مشترکہ تھی۔ اس کے علاوہ عصمت کے گھر کے برآمدے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جو شبانہ کے باورچی خانے میں کھلتی تھی۔ وہ دونوں سارا سارا دن ایک دوسرے کے گھر میں کھیلا کودا کرتیں۔ اگر عصمت اپنے گھر پہ ہوتی تو شبانہ وہاں پائی جاتی اور اگر شبانہ کسی وجہ سے اس کے گھر نہ جا پاتی تو عصمت خود اس کے گھر پہنچ جاتی۔
اسکول بھی دونوں کا ایک ہی تھا اور شام کے وقت دونوں قرآن بھی ساتھ ہی میں پڑھ لیا کرتی تھیں۔ بچپن سے لے کر بارہویں جماعت تک دونوں ساتھ ساتھ رہی تھیں۔
بارہویں کے بعد دونوں دور تو ہوگئیں مگر ان کی محبت میں کمی پھر بھی نہ آئی تھی۔
عصمت کے بارہویں کا رزلٹ آنے سے پہلے ہی اس کے لئے ایک بہت اچھا رشتہ آگیا تھا۔ لڑکے والے شادی کے بعد پڑھانے کے لئے تیار تھے، سو بلا تعامل اس کی شادی کر دی گئی۔ اس درمیان کافی سال گزر گئے۔ عصمت نے سسرال آ کر بی اے اور ایم اے کیا اور اب وہ تحقیق کی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی۔
شبانہ نے بارہویں کے بعد پرائیویٹ بی اے کیا۔ اس کے بعد نہ تو اس نے مزید تعلیم حاصل کی نہ ہی شادی کی۔
مہینے دو مہینے بعد جب بھی ان دونوں کی بات ہوتی یا جب بھی عصمت امی کے گھر آتی تو وہ شبانہ سے اس کا شکوہ ضرور کرتی۔
’’شبانہ یار.... تم کب اپنی شادی میں بلاؤ گی؟ دیکھو ہماری ساری سہیلیوں کی شادیاں ہوگئیں اور کچھ کے تو بچے بھی ہوگئے مگر تم ہو کہ ہم لوگوں کو انتظار کرواتی ہو۔‘‘
اس پر شبانہ بجائے برا ماننے کے فوراً جواب دے دیتی.... ’’عصمت تم کو تو معلوم ہی ہے میری پسند کا۔ مجھے جلدی کوئی چیز پسند نہیں آتی۔ میں چیزوں کے انتخاب میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتی ہوں تو پھر شوہر کے معاملے میں جلد بازی کیسے کرونگی؟ ایسے ہی کسی بھی ایرے غیرے کے پلے تھوڑی بندھنا ہے مجھے۔ جب تک مجھے میرا مسٹر پرفیکٹ نہیں مل جاتا تم کو انتظار کرنا پڑے گا....‘‘
شبانہ کی نفسیات سے عصمت بخوبی واقف تھی۔ اور اس بات سے بھی کہ اب تک کتنے ہی اچھے اچھے رشتے وہ ٹھکرا چکی تھی۔
شبانہ جب بہت چھوٹی تھی تب سے اس میں ایک عجیب سی عادت تھی۔ وہ ایسی کسی بھی چیزوں کو اپنانا پسند نہیں کرتی تھی جو اس سے قبل کسی کی پسندیدہ ہو یا کسی کے استعمال میں رہی ہو۔ اسے اپنے لئے ہمیشہ نئے کپڑے، کھلونے اور کتابیں چاہئے ہوتی تھیں۔ عصمت بڑے شوق سے اپنی آپا کے کپڑے پہنا کرتی تھی جبکہ شبانہ کو کسی کے اترے کپڑے یا کسی کی استعمال شدہ چیزیں لینے میں عجیب کراہیت محسوس ہوتی تھی۔ اسے لگتا تھا گویا یہ اس کی توہین ہو۔
عصمت کو وہ واقعہ یاد آیا جب ایک دفعہ اس کے ابو اس کے لئے کشمیر سے بہت پیارا پھیرن لائے تھے۔ عصمت نے اس کو پہنا اور ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے شبانہ کو دکھانے دوڑی۔
’’دیکھو تو شبانہ... مَیں کیسی لگ رہی ہوں...‘‘
’’ارے واہ عصمت تمہارا جوڑا تو بہت پیارا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ میرے پاس بھی ایسا کوئی جوڑا ہوتا....‘‘ شبانہ کی حسرت بھری نگاہوں کو دیکھ کر عصمت فوراً گھر گئی اور وہ پھیرن لا کر شبانہ کو دے دیا۔
’’یہ لو شبانہ، یہ تم رکھ لو۔ مَیں ابا سے دوسرا منگوا لوں گی۔‘‘ اس نے بڑی اپنائیت سے پھیرن اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
عصمت کو لگا تھا وہ اپنی دوست کو خوش کرنے میں کامیاب ہو جائے گی مگر جب کئی بار اصرار کے بعد بھی شبانہ نے اسے لینے سے انکار کر دیا تو وہ بیچاری خاموشی سے واپس گھر آ گئی۔
اس دن پہلی دفعہ عصمت پر اس کی یہ فطرت آشکار ہوئی تھی۔ لیکن جوں جوں دونوں بڑی ہوتی گئیں اور ساتھ میں وقت زیادہ سے زیادہ گزرنے لگا وہ شبانہ کی نفسیات سے بخوبی واقف ہوگئی تھی۔
اللہ اللہ کرکے عصمت کا انتظار ختم ہوا اور وہ وقت بھی آگیا جب شبانہ دلہن بنی اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ عصمت شبانہ کی رخصتی پر تو نہ آسکی تھی مگر آج جب اسکی چوتھی تھی تو وہ خصوصی طور سے دو دن کی چھٹی لیکر کل رات کو ہی امی کے گھر آئی تھی اور اس وقت وہ شبانہ کے سسرال میں موجود تھی۔ شبانہ اس کو دیکھ کر بے حد خوش ہوگئی تھی۔ عصمت اور اس کی دوسری سہیلیاں شبانہ کے ہمراہ بیٹھیں اس سے راز و نیاز کی باتیں کرکے اسے چھیڑ رہی تھیں۔
’’ارے واہ شبو.... مہندی تو خوب چڑھی ہے۔ لگتا ہے بھائی صاحب بہت زیادہ پیار کرتے ہیں....‘‘ کلثوم نے کہا تو وہ شرما گئی اس پر سبھی ہنسنے لگیں....
’’پیار تو شبو بھی کم نہیں کرتی.... کیوں شبو، درست کہا نا....‘‘ نازیہ نے کہا۔
’’ارے بھئی پیار تو کرے گی ہی.... اتنی مشکلوں سے ملے ہیں.... ویسے کہاں ہیں تمہارے مسٹر پرفیکٹ؟ مجھے بھی تو دکھاؤ....‘‘ عصمت کا تجسس بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ وہ مسٹر پرفیکٹ کو دیکھنے کے لئے اور انتظار نہیں کرسکتی تھی۔
’’وہ دیکھو....‘‘ شبانہ نے کچھ شرماتے ہوئے نظریں ایک طرف اٹھائیں۔ عصمت کی نگاہیں اس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے جیسے ہی مسٹر پرفیکٹ تک پہنچی، وہ سن رہ گئی۔ اس کے منہ سے بس ایک ہی لفظ نکل سکا....
’’ذیشان!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK