Inquilab Logo

کورونا کی وبا کو بھی مذہبی منافرت پھیلانے کا ذریعہ بنا نے سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟

Updated: April 05, 2020, 2:06 PM IST | Aasim Jalal

الیکٹرانک میڈیا نے بھلے ہی اس کے ذریعہ خاطر خواہ ٹی آر پی حاصل کرلی ہومگر اس نے ’کووِڈ-۱۹ ‘ کے خلاف ہندوستانیوں کی اس لڑائی کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی جلد ممکن نہیں، اس نے ملک میں مسلمانوں  کے خلاف نفرت میں  اضافہ ہی نہیں  کیا بلکہ تاریخ کے اس انتہائی اہم موڑ پر عالمی سطح پر ہندوستان کو شرمسار بھی کیا ہے۔ کورونا کیلئے اقلیتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے رویے پر امریکہ کا انتباہ اس کی ایک مثال ہے، شاید اسی لئے جے پی نڈا کو بی جےپی لیڈروں کو اس سے باز رہنے کی تلقین کرنی پڑی

Tablighi Jamat - Pic : PTI
تبلیغی جماعت ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 کورونا وائرس’ کووڈ-۱۹‘کی روک تھام کیلئے سارک ممالک کے سربراہان کے ساتھ تاریخی  ویڈیو کانفرنسنگ  میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بگ برادر کی طرح بتایاتھا کہ ہندوستان نے وسط جنوری سے ہی ہوائی اڈوں پر اسکریننگ شروع کر دی تھی اور پھر دھیرے دھیرے مرحلہ وار طریقے سے سفری پابندیوں میں بھی اضافہ کرتا چلا گیا۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ سارک ممالک کے سربراہان کیلئے وزیراعظم  کے ان ناصحانہ کلمات کے بعد ہی حیرت انگیز طور پر ہندوستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا جو ۲۱؍ دن کے لاک ڈاؤن کے۱۰؍ دن گزر جانے  کے بعد بھی جاری  ہے اوراس میں شدت آتی جارہی ہے۔ اب جبکہ نئی دہلی کے مرکز نظام الدین میں موجود غیر ملکیوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے اور اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی ہے کہ ان غیر ملکیوں سے رابطے میں آنے سے دیگر جماعتی بھی  بڑی تعداد میں  متاثر ہوئے ہیں تو یہ سوال  بجا طور پر پوچھا جا رہا ہے کہ جب ہوائی اڈوں پر اسکریننگ کا سلسلہ جنوری سے ہی شروع ہوچکا تھا تو مارچ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد مرکز نظام الدین کیسے  پہنچے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تبلیغی جماعت سے حالات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ دسمبر میں چین میں پھوٹ پڑنے والی اس وبا نے جنوری میں ہی عالمی سرحدیں عبور کرنی شروع کر دی تھیں۔ جنوری کے آخر آخرمیں  ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسے عالمی وبا بھی  قرار دے دیا  تھا اور کئی ایسے ممالک میں اس کے مریض ملنے شروع ہوگئے تھے جہاں جماعت کا کام ہوتاہے۔  پوری دنیا میں پھیلی اس جماعت کیلئے حفظ ما تقدم کا تقاضا  یہی تھا کہ وہ کم از کم  اپنے اراکین کے غیر ملکی دوروں کو فوری طور پر روک دیتی مگر جماعت نے ایسا نہیں کیا۔ شاید وہ حالات کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں سکی یا پھر اس کے ذمہ داران نے  لاپروائی برتی۔ مگر   ایسا نہ کر کے وہ کسی ہندوستانی قانون کی خلاف ورزی کرتی  نظر نہیں آتی کیوں کہ جماعت کی طرف سے جاری ہونے والے وضاحتی بیان سے صاف ہے کہ اس نے قانون  اور حکام کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات کی مکمل پاسداری کی ہے  ۔ 
  ہمیں تبلیغی جماعت سے  پھر بھی شکایت ہے کہ اس نے نا عاقبت اندیشی کا  مظاہرہ کیا مگر ایسی ناعاقبت اندیشی کرنے والی صرف تبلیغی جماعت نہیں  ہے، مرکزی حکومت نے بھی اسی طرح کی  ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ اس وقت کیا جب اپوزیشن کی مسلسل اپیل کے باوجود پارلیمنٹ کا اجلاس جاری رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کنیکا کپور کا معاملہ سامنے آیاا ور کئی اراکین پارلیمان کو خود ساختہ قرنطینہ مین جانا پڑا۔ یوپی کے وزیر صحت اور  وہاں کی کئی اہم شخصیات نے بھی ایسی ناعاقبت اندیشیوں کا مظاہرہ کیا۔  ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود بی جے پی نے بھی کیا جب   اس نے  اس وقت مدھیہ پردیش میں  تختہ پلٹ کی کوششیں شروع کیں جب ہندوستان میں کورونا دھیرے دھیرے اپنے  قدم جمانا  شروع کرچکا تھا۔ مدھیہ پردیش میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد حلف برداری کی تقریب بھی  ہوئی اور سڑکوں پر اتر کر بھیڑ کی شکل میں جشن بھی منایا گیا۔ یعنی کورونا کے پھیلاؤ سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر کو پوری طرح بالائے طاق رکھ دیاگیا۔  یوگی آدتیہ ناتھ جو ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں، نے تولاک  ڈاؤن کی ہی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایودھیا میں ایک پروگام کا انعقاد کر ڈالا۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدی یورپا نے خود بھیڑ بھاڑ پر پابندی عائد کی اور خود ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  شادی کے ایک پروگرام میں شرکت کیلئے پہنچ گئے ۔ ۱۶؍ مارچ تک تروپتی مندر میں ہر گھنٹے ہزاروں عقیدت مند حاضر ہورہے تھے، ممبئی  کا سدھی ونائک مندر کھلا ہوا تھا  اورکاشی وشوناتھ مندر لاک ڈاؤن کے بعد  ۳۰؍ مارچ کو جاکر بند کیاگیا۔مگر ساری برق تبلیغی جماعت پر گری، اس کی ناعاقبت اندیشی ، ناعاقبت اندیشی نہ رہ کر سازش بن گئی۔ اسے ’کورونا  جہاد‘ جیسے القاب سے نواز دیاگیا اور  جھوٹے سچے ویڈیوزکے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ تبلیغی جماعت نے جان بوجھ کر ملک میں کورونا کو پھیلانے کی کوشش کی ۔ چیخ پکار مچا کر یہ تاثر بھی دے دیا گیا کہ ہندوستان  میں کورونا کے پھیلنے کی واحد وجہ مسلمان ہیں۔
   مگر میڈیا کی بھی اپنی ’مجبوری‘ ہے۔ ٹی آر پی کیلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ بدلے ہوئے ہندوستان میں ٹی وی چینلوں کے لئے اگر کوئی موضوع سکہ ٔ رائج الوقت  ہے تو وہ ہندو مسلم  ہے۔ کورونا جیسی بڑی خبر کو وہ مذہبی رنگ نہیں دے پا رہا تھا۔ اسے جو سنسنی خیزی چاہئے تھی جونہیں مل پارہی تھی۔کورونا  نے تو تمام ہندوستانیوں کو اپنے مقابلے کیلئے مذہب سے بالاتر ہو کر متحد کردیا تھا۔ میڈیا کی نظر سے دیکھیں تو  مرکز نظام الدین کا معاملہ اس کیلئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ۔نفرت پھیلانے والے ہمارے نیوز اینکرس کو کورونا  کے خلاف لڑائی میں بھی ہندوستان کو’’ہم اور وہ ‘‘  میں   تقسیم کرنے کا موقع مل گیا۔  اس  نے خوب زہرافشانی کی۔ اس کے نتیجے میں اگر ملک کے مختلف حصوں سے  شدت پسند عناصر کے ذریعہ مسلمانوں پر حملے کی خبریں آئیں تو حیرت نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ میڈیا نے تبلیغی جماعت  کے حوالے سے پوری مسلم قوم کو ہی عام ہندوستانیوں کے سامنے  ویلن بنادیاہے۔  اس نے اس کے ذریعہ ٹی آر پی ضرور حاصل کرلی مگر کورونا کے خلاف ہندوستان کی لڑائی کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے،ا س کا ازالہ جلد ممکن نہیں  ہوگا۔  میڈیا نے  تاریخ کے اس انتہائی اہم موڑ پر  ہندوستان کو عالمی سطح پر شرمسار کیاہے۔ کورونا کیلئے اقلیتوں کو مورد الزام ٹھہرانے پر امریکہ  کی جانب سے جو فہمائش کی گئی ہے وہ  اس کی ایک مثال ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جےپی صدر جے پی نڈ کو اپنے پارٹی کارکنوں کو یہ ہدایت دینی پڑی کہ وہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں۔  ان کی اس ہدایت کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے مگر افسوس کہ جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا۔  میڈیا بھلے ہی حکومت کو دوست بنا ہوا ہے مگر  اس کے تعلق سے یہ کہاوت  صادق آتی ہے کہ ’’نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔‘‘
  بتایا جارہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے متنازع پروگرام سے جڑے۶؍سوسے زائد افراد کورونا سے متاثر پائے گئے ہیں۔ یقیناً پائے گئے ہوں گے مگر یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کیلئے صرف تبلیغی جماعت ذمہ دار ہے۔ممبئی میں کورونا کے ۲؍ کیس سامنے آنے کے بعد ہی ممبئی  پولیس نے تبلیغی جماعت کو کسی پروگرام کی اجازت دینے سے انکار کردیاتھا۔ دہلی پولیس کو کس نے روکاتھا؟ کیا  مرکز نظام الدین کو خالی کرانے کی کارروائی کے آغاز سے قبل پولیس ، مرکزی حکومت اور ریاستی انتظامیہ  واقعی وہاں   اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی سے ناواقف تھی؟ اپنی تمام تر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے باوجود کیا اسے علم نہیں تھا کہ مرکز سے غیر ملکی افراد کی جماعتیں نکل کر ملک کے مختلف حصوں میں گشت کر رہی ہیں۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق انٹیلی جنس کو مرکز میں ہونے والی ایک ایک سرگرمی کی اطلاع رہتی ہے۔ کیا وہ اطلاع حکومت اور پولیس تک نہیں پہنچی؟ مان لیجئے کہ نہیں پہنچی تو جب نوی ممبئی میں فلپائن سے آنے والی جماعت کے آراکین کورونا سے متاثر پائے گئے تب حکومت حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ کیوں انتظامیہ کو  اس وقت ہوش آیا جب مہاجر مزدوروں کا سڑکوں پر آنے کا  معاملہ بین  الاقوامی میڈیا کہ توجہ کا  مرکز بنا ہوا تھا اور حکومت بغیر تیاری کے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے الزام کا سامنا کررہی تھی۔ 
 جس طرح  تبلیغی جماعت قانونی طور پر غلط نہ ہونے کے باوجود اخلاقی اور دور اندیشی کے لحاظ سے غلطی پر ہے ، اسی طرح حکومت بھی مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے اور اس کی غلطی تبلیغی جماعت کی غلطی سے زیادہ سنگین ہے۔ تبلیغی جماعت کو تو اس کی دوہری نہیں بلکہ ۳؍ گنا  سزا مل رہی ہے۔  ملک بھر میں  بدنامی ہو رہی ہے،  قانونی چارہ جوئی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اور  اس کی غلطی کی وجہ سے ملک بھر میں اس کے اپنے اراکین ہی کووِڈ-۱۹؍ سے متاثر بھی ہورہے ہیںمگر کیادیگر ذمہ داروں کو  جوابدہ بنایا جائےگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK