Inquilab Logo

جب اللہ نے آپؐ کو قریش کی سازش سےباخبرکیا اورحکم دیا کہ آج رات اپنےبسترپرنہ سوئیں

Updated: January 22, 2021, 11:41 AM IST | Maolana Nadeem ul Wajidi

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں آج پڑھئے کہ کس طرح آپؐ ہجرت کے حکم کا انتظار فرما رہے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓیہ چاہتے تھے کہ حکم نازل ہو تو آپ کو رفاقت ِ سفر کا شرف حاصل ہو۔ اُدھر قریش مکہ آپؐ کے خلاف میٹنگ کررہے تھے تاکہ کوئی منصوبہ بندی کی جائے۔ بہرحال حکم نازل ہوا اور آپؐ نے سفر ہجرت کی تیاری شروع کی۔ اس کیلئے کیسی رازداری برتی گئی اس کا احوال بھی پڑھئے اور یہ بھی کہ حضرت اسماءؓ کو ذوالنطاقین کیوں کہا جاتا ہے

Makkah Sharif - Pic : INN
مکہ شریف ۔ تصویر : آئی این این

 اب مکہ مکرمہ میں صرف تین افراد باقی رہ گئے تھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علی ابن ابی طالبؓ۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور اجازت کا انتظار تھا کہ ایک دن قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی : 
 ’’اور آپ دعا کیجئے کہ اے میرے رب مجھ کو خوبی کے ساتھ پہنچا اور مجھ کو خوبی کے ساتھ نکال اور مجھ کو اپنے پاس سے ایسا غلبہ دے جس کے ساتھ نصرت ہو۔‘‘ (بنی اسرائیل:۸۰) 
 یہ آیت گویا اذن سفر تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کئی مرتبہ ہجرت کی اجازت مانگ چکے تھے، آپؐ انہیں ہر مرتبہ یہ فرما کر ہجرت کرنے سے روک دیتے تھے کہ جلدی نہ کرو، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اس سفر میں کسی کو تمہارا رفیق بنادے۔ یہ جواب سننے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی تمنا یہ ہوتی تھی کہ کاش میں آپؐ  ہی کا رفیق سفر بن جائوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ابوبکرؓ مدینے جانے کی تیاری کئے بیٹھے تھے، بس اجازت کا انتظار تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ہجرت کرنے میں جلدی نہ کرو، مجھے اجازت ملنے کی امید ہے۔ ابوبکرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا آپؐ  کو بھی اجازت ملنے والی ہے، فرمایا: ہاں! یہ سن کر ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے خیال سے خود کو ہجرت کرنے سے روکے رکھا۔
 (مسند احمد بن حنبل ۶؍۱۹۸)
 اجازت مل گئی تو آپؐ نے سب سے پہلے یہ مژدہ حضرت ابوبکرؓ کو ہی سنایا۔ ایک دن دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر تشریف لے گئے اور انہیںیہ خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے دو اونٹنیاں پیش کیں کہ میںنے اسی مقصد کے لئے انہیں تیارکیا ہے،  ان میں سے ایک آپؐ لے لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں قیمت دے کر لوں گا۔ (صحیح البخاری ۱؍۱۲۸، مسند احمد بن حنبل ۶؍۱۹۸)
دارالندوہ میں قریش کا اجتماع
 قریش مکہ مسلمانوں کی اس اجتماعی ہجرت سے سخت پریشان تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس نئی صورتِ حال میں کیا کریں، اس نئے دین کے بڑھتے ہوئے خطرات سے کس طرح نمٹیں، مسلمانوں کی بڑی تعداد مکے سے جا چکی ہے، باہر بھی ان کے کافی ہم نوا اور ہم خیال موجود ہیں، یہ سب لوگ اگر یک جا ہوگئے تو ایک بڑی طاقت بن کر ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں اور ہم سے ہمارا وطن چھین سکتے ہیں اور ہم پر غالب آسکتے ہیں۔ مستقبل کے اندیشوں نے مشرکین کی نیندیں حرام کردی تھیں، طے پایا کہ سب لوگ دارالندوہ میںجمع ہوجائیں۔ عام طور پر قریش کے لوگ اہم امور میں مشاورت کے لئے قصی بن کلاب کے گھر میں جمع ہوا کرتے تھے جس کو’’ دارالندوہ‘‘ کہا جاتا تھا، اس اجتماع کا واحد ایجنڈا یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں روک کر رکھیں یا انہیں اپنے ساتھیوں کے پاس جانے دیں۔
 قریش کے لئے اس اجتماع کی بڑی اہمیت تھی، یہی وجہ ہے کہ تمام اعیان قریش اس مشورے میںشریک رہے، ابلیس بھی ایک خوش شکل اور خوش لباس بوڑھے کی صورت اختیار کرکے دارالندوہ کے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا، لوگوں نے ایک اجنبی بوڑھے کو وہاں دیکھا تو اس سے پوچھا کہ بڑے میاں! آپ کون ہیں اور یہاں کس غرض سے تشریف لائے ہیں؟ ابلیس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آج تم محمد کے متعلق کوئی اہم مشورہ کرنے والے ہو، میں نجد سے آیا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم کیا طے کرتے ہو، ہوسکتا ہے میں بھی خیرخواہی کے طور پر کوئی رائے جو میری سمجھ میں آتی ہو پیش کردوں۔
  لوگوں نے کہا:  اہلاً و سہلاً، تشریف لائیں، اس طرح ابلیس بھی اجتماع کا حصہ بن گیا، اس دن کو اس کی اہمیت کے پیش نظر یوم الزحمۃ (یوم مزاحمت) کہا گیا ہے۔ یہ اجتماع جو بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کیا گیا تھا اور جسے قریش اپنے مستقبل کیلئے فیصلہ کن سمجھ رہے تھے شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں بہت سی آراء سامنے آئیں۔ ایک شخص نے کہا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ ان کو مکے ہی میں محبوس رکھا جائے اور ان کے ہاتھ پائوں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال دی جائیں تاکہ یہ راہِ فرار اختیار نہ کرسکیں۔ بوڑھے نجدی نے کہا یہ رائے تو مناسب معلوم نہیں ہوتی، بھلا تم محمد کو کب تک قیدمیںرکھو گے، ویسے بھی جب ان کے ماننے والوں کو یہ خبر ملے گی کہ تم نے ان کے قائد کو قید کردیا ہے وہ اکٹھے ہو کر آئیںگے اور پوری قوت سے تم پر حملہ آور ہوں گے، عین ممکن ہے کہ وہ انہیں ہمارے ہاتھوں سے چھین کر لے جائیں، اس چھینا جھپٹی میں تمہارے لوگوں کی جانیںبھی ضائع ہوںگی اور محمد بھی تمہارے ہاتھوںسے نکل جائیںگے، اس خیال کو تو رہنے دو، کوئی اور تجویز پیش کرو۔
 ایک اور شخص نے کھڑے ہو کر یہ تجویز رکھی کہ ان کو یہاں سے نکال دو، جلا وطن کردو، ہماری بلا سے وہ کہیں بھی جائیں، کسی بھی جگہ جا کر رہیں، جب وہ یہاں سے چلے جائیں گے تو ہمارا ان سے کوئی واسطہ بھی باقی نہیں رہے گا، ہم پہلے کی طرح شیر و شکر ہو کر پیار محبت سے رہیں گے۔ یہ سن کر  بڑے میاں نے اپنا سر پیٹ لیا، کہنے لگے: تم کس غلط فہمی میں مبتلا ہو، کیا وہ یہاں سے نکل کر سکون سے بیٹھ جائیں گے، وہ جہاں بھی جائیگے اپنی شیریں کلامی اور خوش اخلاقی سے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیںگے، پھرانہیں لے کر تم پر چڑھائی کردیں گے اور تمہیں یہاں سے نکال کر خود قابض ہوجائیں گے، یہ رائے بھی ٹھیک نہیں ہے، کچھ اور سوچو۔
 ابلیس ہر تجویز کی مخالفت کرتارہا، جب قوم کسی ایک تجویز پر متفق ہوتی نظر نہیں آئی تو آخر میں ابوجہل نے کہا کہ میرے ذہن میںایک تجویز ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم قریش کے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک مضبوط شخص کا انتخاب کریں اور ان سب کو ایک ایک تلوار دےدیں، تمام لوگ بہ یک وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوں اور (نعوذ باللہ) ان کو قتل کردیں، اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ محمد کے قتل کی ذمہ داری کسی ایک قبیلے پر نہیں آئے گی، ان کے خاندان والے کس کس سے بدلہ لیں گے، اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ خوں بہا دینا پڑا تو اس کی رقم تمام قبیلوں پر تقسیم ہوجائے گی۔ یہ تجویز سن کر ابلیس خوشی سے اچھل پڑا اور ابوجہل کی ستائش کرتے ہوئے کہنے لگا: واہ جوان! تم نے تو کمال ہی کردیا، تمہاری رائے بالکل صحیح ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس سے بہتر تجویز کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔ بس اس پر اتفاق کرلو اور عمل کے لئے تیار ہوجائو۔ اس طرح قریش کے تمام سربرآوردہ لوگ ابوجہل کی رائے پر متفق ہوگئے۔
 مگر، اسی دوران میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی سازش سے باخبر کردیا اور حکم دیاکہ آج کی رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں۔ (کتاب الوفاء لابن الجوزی، ص: ۲۳۱، زاد المعاد ۳؍۳۷، سیرت ابن ہشام ۱؍۳۵۰، ۳۵۱)
سفر ہجرت کی تیاری
 اس کے بعد سفر کی تیاری کا آغاز ہوا، یہ سفر تمام اسفار سے بہت مختلف تھا۔ ان لوگوں کو مکہ سے اس طرح نکلنا تھا کہ دشمنوں کو اس کی بھنک بھی نہ لگے۔ راز داری کا یہ عالم تھا کہ اس سفر کی خبر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علیؓ اور ان کے گھر والوں کے علاوہ کسی کو نہ تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے راستے کی رہنمائی کے لئے ایک تجربہ کار اور حجاز کے راستوں سے واقفیت رکھنے والے شخص عبداللہ بن اریقط قریشی کو اجرت پر ساتھ لے لیا اور اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے سپرد کرتے ہوئے اس سے کہا کہ وہ تین روز کے بعد ان اونٹنیوں کو لے کر غار ثور کے قریب آجائے، اپنے بیٹے عبداللہؓ سے فرمایا کہ وہ دن بھر اِدھر اُدھر گھوم پھر کر یہ پتہ لگاتے رہیں کہ قریش کے لوگ ہمارے خلاف کیا منصوبے بنا رہے ہیں اور یہاں رہ جانے والوں کے خلاف ان کے عزائم کیا ہیں، جو بھی خبر ملے شام کو جب اندھیرا چھا جائے ان کے پاس غار میںآجائیں اور انہیں بتلائیں۔ اپنے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہؓ کو حکم دیا کہ وہ دن میں بکریاں چرانے کے بعد شام کو انہیں لے کر غار پرآجائیں تاکہ تازہ دودھ حاصل کیا جاسکے، چنانچہ وہ شام کے وقت بکریوں کو ہانکتے ہوئے اُدھر لے آتے اور عبداللہ بن ابی بکرؓ کی واپسی کے بعد بکریوں کو لے کر اسی راستے سے واپس چلے جاتے جس راستے سے عبداللہ آتے تھے تاکہ بکریوں کے چلنے سے ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ ہر روز رات کے وقت کھانا پہنچایا کرتی تھیں۔ (السیرۃ النبویۃ ابن ہشام ۱؍۳۵۵)
 حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں حضرات کا سامانِ سفر تیار کیا اور اسے ایک تھیلے میں رکھا، اسماء بنت ابی بکرؓ نے اپنا پٹکا کھولا اور اس کے دو ٹکڑے کئے، ایک ٹکڑے سے اس تھیلے کو باندھ دیا اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ بندکردیا۔
 یاد رہے کہ اسی لئے حضرت اسماء کا نام ’’ذات النطاقین‘‘(دو پٹکوں والی) پڑ گیا۔ (صحیح البخاری ۷؍۱۸۳، ۱۸۴)۔ حضرت اسماء جن کی عمر اس وقت ستائیس برس تھی رات کے وقت غار میں کھانا بھی پہنچایا کرتی تھیں۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ۴؍۳۴۵) 
دوسری طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ ابن ابی طالب سے فرمایا کہ تم ہم لوگوں کے جانے کے بعد کچھ روز مکہ ہی میں رہو گے، میرے پاس لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں ان کو واپس کرکے ہمارے پاس آجانا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مکے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی، دوسری طرف وہ آپ کو صادق و امین بھی سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی قیمتی چیزیں بہ طور امانت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے۔ ان حالات میں بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کی مخالفت اپنے عروج پر تھی اور یہ خبر بھی عام ہوچکی تھی کہ آپ مکہ چھوڑ کر یثرب جانے والے ہیں، لوگوں نے اپنی امانتیں واپس لینے کی کوشش نہیں کی کیوںکہ انہیں یقین تھا کہ ان کا سامان محفوظ ہاتھوں میں ہے اور وہ کسی بھی حالت میں ضائع ہونے والا نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK