Inquilab Logo

ہم سب دیش پریمی ہیں

Updated: July 21, 2021, 1:39 AM IST | parvez hafeez | Mumbai

کیا آپ جانتے ہیں کہ جس برطانوی سامراج کی اس بدنما وراثت کو ہم ابھی تک ڈھو رہے ہیں خود اس نے اس کالے قانون کو برسوں پہلے آئین کی کتاب سے نکال پھینکا ہے۔ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت امریکہ میں بھی غداری قانون نام کی کسی چڑیا کا وجود نہیں ہے۔ تو پھر ہم نے جو اقوام عالم کے سامنے شہری آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، ابھی تک اس مصیبت کو کیوں گلے لگائے رکھا ہے

Supreme Court of India.Picture:INN
سپریم کورٹ آف انڈیا تصویرئی این این

تشویش کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت غداری کے قانون کو بے تحاشہ اور بے دریغ استعمال کررہی ہے لیکن راحت کی بات یہ ہے کہ ملک کی عدالت عظمیٰ بھی متواتر اس قانون کے وجود اور موجودگی پر سوال اٹھا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے جمعرات کے دن ایک بار پھر مودی سرکار کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اس فرسودہ قانون کو ختم کردے کیونکہ برطانوی غلامی کی علامت اس سخت گیر قانون کی آزادی کے۷۵؍ سال بعد آج کے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔چیف جسٹس این وی رامنا نے سرکار کو یاد دہانی کرائی کہ برطانوی حکومت نے اس قانون کاتحریک آزادی کو کچلنے کے لئے استعمال کیا تھا اور آج آزاد ہندوستان میں پولیس اس کا مسلسل غلط استعمال کر رہی ہے۔گزشتہ چار پانچ ماہ سے سپریم کورٹ نے متعدد بار غداری قانون پر جس طرح کے فیصلے دیئے ہیں اور جس طرح کے تبصرے کئے ہیں ان سے حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عہد جدید کے جمہوری معاشرے میں اس فرسودہ جابرانہ قانون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہندوستان میں اس قانون کا کس قدرغلط استعمال ہورہا ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ جھارکھنڈ کے کھنتی ضلع  میں  ۲۰۱۷ء سے ۲۰۱۸ء  کے درمیان دس ہزار سے زیادہ غریب آدیباسیوں کے خلاف حکومت نے اس کے تحت مقدمے  درج کئے۔ ان کا ’’ جرم‘‘ صرف اتنا تھا کہ وہ ان ترقیاتی پروجیکٹس کے قیام کے خلاف تحریک چلا رہے تھے جن کے بہانے سرکار انہیں ان کی اراضی اور جنگلات سے بے دخل کر سکتی تھی۔پچھلے ہفتے ہریانہ کے چند کسانوں پر غداری کا مقدمہ ٹھوک دیا گیا کیونکہ وہ ایک صوبائی وزیر کے سامنے احتجاج کررہے تھے اور احتجاجیوں نے منتری جی کی گاڑی کا شیشہ توڑ دیا تھا۔بی جے پی کے سات سالہ دور اقتدار میں شہریوں کی آزادی بشمول آزادیٔ اظہار رائے بتدر یج سلب کی گئی ہے اور اس کام کیلئے حکومت کے پاس سب سے خطرناک ہتھیار تعزیرات ہند کی یہی دفعہ  ۱۲۴؍ اے  ہے۔ قانونی ویب سائٹ آرٹیکل ۱۴؍ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دس برسوں میں۴۰۵؍ افراد پر غداری کے کیس درج کئے گئے جن  میں ۹۶؍ فی صد کیس ۲۰۱۴ء  کے بعد کے ہیں۔ ایک اور پریشان کن بات اس رپورٹ سے یہ سامنے آئی کہ ان میں سے تقریباً تین سو معاملات میں ملزموں کے خلاف الزام یہ تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم مودی یا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی پر تنقید کی یا ان کی توہین کی۔
 ۲۰۰۳ء میں عراق پرناجائز چڑھائی میں امریکہ کی بھرپور حمایت کرنے پربرطانوی عوام اتنے برہم ہوئے کہ انہوں نے اپنے وزیر اعظم ٹونی بلیئرکے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ لندن کی سڑکوں پر لاکھوں لوگوں نے عراق جنگ کے خلاف مظاہرے کئے۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں جو پلے کار ڈ تھے ان پر بلیئرکو جھوٹا اور مکار یہاں تک کہ’’ بش کا پالتو کتا‘‘کا لقب بھی دیا گیا لیکن ان عوامی مظاہروں پر پولیس نے کوئی پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی کسی برطانوی شہری کے خلاف بلیئر نے وطن سے غداری کا مقدمہ دائر کیا۔
