Inquilab Logo

بنگال کی انتخابی مہابھارت کون جیتے گا؟

Updated: February 17, 2021, 4:56 PM IST | Parvez Hafeez

ممتا سرکاراب صرف پانچ روپے میں غریبوں کا پیٹ بھرنے کیلئے چاول، دال، سبزی اور انڈہ کی تھالی فراہم کررہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے اور بی جے پی کی یورشوں کو ناکارہ بنانےکیلئے ممتا کی یہ تگ و دو کتنی سود مند ثابت ہوتی ہے۔

Mamata Banerjee and Narendra Modi.Picture:INNا
ممتا بنرجی اورنرینر مودی۔تصویر :آئی این این

اگلے چند ماہ میں ملک کے متعدد صوبوں جیسے آسام، کیرل، تمل ناڈو اور یونین ٹیرٹری پڈوچیری میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں تاہم جس صوبے کے انتخاب پر پورے ملک کی نگاہ لگی ہوئی ہے وہ ہے مغربی بنگال جہاں ممتا بنرجی کو شکست دے کر تخت پر بیٹھنے کے لئے بی جے پی نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔ ممتا بنرجی نے چالیس سالہ سیاسی کریئر میں بے شمار چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور متعدد جنگیں لڑی ہیں۔لیکن نریندر مودی اور امیت شاہ کے مغربی بنگال میں زعفرانی پرچم لہرانے کے عزم کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ مجوزہ اسمبلی الیکشن ممتا کی سیاسی بقا کی جنگ ثابت ہوں گے۔  ۲۰۲۱ءکے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی تیاریاں بی جے پی نے ۲۰۱۶ء اسمبلی الیکشن کے نتائج کے اعلان کے بعد ہی شروع کر دی تھیں۔ بی جے پی کو محض تین سیٹیں ملی تھیں لیکن بددل نہ ہوکر امیت شاہ جو اس وقت بی جے پی کے صدر تھے، بنگال میں پارٹی کی جڑیں مضبوط کرنے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک مفصل روڈ میپ تیارکرنے لگے تھے۔ شاہ نے بنگال میں پارٹی کی تنظیم کو مضبوط کرنے اور ورکرز کے دلوں میں جوش پیدا کرنے کیلئے ’’ایبار بانگلہ‘‘ یعنی ’’اب بنگال کی باری ہے‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ ان چند برسوں میں بی جے پی نے صوبے میں اپنی پوزیشن کتنی مستحکم کرلی ہے اس کا اندازہ قارئین کو بی جے پی کے نئے نعرے ’’ ایبار بانگلہ پارلے شاملا‘‘  (اب بنگال کی باری ہے روک سکو تو روک لو) سے ہوجائے گا۔ یہ نعرہ نہیں مودی اور شاہ کا ممتا کو براہ راست چیلنج ہے، یہ نعرہ نہیں بی جے پی کے جنگی عزائم کی للکار ہے۔ اس بار بنگال میں الیکشن نہیں جنگ ہوگی اور  وہ بھی گھمسان کی جنگ۔ آپ اسے انتخابی مہا بھارت بھی کہہ سکتے ہیں۔
  انتخابی جنگ سے قبل مودی اور شاہ نے ممتا کے خلاف اعصابی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔۲۹۴ نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی کے ۲۰۰؍ سیٹیں جیتنے کے شاہ کے دعوے ہوں یا مودی اور ممتا کی موجودگی میں بی جے پی کے کارکنوں کے ذریعہ لگائے گئے جے شری رام کے نعرے، یہ سب ممتا کوخوف زدہ کرنے کیلئے بی جے پی کے نفسیاتی حربے ہیں۔ کوچ بہار کی ریلی میں کیا گیا شاہ کا یہ دعویٰ کہ الیکشن قریب آتے آتے ممتا جو’’جے شری رام‘‘کے نعروں سے چڑتی ہیں، خود یہ نعرے لگانے لگیں گی، بھی ایسا ہی ایک نفسیاتی ہتھکنڈہ تھا۔
 بی جے پی ایک جانب ممتا کے خلاف یہ اعصابی جنگ لڑ رہی ہے اور دوسری جانب وہ صوبے کو عوام  سے لڑارہی ہے۔ بی جے پی بنگالیوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر پولارائز کررہی ہے۔ اپنے مذموم پروپیگنڈہ اور آر ایس ایس کے زبردست تنظیمی تعاون سے بی جے پی سیکولر بنگالیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے۔ سنگھ کے کارکن ہندوؤں کا یہ برین واش بھی کررہے ہیں کہ ان کی غریبی، بے روزگاری بلکہ تمام مسائل کی وجہ بنگلہ دیشی در انداز ہیں۔بی جے پی لیڈران اب تو ممتا پر مغربی بنگال کو بنگلہ دیش بنانے کی سازش کا الزام بھی لگانے لگے ہیں۔اس زہریلے پروپیگنڈے کا بی جے پی کو خاطر خواہ فائدہ بھی ہواہے۔ ۲۰۱۹ء  لوک سبھا الیکشن میں اس نے صوبے کی ۴۲؍ میں سے۱۸؍سیٹیں جیت لیں اور ووٹ شیئر بھی۴۰؍ فیصد کر لیا۔ یہ بلاشبہ ایک بڑا کارنامہ تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ممتا کی دشمنی میں بایاں محاذ اور کسی حد تک کانگریس کے ووٹروں نے بی جے پی کی جھولی میں اپنے ووٹ ڈال دیئے۔
  دس برسوں سے صوبے میں حکومت کرنے کی وجہ سے anti-incumbency بھی ممتا کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ ممتا کی ایمانداری پر کسی کو شک نہیں ہے تاہم ا ن کے چند قریبی رشتہ داروں اور ساتھیوں کے کرتوتوں کی وجہ سے بی جے پی کو وزیر اعلیٰ کے خلاف کرپشن اور کنبہ پروری کے الزامات عائد کرنے میں آسانی ہوگئی ہے۔حالانکہ ممتا نے پچھلے۱۰؍برسوں میں صوبے کی ترقی اور دبے کچلے پس ماندہ عوام کی فلاح کے لئے کافی کام کیا ہے لیکن بی جے پی یہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ ممتا راج میں صرف مسلمانوں کے وارے نیارے ہوئے ہیں۔
 ممتا کے گھر کو گھر کے چراغ سے بھی آگ لگ رہی ہے۔ بی جے پی نے ممتا کے دست راست اور پارٹی کے دوسرے سب سے اہم لیڈر مکل رائے کو تو کئی سال قبل ہی توڑ لیا تھا۔دسمبر میں ممتا کابینہ کے اور اہم وزیر سوبھیندو ادھیکاری کے بی جے پی میں شامل ہونے سے ترنمول کو ایک اور بڑا دھچکا لگا۔ سوبھیندو نڈر اور مقبول لیڈر ہیں جو ممتا کی نندی گرام تحریک کے ہراول دستہ کے سپہ سالار تھے۔ ترنمول کانگریس کو ایک ناقابل تسخیر طاقت بنانے میں مکل اور سوبھیندو کی تنظیمی صلاحیتوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ حالیہ مہینوں میں کولکاتہ میونسپل کارپوریشن کے سابق مئیر شوبھن چٹرجی، دو ایم پی اور دس ایم ایل اے سیکولر زم کی رسی تڑا کر زعفرانی پٹہ گلے میں پہن چکے ہیں۔پچھلے ہفتے ترنمول کے ایک بہت سینئر لیڈر اور سابق وزیر ریل دنیش ترویدی کی بغاوت سے بھی ممتا کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ بی جے پی بنگال میں پانی کے طرح پیسہ بہا رہی ہے اور اسے اس کا پھل بھی مل رہا ہے۔
 ممتا کی پریشانیوں میں اضافے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسد الدین اویسی کی مسلم مجلس مشاورت صوبے کے ایک بااثر پیر زادے کے ساتھ مل کر الیکشن میں حصہ لے رہی ہے جس سے مسلم ووٹ بینک میں تقسیم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس تقسیم سے بی جے پی کو بھاری فائدہ ہوگا۔ممتا کو لوک سبھا الیکشن کے بعد ہی پارٹی کی کمزوریوں کا ادراک ہوگیا تھا اور انہوں نے معروف سیاسی حکمت ساز پرشانت کشورکی خدمات حاصل کر لی تھیں۔ کشور کے مشورے پر ہی عوام سے براہ راست رابطہ کرنے کیلئے ترنمول نے ’’دیدی کو بولو‘‘ اور ’’دوارے سرکار‘‘ جیسی مہم چھیڑی۔ تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتاکی تقلید کرتے ہوئے ممتا سرکاراب صرف پانچ روپے میں غریبوں کا پیٹ بھرنے کیلئے چاول، دال، سبزی اور انڈہ کی تھالی فراہم کررہی ہے۔ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے اور بی جے پی کی یورشوں کو ناکارہ بنانےکیلئے ممتا کافی تگ و دو کررہی ہیں۔ ان اقدام سے ممتا کی پریشانیاں صاف جھلک رہی ہیں۔ بی جے پی نے ترنمول کے بہت سے لیڈروں کو توڑکر بنگال میں اپنی پوزیشن مضبوط تو کر لی ہے لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جسے مجوزہ وزیر اعلیٰ کا امیدوار بناکر ووٹ مانگا جاسکے۔امیت شاہ نے سابق کرکٹ کپتان سورو گنگولی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بناکر پیش کرنے کا ماسٹر پلان بنایا تو تھا لیکن وہ سورو کے انکار کی وجہ سے فیل ہوگیا۔ ممتا کا ایڈوانٹیج یہ ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے پاس ممتا کے مقابلے کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK