Inquilab Logo

کیا رولٹ ایکٹ اور یو اے پی اے میں فرق ہے؟

Updated: December 17, 2023, 1:14 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

رولٹ ایکٹ ۱۹۱۹ء انگریزوں کو کسی بھی ہندوستانی کو جرم کے بغیر گرفتار کرنے کی آزادی دیتا تھا۔ ہماری حکومت کا بھی ایسا ہی ایک قانون ہے جسے ’یو اے پی اے‘ کہتے ہیں ۔

Protest against UAPA. Photo: INN
یواے پی اے کے خلاف احتجاج۔تصویر :آئی این این

ہمارے ملک میں  گئو کشی مذہبی نہیں  معاشی جرم ہےکیونکہ اس معاملے میں  آئین کے ڈائریکٹیو پرنسپل میں  کہا گیا ہے کہ مویشی ملک کی معاشی ضرورت ہیں ۔ قانون ساز اسمبلی میں  جو مباحثے ہوئے تھے ان میں  اس بات پر خاصا زور صرف کیا گیا تھا کہ ہماری آبادی کا معتدبہ حصہ اس لئے تغذیہ کی کمی کا شکار ہے کہ ملک کے بچوں  کو مناسب مقدار میں  دودھ نہیں  ملتا۔ اس صورتِ حال کو بدلنے کیلئے ضروری ہے کہ گائے کا تحفظ ہو اور اس کے ذبیحہ پر پابندی لگے۔ اس سلسلے میں  دنیا کے کسی ملک کی مثال پیش نہیں  کی گئی کیونکہ کوئی مثال ہے ہی نہیں ۔ جن سنگھ نے اپنے ابتدائی دور کے انتخابی منشور میں  ٹریکٹروں  کے استعمال کی مخالفت کی تھی کیونکہ ’’اس کی وجہ سے ہمارے مویشی کسی کام کے نہ رہ جائیں  گے۔‘‘ لیکن اب یہ منظرنامہ بدل چکا ہے۔ اب ہمارے ملک میں  دودھ کی بالکل بھی قلت نہیں  ہے بلکہ ہم دودھ برآمد کرنے لگے ہیں ۔ کھیتوں  میں  بیلوں  کی جگہ ٹریکٹر کا استعمال شروع ہوئے بھی زمانہ ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود مویشیوں  کے ذبیحہ پرجو پابندی کل تھی آج بھی برقرار ہے بلکہ وقت کے ساتھ ا س پابندی کو مزید سخت کردیا گیا ہے۔ 
 گجرات میں  بڑا جانور ذبح کرنے پر عمر قید کی سزا ہے۔ کسی بھی معاشی جرم پر اتنی سزا نہیں  ہے جتنی کہ بڑا جانور ذبح کرنے پر ہے۔ (جہاں  تک مذہبی جذبات کا معاملہ ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں  مگر یہاں  بحث معاشی جرم کی ہے جس کی صراحت مضمون نگار نے ابتداء میں  کی ہے: ادارہ)۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جرم ثابت کرنے کی ذمہ داری نفاذ قانون کی ایجنسیوں  پر نہیں  رہ گئی ہے بلکہ ملزم پر ڈال دی گئی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں  ایک گجراتی مسلمان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُس نے بیٹی کی شادی میں  مہمانوں کی خاطرتواضع کیلئے بڑا جانور ذبح کیا ہے۔ پولیس نے عدالت سے کہا کہ اس کے پاس ثبوت نہیں  ہے کہ ایسا واقعہ ہوا ہے۔ فورینسک لیباریٹری نے بھی یہی کہا۔ اس کے باوجود فاضل جج نے اُس ملزم کو دس سال کی قید کی سزا سنائی یہ کہتے ہوئے کہ اُسے اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہئے تھی جو وہ نہیں  کرسکا۔ گجرات ہائی کورٹ نے ملزم کو سنائی گئی سزا کو خارج کردیا اور اسے عدالتی اختیار قرار دیا۔ ہائی کورٹ کو ایسا اس لئے کہنا پڑا کہ ہمارے قوانین میں  ایسے اسقام پائے جاتے ہیں ۔ اب آپ اس کیس کو دونوں  طرح سے موضوع بحث بناسکتے ہیں ۔ 
 نچلی عدالت کے جج نے کچھ غلط نہیں کیا کیونکہ قانون میں  اس کی گنجائش موجود ہے اور اعلیٰ عدالت نے ملزم کی سزا خارج کردی کیونکہ اگر سزا دی جاتی تو وہ فطری انصاف کے خلاف ہوتی۔ آج کل حالات کچھ اس قسم کے ہوگئے ہیں  کہ اگر آپ عقلی دلائل کے ساتھ گفتگو کرنا چاہیں  تب بھی اس کا موقع نہیں  کیونکہ لوگ الزام عائد کردیتے ہیں  کہ اس بات چیت سے سلامتی کو خطرہ ہے؟ کوئی ان سے پوچھے کہ کس کی سلامتی؟ اور کیسا خطرہ؟ تو اس کا جواب نہیں  ہے مگر کسی کو جیل میں  ڈلوانے کیلئےیہ الزام اپنے آپ میں  کافی ہے ۔ ممکن ہے کہ ملزم کو کئی سال جیل میں  سڑنا پڑے۔
 ۱۹۱۹ء میں  گاندھی جی نے رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا نعرہ دیا تھا۔ اس نعرے پر لبیک کہتے ہوئے امرتسر میں  بھیڑ اکٹھا ہوگئی جسے جلیان والا باغ تک جانا تھا۔ پنجاب کے گورنر مائیکل او ڈائر نے دعویٰ کرتے ہوئے کہ برطانوی قانون کو خطر لاحق ہے، فائرنگ کا سہارا لیا، گورکھا اور بلوچ رجمنٹ نے وہاں  جمع ہندوستانیوں  کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے یں  ۳۰۰؍ افراد شہید ہوئے۔ 
 انگریزوں  نے رولٹ ایکٹ کو امپیریل لیجسلیٹو کونسل کے تمام ہندوستانی اراکین کی مخالفت کے باوجود پاس کیا۔ انگریزوں  نے دعویٰ کیا کہ اس قانون سے بہت ہی کم ہندوستانی متاثر ہوں  گے۔ تاہم، گاندھی جی نے اس قانون ’’قوم کی توہین‘‘ قرار دیا۔ رولٹ ایکٹ (اسے ’’انارکیکل اینڈ ریوولیوشنری کرائمز ایکٹ ۱۹۱۹ء‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا) میں  ایسا کیا تھا جو توہین آمیز تھا؟ ہندوستانی اس سے اتنے برہم کیوں  تھے کہ وہ عوامی مظاہرے کر رہے تھے اور کونسل میں  اس کی مخالفت کر رہے تھے؟
 ایکٹ نے قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصولوں کو ختم کر دیا تھا۔ یہ لوگوں  کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے حراست میں لے سکتا تھا اور اس نے ججوں  کے ذریعے کیمرہ ٹرائلز کے حق میں  جیوری ٹرائلز کو ختم کر دیا۔ اسے انتظامی حراست کہا جاتا ہے، یعنی کسی کو جرم کے بغیر جیل میں  ڈالنا، محض اس شبہ پر کہ وہ مستقبل میں  کوئی جرم کرے گا۔ جو غصہ انگریزوں  کی طرف سے ہمارے حقوق کو پامال کرنے پر آیا تھا، وہ غصہ اب ہماری اپنی حکومت کے زیر انتظام جاری جبر پر نہیں  نظر آتا، یہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
 یو اے پی اے، جس کے تحت بہت سے ہندوستانیوں  پر الزام لگایا گیا ہے اور وہ جیل میں  ہیں ، `’’دہشت گرد‘‘ یا ’’دہشت گردی‘‘ کی وضاحت نہیں کرتا ہے۔ قانون (قارئین اس کا تازہ ترین ورژن پڑھ لیں ) اتنا وسیع ہے کہ ہندوستانیوں کی بڑی تعداد کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ بہت ڈھیلے طریقے سے وضع کیا گیا ہے۔ اس کی مخالفت ہم سب کو کرنی ہے۔
 ۲۲؍ سال کی عمر میں  بھگت سنگھ ہندوستان میں  ایک مشہور قومی شخصیت بن گئے۔ اپنی بغاوت کے عمل میں  انہوں  نے صرف بم سے دھواں  پیدا کیا تھا۔ انہیں  دشمن کو نقصان پہنچانے کی خواہش نہیں  تھی۔ اور ان کی اپنے آپ کو واضح طور پر ظاہر کرنے کی صلاحیت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میڈیا اور عوام دونوں  ان کی طرف متوجہ تھے۔
 وہ کون سا قانون تھا جس کی وہ مخالفت کر رہے تھے؟ بھگت سنگھ نے پبلک سیفٹی بل کی مخالفت کیلئے دھوئیں  کے بم پھینکے تھے۔ اس قانون نے حکومت کو بغیر کسی مقدمے کے لوگوں  کو جیل بھیجنے کی اجازت دی تھی، بالکل یو اے پی اے کی طرح۔ 
 بھگت سنگھ اس کی مخالفت کرنے میں  حق بجانب تھے۔ انہوں  نے جس انداز میں  مخالفت کی اس میں  بھی وہ حق بجانب تھے۔ ہم انہیں  شہید کہتے ہیں کیونکہ انہیں  اس کی سزا ملی جو انہوں  نے ہم جیسے کروڑوں  ہندوستانیوں  کیلئے کیا۔ ہم اُن نوجوانوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں  جنہوں  نے بالکل وہی کیا جو بھگت سنگھ نے کیا تھا۔ اور ان کے پاس وجوہات بھی وہی تھیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK