Inquilab Logo

وزیراعظم مودی کے جنوبی ہند کے مسلسل دوروں کے پیچھے کی کہانی کیا ہے؟

Updated: March 17, 2024, 1:29 PM IST | Arti Jareth | Mumbai

جنوبی ہند پر قبضےکی وجہ صرف سیاسی نہیں معاشی بھی ہے، وہاں بھلے ہی ملک کی صرف۲۰؍ فیصد آبادی رہتی ہے، لیکن گزشتہ ۳؍برسوں میں ملک میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں جنوبی ہند کی حصے داری ۳۵؍ فیصد ہے۔

Prime Minister Narendra Modi. Photo: INN
وزیر اعظم نریندر مودی۔ تصویر : آئی این این

ابھی تک جنوبی ریاستوں میں کرناٹک ہی ایک واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کو برتری حاصل رہی ہے۔ بی ایس یدی یورپا کی قیادت میں پارٹی وہاں دو بار اقتدار میں آئی لیکن دیگر چار ریاستوں میں بی جے پی معمولی پکڑ ہی بنا سکی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ اُن ریاستوں میں اپنی بنیاد بھی کھوتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر۲۰۱۹ء میں بی جے پی کو تمل ناڈو میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی جبکہ۲۰۱۴ء میں اس نے وہاں کم از کم ایک سیٹ جیتی تھی۔ پچھلے سال بی جے پی جنوب میں ۲؍ اسمبلی انتخابات ہار گئی تھی، جس کے بعد ملک کی سیاست میں شمال، جنوب کی تقسیم کی بحث زور پکڑ گئی۔ بی جے پی اپنے گڑھ کرناٹک میں بری طرح ہارگئی جبکہ تلنگانہ میں بھی اس کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی۔ ایسے میں سوال یہ ہوتاہے کہ بی جے پی اگر ۳۷۰؍ سیٹیں جیتنے کی بات کررہی ہے تووہ یہ سیٹیں کہاں سے حاصل کرے گی؟ شمالی ہندمیں جتنی سیٹیں اسے ۲۰۱۹ء میں مل گئی تھیں، اسے زیادہ ملنے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ ایسے میں اس کی نگاہیں جنوبی ہند کی انہیں ۵؍ ریاستوں پر مرکوز ہیں جہاں لوک سبھا کی مجموعی طور پر ۱۳۰؍ سیٹیں ہیں لیکن فی الحال اس کی دال یہاں پر گلتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ 
 اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ کانگریس نے دونوں ریاستوں میں کامیابی حاصل کی اور اس خطے میں غیر متوقع واپسی کی جو کبھی اس کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے رہے تھے۔ یاد رہے کہ ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابات میں اندرا گاندھی کی کانگریس کا شمالی ہندوستان میں صفایا ہو گیا تھا جبکہ اسی دوران اس نے جنوبی ہند میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ 
 ان دنوں وزیراعظم نریندرمودی جنوبی ہندوستان پرخوب زور دے رہے ہیں اور وہاں کے مسلسل دورے کررہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ملک گیر لیڈر کے طور پر پہچانے جانے کے اپنے عزائم کی تکمیل کے ساتھ ہی بی جے پی کے قومی غلبہ پر مہر لگانا چاہتے ہیں۔ مودی کا نام ہندی پٹی میں تو مقبول ہے لیکن ملک کے جنوبی حصے میں ان کی اپیل پر اُس طرح توجہ نہیں دی جاتی۔ وہ جانتے ہیں کہ جنوب کو فتح کئے بغیر نہرو کی وراثت کو جدید ہندوستانی تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکتا، لیکن اس کے پیچھے کچھ معاشی وجوہات بھی ہیں۔ دراصل جنوبی ہندوستان کا زیادہ متمول اور شہری حصہ ہے۔ اگرچہ ملک کی صرف۲۰؍ فیصد آبادی وہاں رہتی ہے، لیکن گزشتہ ۳؍برسوں میں ہندوستان میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں اس کی حصے داری ۳۵؍ فیصد ہے۔ 
 جنوب میں ’اسٹارٹ اپس‘ کا نیا ہندوستان ہے۔ وہاں پر یونیورسٹی کے بڑے کیمپس اور چمکتی ہوئی فیکٹریاں دکھائی دیتی ہیں۔ چونکہ عالمی کمپنیاں چین سے اپنی سرمایہ کاری کو منتقل کرنے کیلئے نئے ملک اور نئے شہروں کی تلاش میں ہیں، ایسے میں جنوبی ہندوستان ان کی ترجیحی منزلوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح ہندوستان کی الیکٹرانکس برآمدات کا۴۶؍ فیصد جنوب سے آتا ہے۔ ۴۶؍ فیصد ’ٹیک یونی کارن‘ بھی وہیں موجود ہے۔ ۶۶؍ فیصد آئی ٹی صنعت کی برآمدات ۵؍ جنوبی ریاستوں سے آتی ہیں اور۷۹؍ فیصد عالمی سطح کےآڈیٹرز، ڈیزائنرز، آرکیٹیکٹس اور دیگر پیشہ ور افراد کے مراکز بھی وہیں ہیں۔ قومی سطح پر دیکھیں تو ملازمتوں میں اضافہ بھی صرف جنوبی ہندوستان ہی میں ہو رہا ہے۔ 
 اگر مودی آئندہ تین برسوں میں ہندوستان کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے اور اسے۲۰۴۷ء تک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں جنوب میں اپنی سیاسی طاقت کو مستحکم کرنا ہوگا اور اسے اپنے طویل المدتی اقتصادی منصوبوں میں شامل کرنا ہوگا، لیکن ان کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ جن باتوں اور جن موضوعات پر شمالی ہند میں ووٹ ملتے ہیں، ان باتوں اور ان موضوعات پر جنوبی ہند میں ووٹ نہیں مل سکتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK