دونوں ممالک پچھلے چند برسوں میں اتنے قریب آگئے ہیں کہ اس وقت ہندوستان اسرائیل کا’’سب سے اہم غیر مغربی اتحادی‘‘ ملک بن گیا ہے۔ اس تبدیلی کا اثر ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر بالکل واضح طور پر نظر آرہا ہے۔
EPAPER
Updated: July 08, 2025, 10:31 PM IST | Pervez Hafeez | Mumbai
دونوں ممالک پچھلے چند برسوں میں اتنے قریب آگئے ہیں کہ اس وقت ہندوستان اسرائیل کا’’سب سے اہم غیر مغربی اتحادی‘‘ ملک بن گیا ہے۔ اس تبدیلی کا اثر ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر بالکل واضح طور پر نظر آرہا ہے۔
جس خارجہ پالیسی کی اساس اصولوں اوراخلاقیات پر ہوگی وہ بین الاقوامی تعلقات کے متعلق فیصلے ملک کی بنیادی اقدار مثلاً جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی رہنمائی میں کرے گی۔ آزادی کے بعد ایک طویل عرصے تک ہندوستان کی خارجہ پالیسی جن اقدار پر چلتی تھی وہ تھیں باہمی احترام، پر امن بقائے باہمی، عالمی امن اور کسی بھی سپر پاور کی کٹھ پتلی بننے سے انکار۔ جواہر لال نہرو ہوں یا ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی، لال بہادر شاستری ہوں یااٹل بہاری واجپائی ان تمام سربراہا ن نے بین الاقوامی رشتوں میں وقتی مفادات کی خاطر ملک کی بنیادی اقدار سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
اخلاقیات پر مبنی اسی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہندوستان نے اسرائیل کے قیام کے ۴۵؍برسوں تک اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے۔ ۱۹۹۲ء میں سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد بھی فلسطینیوں کے ساتھ دیرینہ رشتوں پر آنچ نہیں آنے دی گئی لیکن ۲۰۱۴ء میں ہماری خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں بلکہ تغیرات رونما ہونے لگے۔ جو ملک اپنے قیام کے نصف صدی تک ہمارے لئے اچھوت تھا اس کے ساتھ سفارتی تعلقات تیزی سے گہرے التفات اور شراکت داری میں تبدیل ہوگئے۔ ۲۰۱۷ء میں نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم بن گئے اور بنجامن نیتن یاہو سے ان کا گہرا یارانہ قائم ہوگیا۔دونوں ممالک پچھلے چند برسوں میں اتنے قریب آگئے ہیں کہ اس وقت ہندوستان اسرائیل کا’’سب سے اہم غیر مغربی اتحادی‘‘ ملک بن گیا ہے۔ اس تبدیلی کا اثر ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر بالکل واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ نئی دہلی بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اب ایسے موقف اختیار کر رہا ہے جن سے اس کا اسرائیل کی جانب جھکاؤصاف جھلکتا ہے۔
ہندوستان کو اس بات کی بھی پروا نہیں ہے کہ اس طرح کا موقع پرستانہ موقف ملک کی دیرینہ فارن پالیسی سے انحراف ہے اور گلوبل ساؤتھ(ترقی پزیر ممالک کی تنظیم) کے ساتھ بے وفائی۔ پچھلے ماہ اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنظیم ((SCO کے اہم اجلاس کے دوران ہندوستان نے جو رخ اپنایا اس سے کسی کو بھی اس بات کا اندازہ ہوسکتا تھا کہ اسرائیل کی حمایت میں ہندوستان کتنا آگے نکل چکا ہے۔ ۱۲؍ جون کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں ’’ فوری، غیر مشروط اور پائیدار‘‘ جنگ بندی اور بھوک پیاس سے تڑپتے مظلومین کو خوراک کی فراہمی کے لئے قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد کو ۱۸۰؍ میں ۱۴۹؍ ممالک کی بھاری حمایت حاصل ہوئی۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ جنوبی ایشیا، برکس اور ایس سی او ممالک میں ہندوستان وہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد پر مہر نہیں لگائی بلکہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے امریکہ کے قریبی اتحادی اور اسرائیل کے کٹر حمایتی ممالک نے بھی سیز فائر کے حق میں ووٹ دیا۔ گوتم بدھ اور مہاتما گاندھی کا ہندوستان اتنا سنگدل تو نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کا دل معصوم فلسطینی بچوں کی لاشیں دیکھ کر سے نہ پسیجے۔ کیا ہندوستان نے سیز فائر کی حمایت اس لئے نہیں کی کیونکہ بنجامن نیتن یاہو اور ڈونالڈ ٹرمپ غزہ میں سیز فائر کے موڈ میں نہیں تھے؟اقوام متحدہ میں یہ مؤقف اپنانے کے ایک دن بعد ہی ہندوستان نے دنیا کو پھر ایک جھٹکا دیا جب شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے اس بیان کا حصہ بننے سے انکار کردیا جس میں ایک خود مختار ملک ایران پر اسرائیل کے بلا اشتعال حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔
ایک وقت تھا جب مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت یا بیت المقدس کی بے حرمتی کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوجاتے تھے اور مظاہرین اسرائیل کے پرچم نذر آتش کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے تھے۔ آج ۲۱؍ماہ سے اسرائیلی ڈیفنس فورسیز نے غزہ پٹی میں قیامت برپا کر رکھی ہے، ۶۰؍ ہزار سے زیادہ نہتے شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاہے اور ۲۰؍ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کررکھا ہے لیکن وطن عزیز میں اس بربریت کے خلاف کہیں کوئی آواز بلند نہیں کی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ہند نے اور بی جے پی والی ریاستوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر اسرائیل کے ظلم و استبداد کے خلاف کسی نے زبان کھولی تو اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔فلسطینیوں کی حمایت اور ہمدردی کے دو بول بھی بولنا اب خطرے سے خالی نہیں رہ گیا ہے۔ ساری دنیا میں احتجاج کے دوران فلسطینی پرچم جوش خروش سے لہرائے جارہے ہیں لیکن ہندوستان میں ایسا کرنا ممنوع ہوگیا ہے۔ دو دن قبل آگرہ میں ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا کیونکہ اس نے محرم کے جلوس میں فلسطینی پرچم اٹھارکھا تھا۔ کشمیر میں پچھلے ہفتے محرم کے ایک جلوس کے چند شرکا کے خلاف بھی جو فلسطینی اور ایرانی پرچم لہرارہے تھے پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے کیونکہ پولیس کے بقول ان حرکتوں کا مقصد بد امنی پھیلانا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تار تار کرنا تھا جس سے ملک کی سلامتی اور یکجہتی کیلئے ایک سنگین خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔ جب سے غزہ میں نسل کشی شروع ہوئی تب سے اندھ بھکت جگہ جگہ اسرائیلی پرچم لہراتے پھر رہے ہیں۔ اس وقت بدامنی نہیں پھیلتی ہے اور نہ ہی ملک کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوتاہے۔
اسرائیل کی نئی نئی دوستی میں ہم اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ ایران جیسے دیرینہ دوست سے جس نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا بھی کنارہ کشی کرلی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ہمارے گہرے ہوتے رشتوں کی وضاحت یہ کہہ کر کی جاسکتی ہے کہ حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کا یہی تقاضہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور تجارتی رشتے بے حد مضبوط ہوچکے ہیں۔ ہندوستان دنیا بھر میں اسرائیلی اسلحوں کا سب سے بڑا خریدار بن گیاہے۔ دہشت گردی پر بھی دونوں ممالک کا یکساں موقف ہے: زیرو ٹالیرنس۔ اڈانی گروپ نے اسرائیل کے حیفہ بندرگاہ کا ۷۰؍ فیصد حصہ خرید لیا ہے اور اسرائیلی دفاعی کمپنی Elbit Systemsکے اشتراک سے آٹھ سال سے حیدرآباد میں ڈرون بنارہا ہے۔لیکن ماہرین کا خیال یہ ہے کہ اس کی ایک دوسری اہم وجہ صہیونیت اور ہندوتوا میں سیاسی اور نظریاتی مطابقت ہے۔دونوں نظریات سخت گیر نسل پرست قوم پرستی کے حامل ہیں اوردونوں majoritarianismیعنی اکثریت کی بالادستی میں یقین رکھتے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں نیتن یاہو نے پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کرواکے اسرائیل کو’’ یہودیوں کی قومی ریاست‘‘ میں تبدیل کردیا۔ہندوتوا کے علم بردار بھی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے عزم کا کھلے عام اظہار کرتے رہتے ہیں۔n