 امریکہ میں پچھلے سال Black Lives Matter تحریک کے دوران تخریب کاری بھی ہوئی اور تشدد بھی لیکن احتجاجیوں کے خلاف  بغاوت کا الزام نہیں لگایا گیا حالانکہ ان کے ہاتھوں قومی املاک کی بڑے پیمانے پر تباہی بھی ہوئی۔ جمہوری ممالک کے سربراہان کو بر ا بھلا کہنا یا ان کی پالیسیوں پر تنقید کرناکوئی جرم نہیں ہے اور وطن سے غداری تو ہرگز نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکی میڈیا اور شہریوں نے پاگل، متعصب، بدکردار، مکار کیا کیا نہیں کہا لیکن کسی اخبار یا شخص پر غداری کا الزام نہیں لگایا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے تو پورے چار سال تک ٹرمپ کے ذریعہ بولے گئے ایک ایک جھوٹ کا شمار کیا لیکن اخبار کے اشتہارات بند نہیں کئے گئے۔ٹرمپ کے چہرے والے پنچنگ بیگ (پتلے)ملک کے متعدد شہروں میں پبلک پارکوں میں نصب کئے گئے جن پر مکے اور لاتیں برساکر لوگ اپنے غم و غصے کا مظاہرہ کرتے ر ہے۔ عالمی سپر پاور کے سربراہ کی اس سے زیادہ ذلت اور کیا ہوسکتی تھی لیکن مغرور اور مخبوط الحواس ہونے کے باوجود ٹرمپ نے اس تحقیر کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور کسی کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اپنے یہاں تو صرف یہ سوال کرنے پر کہ حضور مائی باپ ہمارے حصے کے ٹیکے آپ نے دوسرے ملکوں کو کیوں بھجوا دیئے، دہلی میں ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے اور ’’گائے کے پیشاب یا گوبر سے کورونا کا علاج ممکن نہیں ‘‘ جیسی دانشمندی کی بات کہنے والے صحافی کو منی پور میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ 
  حکومت کی تضحیک اور ملک کی تحقیر یا تضحیک دو الگ باتیں ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے کا مطلب حکومت کو کمزور یا غیر مستحکم کرنا نہیں ہے۔ جمہوری طریقے سے منتخب کسی حکومت کو گرانے کی خاطر اگر کوئی ایسی تخریبی کارروائی کی جاتی ہے جس میں تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے تبھی وہ وطن دشمنی کے زمرے میں آسکتی ہے۔ لیکن  پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں یا کورونا مریضوں کو آکسیجن کی فراہمی میں ناکامی یا کسانوں کے طویل احتجاج کے باوجود نئے زرعی قوانین کو واپس لینے سے انکار کے لئے، اگر لوگ مودی سرکار یا یوگی سرکار کی تنقید کی جائے تو یہ وطن سے بغاوت نہیں ہے۔ غالباً سپریم کورٹ کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ اپنی پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانےکیلئے حکومت بغاوت قانون کا بیجا استعمال کررہی ہے۔مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ اس قانون کا مقصد شہریوں کی آزادی کو کچلنا ہے۔ نہرو جی نے اسے’’قابل اعتراض اور قابل نفریں‘‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جتنی جلد اسے ہٹادیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ افسوس یہ ہے کہ نہرو نے اسے نہیں ہٹایا اور ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی نے اپنے مخالفین کے خلاف اسے ہتھیار بھی بنایا۔
 ہر انسان بنیادی طور پر اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی شہری کو ملک کی حکومت سے کوئی شکایت ہوسکتی ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اسے اپنی جنم بھومی سے پیار نہیں ہے۔ 
 اس ظالم قانون کی وجہ سے ایک فرشتہ صفت پچاسی سالہ بزرگ جنہوں نے ساری زندگی خدمت خلق میں گزار دی، کی پیشانی پر غدار لکھ  دیا گیا ہے اور وہ شدید بیماری کی حالت میں سلاخوں کے پیچھے دم توڑ گئے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ فادر اسٹین سوامی اگر اپنی بیماری سے بچ بھی جاتے تو وطن دشمنی کے شرمناک الزام کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جس برطانوی سامراج کی اس بدنما وراثت کو ہم ابھی تک ڈھو رہے ہیں خود اس نے اس کالے قانون کو برسوں پہلے آئین کی کتاب سے نکال پھینکا ہے۔ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت امریکہ میں بھی غداری قانون نام کی کسی چڑیا کا وجود نہیں ہے۔ تو پھر ہم نے جو اقوام عالم کے سامنے شہری آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، ابھی تک اس مصیبت کو کیوں گلے لگائے رکھا ہے؟n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK