Inquilab Logo

کیا بولے ہوسبولے

Updated: October 08, 2022, 1:15 PM IST | Mumbai

آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبولے نے گزشتہ دنوں افراط زر،  بے روزگاری، بڑھتی غربت اور اسی رفتار سے بڑھتی عدم مساوات کے خلاف مودی حکومت کو آئینہ دکھایا۔

RSS General Secretary Dattatreya Hosbole  .Picture:INN
آرایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبولے ۔ تصویر:آئی این این

آرایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبولے نے گزشتہ دنوں افراط زر، بے روزگاری، بڑھتی غربت اور اسی رفتار سے بڑھتی عدم مساوات کے خلاف مودی حکومت کو آئینہ دکھایا۔ سب جانتے ہیں کہ آر ایس ایس، حکمراں جماعت بی جے پی کی سرپرست تنظیم ہے۔ اس کی جانب سے مرکز کی پالیسیوں پر جو تنقید ہوئی ہے وہ صرف تنقید نہیں بلکہ معاشی مبصرین اور اپوزیشن لیڈروں کی اُن تمام تنقیدوں کی تائید و توثیق ہے جو وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہیں مگر مودی حکومت نے اُن کا کبھی نوٹس نہیں لیا۔ ہوسبولے کا کہنا تھا کہ (خلاصہ) ایک طرف یہ بتلایا گیا ہے کہ ہندوستانی معیشت دُنیا کی سرفہرست چھ معیشتوں میں سے ایک ہے مگر دوسری طرف آبادی کے ایک فیصد کے پاس ملک کی ۲۰؍ فیصد دولت ہے جبکہ ملک کی ۵۰؍ فیصد آبادی کو مجموعی دولت یا آمدنی کا صرف ۱۳؍ فیصد ملتا ہے۔ ہوسبولے نے گزشتہ چند دہائیوں کی معاشی پالیسیوں کو بھی ہدف بنایا جس میں واجپئی کا دور بھی شامل ہے اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی۔ مگر یہ اعتراض یا تنقید موجودہ دور میں ہوئی ہے اس لئے موجودہ دور کی حکومت کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہے جسے ماضی کی غلطیوں کو (اگر کچھ غلطیاں ہوئی تھیں) بھی درست کرنا تھا اور حال کی پالیسیوں کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانا تھا۔ آر ایس ایس کو گلہ ہے کہ مودی حکومت نے ’’ماضی کی غلطیوں‘‘ کو بھی درست نہیں کیا اور نئی پالیسیوں کو بھی دھاردار نہیں بنایا۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ پالیسی کے نام پر نوٹ بندی کا اقدام فائدہ پہنچانے کے بجائے شدید تر نقصان پہنچانے والا تھاجس نے معیشت کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ ترقی کرے اور اس کی ترقی زمین پر دکھائی دے۔ آگے بڑھنے سے قبل بتادیں کہ ہوسبولے ہی ممکنہ طور پر آئندہ سرسنگھ چالک ہونگے۔   کیا ہوسبولے کی تنقید اس بات کا اشارہ ہے کہ آر ایس ایس، بی جے پی کی معاشی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اُس پر پہلے کیوں کوئی تنبیہ نہیں ہوئی؟ جو کچھ ہوا وہ راتوں رات نہیں ہوا۔ آر ایس ایس کو سرپرست ہونے کے ناطے حکمراں جماعت پر اُسی وقت گرفت کرنی چاہئے تھی جب نوٹ بندی ہوئی تھی؟ ہم یہ مان سکتے ہیں کہ بہت سے مرکزی وزراء کو بھی اِس اقدام کی خبر نہیں تھی مگر ہم یہ نہیں مان سکتے کہ اس معاملے میں آر ایس ایس کو بھی تاریکی میں رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد جی ایس ٹی کے عاجلانہ نفاذ کے سلسلے میں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کو اس پر کوئی اعتراض تھا یا نہیں تھا؟  دیکھنا ہے کہ حکومت ہوسبولے کی تنقید کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے علاوہ اِن دنوں روپے کی قدر بھی سرخیوں میں ہے۔ اس سے پہلے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کبھی ۸۰؍ کے پار نہیں ہوا تھا۔ اگر اس کیلئے کئی خارجی محرکات ذمہ دار ہیں تو چند داخلی محرکات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خارجی محرکات پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوسکتا مگر داخلی محرکات پر مکمل قابو ہے۔ اگر ان سے نمٹ لیا جائے تو روپے کی قدر میں آنے والی گراوٹ کو پچاس فیصد تو بآسانی کنٹرول کیا جاسکتا ہے مگر روپیہ ہے کہ جتنا ناراض کل تھا آج اُس سے زیادہ ناراض ہے۔
 ایک اور بات۔ موجودہ حکومت نے ہمیشہ سپلائی کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے جبکہ سپلائی کو ڈیمانڈ کے بغیر مستحکم نہیں رکھا جاسکتا۔ دونوں طرف یکساں توجہ کی ضرورت تھی مگر ایسا نہ ہونے کے سبب ڈیمانڈ کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK