اردو ادب میں طنز و مزاح کبھی شجر سایہ دار تھا لیکن اب اس کی شاخیں مرجھارہی ہیں کیوں کہ اس کی آبیاری کرنے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 30, 2025, 1:29 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
اردو ادب میں طنز و مزاح کبھی شجر سایہ دار تھا لیکن اب اس کی شاخیں مرجھارہی ہیں کیوں کہ اس کی آبیاری کرنے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔
اردو ادب میں طنز و مزاح کبھی زبان کی لطافت اور ذہن کی شائستگی کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ رنگ تھا جس نے نہ صرف لاکھوں قارئین کو محظوظ کیا بلکہ سماجی شعور کو بھی جھنجھوڑا۔ پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، مشتاق احمد یوسفی، کنہیا لال کپور اور مجتبیٰ حسین نے طنز و مزاح کو ایک ایسی سطح پر پہنچایا جہاں قہقہے میں فکر کی گونج سنائی دیتی تھی مگر آج سوال یہ ہے کہ وہ معیار، وہ تہذیب، وہ نکتہ سنجی اب کیوں ناپید ہو گئی ہے؟ اردو کا طنز و مزاح اب کمزور، سطحی اور اکثر بودا کیوں محسوس ہوتا ہے؟
جب مزاح لطیفہ نہیں بلکہ فلسفہ ہوتا تھا
پطرس بخاری کے مشہور مضمون کتے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو’’کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آکر ’طرح‘ کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتےنے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہواکہ کچھ نہ پوچھیے۔‘‘یہ طنز و مزاح کی وہ مثال ہے جہاں ہنسی میں حقیقت کی تلخی چھپی ہوئی ہے۔ پطرس بخاری نے کتوں کے ذریعے نہ صرف شہری زندگی کی بے ترتیبی بیان کی بلکہ انسانی رویوں کا آئینہ بھی دکھایا۔ آج اردو ادب میں ایسا لکھنے والے ناپید ہو گئے ہیں ۔معاشرے کی پیچیدگیوں کو اس لطافت سے بیان کرنا کہ وہ طنز و مزاح میں ڈھل جائے ہنسی کھیل نہیں ہے اور اب ایسا لکھنے والے ہیں ہی نہیں۔
ادبی ذوق کا زوال اور قاری کا فرار
رشید احمد صدیقی نےلکھا تھاکہ ’’چارپائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم اسی پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسہ، آفس، جیل خانے، کونسل یاآخرت کا راستہ لیتے ہیں۔ چارپائی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم اس پردوا کھاتے ہیں۔ دعا اور بھیک بھی مانگتے ہیں۔ کبھی فکر سخن کرتے ہیں اور کبھی فکر قوم، اکثر فاقہ کرنےسے بھی باز نہیں آتے۔‘‘آج چار پائی کو ہدف بناکر پورا فلسفہ بیان کردینے والے قلمکار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ہماری فکری سطح طنز و مزاح کے معاملے میں بلند نہیں ہو رہی ہے۔ اصل میں جب قاری کی دلچسپی چند سطری جگت یا صرف’ میم‘ تک محدود ہو جائے تو ادیب کیوں کر یوسفی کی طرح ’زرگزشت‘ جیسا ضخیم اور فکری مزاح لکھے؟ آج مزاح یا تو ’’ون لائنر‘‘ میں محدود ہے یا اسٹیج شو میں، جہاں قہقہے بکھرتے ہیں لیکن ذہن خالی رہتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے مزاح کو ’شیریں زہر‘ کہا تھا، جس کا مقصد محض ہنسانا نہیں بلکہ جگانا بھی ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’طنز وہ آئینہ ہے جس میں ہر شخص دوسرے کا چہرہ دیکھتا ہے۔‘‘لیکن آج اس آئینے میں محض دھند ہے۔ سوشل میڈیا اور اسٹیج کے مزاح نے مزاح کو تمسخر اور تضحیک میں بدل دیا ہے۔ مزاح کا وہ فنی توازن بگڑ گیا ہے جو کبھی یوسفی یا پطرس کے قلم کا خاصہ تھا۔
مزاح اور سماج کی بدلتی شکل
مجتبیٰ حسین جو اردو طنز و مزاح کے آخری بڑے ستون مانے جاتے ہیں، نے اپنی کتاب آدمی نامہ میں کہیں لکھا ہے کہ ’’ہمارے ملک میں آدمی ہونا بھی ایک فن ہے اور ہم اس فن میں اکثر ناکام رہتے ہیں۔‘‘یہ جملہ آج بھی اتنا ہی سچ ہے جتنا تب تھا۔ مگر آج کے ادیب ایسے جملے نہیں لکھتے کیونکہ آج کا قاری ان میں چھپی تلخی اور فکری گہرائی سے کتراتا ہے۔ یوسفی اور مجتبیٰ کا مزاح ’فکر کے ریشم میں لپٹا ہوا لطیفہ‘ تھا اور آج کا مزاح زیادہ تر ’قہقہوں کا شور‘ بن چکا ہے۔کیا طنز و مزاح کا دورِ ثانی ممکن ہے؟یہ کہنا کہ اردو کا طنز و مزاح مر گیا ہے، شاید درست نہ ہو لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’ماحول‘ ختم ہو رہا ہے جس میں ایسا ادب پروان چڑھتا تھا۔ آج اگر کوئی پطرس یا یوسفی جیسا لکھنے والا موجود بھی ہو تو کیا اُس کا قاری بھی موجود ہے؟ اردو کا طنز و مزاح اب بھی زندہ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ہم محض ہنسنے کی نہیں، سوچنے کی کوشش کریں۔ طنز وہ آئینہ ہے جو ہمیں خود کا چہرہ دکھاتا ہے — بشرطیکہ ہم دیکھنے کی جرأت کریں۔مزاح کو محض تفریح طبع نہ سمجھیں۔ وہ ایک مزاحیہ چاقو ہے جو اندر کا زنگ کاٹتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پطرس بخاری، مشتاق احمد یوسفی، رشید احمد صدیقی اور مجتبیٰ حسین جیسے مزاح نگاروں کو پڑھیں، سمجھیں اور نئی نسل کو یہ ورثہ منتقل کریں۔اگر اردو طنز و مزاح کو زندہ رکھنا ہے، تو ہمیں صرف لکھنے والے نہیں، سمجھنے والے بھی پیدا کرنے ہوں گے۔ کتابوں سے دوستی، مطالعے کی عادت اور فکری ادب کی تربیت وہ عوامل ہیں جو اس صنف کے تن مردہ میں دوبارہ جان ڈال سکتے ہیں۔