Inquilab Logo

کھلاڑیوں کیلئے نئے سال میں کیا ہے؟

Updated: January 03, 2024, 10:02 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

خاتون پہلوان پہلے دھرنے پر بیٹھی رہیں وہاں اُنہیں کوئی مرکزی وزیر تو کیا، سرکاری عہدیدار بھی ملنے نہیں آیا۔ اُنہوں نے اپنے احتجاج میں شدت پیدا کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

Female wrestler. Photo: INN
خاتون پہلوان۔ تصویر : آئی این این

خاتون پہلوان پہلے دھرنے پر بیٹھی رہیں وہاں اُنہیں کوئی مرکزی وزیر تو کیا، سرکاری عہدیدار بھی ملنے نہیں آیا۔ اُنہوں نے اپنے احتجاج میں شدت پیدا کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اُنہوں نے اپنے میڈل دریا بُرد کرنے کا فیصلہ کیا، کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، اُنہوں نے حالیہ دنوں میں چند بڑے فیصلے کئے مثلاً ونیش پھوگاٹ نے کھیل رتن اور ارجن ایوارڈ جیسے بڑے اعزازات لوٹادیئے مگر  اب بھی اُن کی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ یہ سب ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں نہ تو کھیل کود کا ذہن اور مزاج پروان چڑھ سکا ہے نہ ہی کھلاڑیوں کو بہتر انفراسٹرکچر فراہم کرنے میں کوئی بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ 
 حکومت نے جو اعلانات کئے اور سہولتیں فراہم کرنے کی بات کہی اُن سے ہم انکار نہیں کرتے مگر یہ اقدامات ضرورت اور تقاضوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں اونٹ کے منہ میں زیرے کی طرح۔ ہمارا ملک کھیل پریمی ہے مگر کرکٹ کی حد تک۔ کرکٹ کو اسپانسر بھی مل جاتے ہیں اور کرکٹ کھلاڑیوں کی کارکردگی اور کامیابی کو غیر معمولی پزیرائی بھی حاصل ہوتی ہے مگر دیگر کھیلوں کے معاملے میں ہم حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اکتوبر ۲۳ء میں گوا میں ۳۷؍ ویں نیشنل گیمس کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم مودی نے جو تقریر کی ہے اُس میں کئی دیگر باتوں کے علاوہ ایک اہم بات ۲۰۳۶ء کے اولمپک کھیلوں کی میزبانی کا خواہشمند ہونا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر موقع ملا تو ہم میزبانی میں کوئی کسر نہیں رکھیں گے اور جی ٹوئنٹی کی جس شاندار طریقے سے میزبانی کی گئی، اُس سے بھی بڑھ کر کچھ کرسکتے ہیں مگر اس سے اپنی سرزمین کے موجودہ اور مستقبل کے کھلاڑیوں کو کیا حاصل ہوجائیگا؟ کیا اُنہیں لازمی انفراسٹرکچر مل جائیگا؟ کیا مالی ضمانت حاصل ہوگی؟ کیا حوصلہ افزائی اور پزیرائی کا ماحول ملک میں پیدا ہوجائے گا؟ ہماری رائے میں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس لئے، موقع ملنے پر ہم اولمپک گیمس ۲۰۳۶ء کی میزبانی کا شرف تو ضرور حاصل کریں مگر اپنے کھلاڑیوں کیلئے ایسی فضا تیار کریں جس میں اُن کے مسائل، اُن کی شکایات، اُن کی تکالیف، اُن کی مالی پشت پناہی وغیرہ کا خاص خیال رکھا جاسکے۔اب تک ملک میں حوصلہ افزائی کی فضا کے بجائے حوصلہ شکنی کا ماحول رہا۔ جن کھلاڑیوں نے ہمارا سر فخر سے اونچا کیا ہم اگر اُن کی فریاد بھی نہیں سنیں گے تو آئندہ کے کھلاڑیوں کو کیا پیغام ملے گا؟
 یاد رہنا چاہئے کہ ہندوستان کی اوسط فی کس آمدنی کے مقابلے میں کینیا اور جمائیکا جیسے ملکوں کی اوسط فی کس آمدنی بہت کم ہے۔ جمائیکا ترقی پزیر ملکوں میں سب سے سست رفتار ہے مگر اسے اولمپکس میں جو برتری حاصل ہے اُسے اختصار کے ساتھ بھی بیان کرنا ہو تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمائیکا میں اسپورٹس کے مزاج کو تقویت دی گئی۔ اس رجحان کو مستحکم کیا گیا۔اس کے برخلاف ہم اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں۔ اس کوتاہی میں حکومتیں (موجودہ اور سابقہ) بھی شامل ہیں اور عوامی طبقات بھی۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ وطن عزیز کو میڈل دلانے والوں میں بڑی تعداد اُن کھلاڑیوں کی ہے جو غریب یا نچلے متوسط طبقے کے چشم و چراغ ہیں۔ انہیں سرپرستی، مالی فراغت، انصاف اور حوصلہ افزائی درکار ہے۔ یہ کوئی بے جا مطالبہ نہیں ہے جو پورا ہوجائے تو ہمارے کھلاڑی دُنیا جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK