Inquilab Logo

لہجہ بجھا بجھا کیوں ہے؟

Updated: April 30, 2024, 1:27 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

نریندر مودی کے لہجہ کی عدم شگفتگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی نعرہ نہیں بچا ہے جس سے وہ ووٹ دینے والوں کو الجھا سکیں، جو نعرے تھے وہ سارے استعمال کر چکے ہیں، اب ان کے پاس رام کے نام کے علاوہ کوئی نعرہ نہیں ہے۔ ہندی کا ایک محاورہ ہے کہ رام کا نام رام سے زیادہ بڑا ہوتا ہے لیکن اس بار رام کا نام بھی بی جے پی یا مودی کو وہ فائدہ نہیں پہنچا رہا ہے جس کی وہ توقع کرتے تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

یہ کالم لکھے جاتے وقت ملک کے کچھ حصوں  میں  انتخاب کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اب تک پارلیمنٹ کی ۵۴۰ ؍سیٹوں  میں  سے ۱۹۰؍ سیٹوں  کے الیکشن ہوچکے ہیں ، یہ تمام سیٹیں  کسی ایک ریاست کی نہیں  ہیں ۔ ان میں ملک کے شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کے کئی صوبے بھی شامل ہیں ، ان ریاستوں  میں  کس پارٹی کو کتنی سیٹیں  ملی ہیں  یہ جاننا اور بتانا ہم صحافیوں  کا کام نہیں  ہے، اس کے لئے تو ملک بھر میں  پولنگ سے پہلے اور پولنگ کے بعد کا سروے کرنے والی کئی کمپنیاں  حاضر ہیں ، ان میں  سے کچھ ایسی ہیں  جو شوقیہ یہ کام کرتی ہیں  اور کچھ ایسی ہیں  جن کو ملک کی مختلف پارٹیاں  رقمیں   دیتی ہیں ، یعنی وہ پیشہ ور کمپنیاں ہوتی ہیں ، ہم تو صرف قیاس آرائیاں  ہی کر سکتے ہیں ، یوں  بھی انتخاب کا مکمل عمل ختم ہونے سے پہلے یہ قیاس آرائیاں  ٹھیک نہیں  معلوم ہوتیں  کیونکہ الیکشن کمیشن نے انتخاب سے پہلے قیاس آرائیوں  کو عوام کے سامنے لانےسے منع کر رکھا ہے، اس لئے ہم بھی ان قیاس آرائیوں  سے گریز کرتے ہیں  لیکن اس ضمن میں  کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں :
 جاری  الیکشن کا پہلا دور ختم ہونے کے بعد جس میں  ۱۰۲ ؍ سیٹوں  کے الیکشن ہوئے تھے، ہم نےوزیر اعظم نریندر مودی کا ایک لیکچر سنا۔ جہاں  تک ہمارا تعلق ہے یہ لیکچر بھی کسی انتخابی مہم ہی کا حصہ تھا۔ ہمیں  یہ تقریر سن کر خاصا اچنبھا ہوا، ہم ایک عرصہ سے ، بلکہ اب تو ماشاء اللہ دس سال سے ہم ان کی تقاریر سن رہے ہیں ، اس لئے نہیں  کہ یہ تقریریں  ہمارے کسی کام آ تی ہیں  بلکہ اس لئے کہ ہم صحافی ہیں  ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں  اچنبھے والی کون سی بات ہے۔ ہم اس تقریر کو سن کر اس لئے اچنبھے میں  پڑ گئے کہ یہ معلوم ہی نہیں  ہوتا تھا کہ یہ اسی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر تھی جو اپنے اونچے بول اور گرجتی آواز کی وجہ سے دور ہی سے پہچان لی جاتی تھی، اس تقریر میں  ان کا لہجہ بہت بجھا بجھا اور دھیما تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خدا نخوستہ ان کی طبیعت خراب ہے، شکر ہے کہ ایسا نہیں  تھا، وہ بالکل ٹھیک تھے،لیکن لہجے سے یہ بجھا بجھا انداز بتا رہا تھا کہ وہ شاید ان انتخابوں  سے مطمئن نہیں تھے۔  ہم نے سمجھا کہ یہ شاید ہماری غلط فہمی ہو ،لیکن اگلےہی روز انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے بھی یہ گواہی دی کہ اس الیکشن میں  بی جے پی کی وہ لہر نہیں  دکھائی دی اس کے باوجود  اب دوسرے دورکےبعد بھی عالمی میڈیا میں   مودی جی ۴۰۰ ؍سیٹیں  جیتنےوالی اپنی امنگیں  دے رہے ہیں ۔  
 نریندر مودی ایک زیرک اور چالاک سیاست داں  ہیں ، ان کو معلوم ہے کہ ان کی تقریر لوگوں  کے دلوں  میں  آگ لگا دیتی ہے، انہوں  نے دیکھا تھا کہ اس سے پہلے والے الیکشن میں  جب وہ کانگریس کی بد عنوانیوں  کا ذکر کرتے تھے تو ان کے جذبات بے قابوہوجاتے تھے، اور جب وہ یہ کہتے تھے کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو سوئٹزر لینڈ کے بینکوں  میں  ٹھپ وہ سارا کالا دھن ہندوستان واپس آجائے گا اور بھگوان رام کی کرپا سےہر ہندوستانی کے بینک اکائونٹ میں  پندرہ پندرہ لاکھ روپے جمع ہوجائیں  گے، یہ سن کر واقعی ہندوستان کے ہر شہری کو اچانک اپنی جیب گرم ہوتی محسوس ہوتی تھی، یہی نہیں  اس کے بعد کے الیکشن میں  جب وہ پلوامہ میں  ہندوستانی فوجیوں  کی شہادت کا ذکر کرتے تھے اور نوجوانوں  سے کہتے تھے کہ ان کا یہ پہلا ووٹ ان شہیدوں کے نام رہے، نوجوان خون وطن کے نام پر گرم ہوتا تھا، اس بار نہ جیبیں  گرم ہو رہی ہیں  اورنہ ہی نوجوانوں  کا خون گرم ہو رہا ہے ۔ کیا گرم ہو جیب کہ بے روزگاری  اور مہنگائی میں  اس ملک کے نوجوان ایسے گرفتار ہیں  کہ سانس لینے کی بھی فرصت نہیں  ملتی ۔ 
 نریندر مودی کے لہجہ کی عدم شگفتگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی نعرہ نہیں  بچا ہے جس سے وہ ووٹ دینے والوں  کو الجھا سکیں ، جو نعرے تھے وہ سارے استعمال کر چکے ہیں ، اب ان کے پاس رام کے نام کے علاوہ کوئی نعرہ نہیں   ہے۔ ہندی کا ایک محاورہ ہے کہ رام کا نام رام سے زیادہ بڑا ہوتا ہے لیکن اس بار رام کا نام بھی بی جے پی یا مودی کو وہ فائدہ نہیں  پہنچا رہا ہے جس کی وہ توقع کرتے تھے۔ اگر کسی ملک میں ایک بڑے حصہ کی کوئی ایسی خواہش پوری ہو جائے تو یہ ایک نیک عمل کہلاتا ہے۔ ایودھیاکا رام مندر اس کی ایک مثال ہے، لیکن یہ ایک مذہبی جذباتیت ہے سیاسست میں  اس کا عمل کم ہی ہورہا ہے اور اس کی بھی ایک بڑی وجہ ہے اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ نے بے روزگاری اور مہنگائی کی جو باگ ڈور کھینچی ہے اور اس کا کوئی توڑ مودی کو نہیں  مل پا رہا ہے۔ 
 دوسرے وعدوں  کی طرح سال بھر میں ایک کروڑ شہریوں  کو روزگار دلانے کا وعدہ بھی صرف نعرہ ہی ثابت ہواہے، جس کیلئے بقول نریندر مودی کوئی گارنٹی نہیں  ہے، لوگوں  کو روز گار دلانے کے بجائے نوجوانوں  کو ان کے لگے بندھے روز گار سے بھی محروم کردیا ہے، اس کے علاوہ مودی نے جو دوسری گارنٹیاں  دیں  ان کی حقیقت بھی سامنے آگئی ہے، وہ ہر بار ۳۷۰ ؍کا نعرہ لگاتے ہیں  ایک تو ملک کے ہر حصہ میں  اس کا کوئی اثر نہیں  ہوتا ہے۔ کشمیر کو بقول امیت شاہ ہندوستان کا حصہ بنا لیا ہے، حالانکہ وہ ہمیشہ سے ہندوستان کا حصہ تھا (اور آئندہ بھی رہے گا)، کشمیر امیت شاہ کیلئے ہندوستان کا حصہ بن تو گیا لیکن وہاں  آج تک انتخابات نہیں  ہو ئے ہیں ، کشمیر جو مرکزی اقتدار کے تحت تھا اب تک وہاں  کوئی الیکشن نہیں ہوا۔ اسی طرح تین بار کی طلاق کا ہی معاملہ لے لیجئے ۔ مودی اسے یہ کہہ کر عوام کے ہاتھوں  تالی بٹورنا چاہتے ہیں  کہ انہوں  نے مسلمانوں  اور خاص طور پر متاثرہ عورتوں  پر بڑا کرم کیا ہے، یہ معاملہ بھی ہندوستان میں  ہر جگہ کوئی اثر نہیں  رکھتا، سچ پوچھئےتو یہ سب سے بڑا معاملہ لے کر مودی کے پاس اپنے دس سالہ راج میں  کوئی مثال نہیں  ہے، جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ کام ہوا ہے کہ مودی نے اسے ممکن بنایا تھا۔ 
 راہل گاندھی نے ایک بات کہی ہے، کہ مودی کو اتنی ہی سیٹیں  جتنی ۲۰۱۹ء میں  ملی تھیں ، دووبارہ ملنا دشوار نہیں  ناممکن ہے۔ اگر ان صوبوں  میں  سیٹوں  کی تعداد گھٹی تو بات بگڑ جائے گی۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK