Inquilab Logo

بائیڈن کوایران جوہری معاہدہ بحال کرنے میں پس و پیش کیوں؟

Updated: February 24, 2021, 9:28 AM IST | Parvez Hafiz

وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے ایک ماہ کے اندر ایران کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا جو اظہار بائیڈن نے کیا وہ خوش آئند ہے ۔

Joe Biden - Pic : INN
جو بائیڈن ۔ تصویر : آئی این این

 جو بائیڈن نے پچھلے ہفتے یہ اعلان کیا کہ امریکہ ایران کے ساتھ ۲۰۱۵ء  میں کئے گئے جوہری معاہدہ کی بحالی کے سلسلے میں ایران کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے تاکہ ایسی غلطیوں سے بچا جاسکے جن سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال مزید خراب ہوجانے کا خطرہ ہو۔ میونخ سلامتی کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا گیا بائیڈن کا یہ بیان ایران کے خلاف اپنائی گئی ڈونالڈ ٹرمپ کی’’ مکمل دباؤ ‘‘ کی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف بھی ہے اور اس پالیسی سے انحراف کا واضح اشارہ بھی۔ ٹرمپ نے ایران کو خطے میں تنہاکردینے اور امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی جو بری طرح ناکام ہوگئی۔ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے دعویٰ کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا یہ بیان اس بات کا اعتراف ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔
 اسرائیل کے صہیونی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو خوش کرنے کی خاطرٹرمپ  نے ۲۰۱۸ء  میں یکطرفہ طور پر اس جوہری معاہدہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا جو ان کے پیش رو بارک اوبامہ نے ایران کے جوہری عزائم پر لگام لگانے کی خاطر کیا تھا۔ یہ ایک عالمی معاہد ہ ہے جس پر امریکہ اور ایران کے علاوہ اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس کے علاوہ جرمنی کے بھی دستخط ہیں۔پچھلے ماہ امریکہ میں سیاسی قیادت کی تبدیلی کے بعد سے یورپی یونین نے اس معاہدے کے تمام فریقین کی ایک اہم میٹنگ منعقد کرنے کی کوشش تیز کردی ہیں۔ امریکی  اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ یورپی یونین کی میٹنگ میں شرکت کی دعوت قبول کرے گا تاکہ ایران کے جوہری پروگرام پر کوئی سفارتی پیش رفت کی جاسکے۔ اس میٹنگ کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے اپنے ہم منصبوں سے بات بھی  کی ہے۔وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے ایک ماہ کے اندر ایران کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا بائیڈن کا اظہار خوش آئند ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ تاہم ان کا یہ اصرار کہ ایران پہلے معاہدہ کے شرائط کی تمام خلاف ورزیاں ترک کرے اور معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اس کے بعد ہی اس پر عائد پابندیوں میں نرمی دی جاسکتی ہے، مسئلے کو پیچیدہ کرسکتا ہے اور اس کے حل میں تاخیر ہوسکتی ہے کیونکہ تہران مطالبہ کررہا ہے کہ امریکہ پہلے پابندیاں ہٹائے پھر وہ خلاف ورزیاں ترک کرے گا۔ایران کا مطالبہ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ اس نے معاہدہ نہیں توڑا ہے۔ JCPOA  کو ۲۰۱۸ء  میں ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے ختم کیا تھا اور اس کے بعد ایران پر دوبارہ وہ پابندیاں لگادی تھیں جو اس معاہدے کے تحت اوبامہ نے ہٹالی تھیں۔ اس کے باوجود ایران ایک سال تک معاہدے پر کاربند رہا اور کسی شق کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس کے بعداگر تہران نے کچھ یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا ہے یا کچھ تکنیکی حدود سے تجاوز کیا ہے تو ایسی کیا قیامت آگئی؟ معاہدہ جب ٹرمپ نے توڑ دیا تو ایران نے بھلا اس کی خلاف ورزی کیسے کی؟ ایران تو اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی خاص کر اپنے عظیم سائنسداں محسن فخری زادے کے قتل کے سبب معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے پر مجبور ہوا۔
 ٹرمپ کے مکمل دباؤ نے ایران کو اقتصادی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکہ کی دادا گیری کی وجہ سے عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)نے کورونا سے بچاؤ کے اقدام کرنے کیلئے ایران کی پانچ بلین ڈالر کے قرضے کی اپیل تک کو مسترد کردی تو کیا بائیڈن انتظامیہ تہران کے سامنے ایسی شرائط رکھنے میں حق بجانب ہے جن کو تسلیم کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے؟    اوبامہ کی انتھک سفارتی کوششوں کے سبب جب ایران کے ساتھ امریکہ کا یہ سنگ میل معاہدہ ہوا تھا اس وقت بائیڈن نائب صدر تھے اور اس معاہدہ کی انہوں نے دل سے حمایت کی تھی۔ ٹرمپ کے ذریعہ معاہدہ سے دستبرداری کی انہوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس’’عاقبت نااندیش فیصلے نے امریکہ کے یورپی دوستوں کے ساتھ رشتوں میں بحران پیدا کردیا اور چین اور روس کو ایران سے مزید قریب کردیا۔‘‘  بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ معاہدہ دوبارہ بحال کردیں گے۔ انہوں نے بیس جنوری کو حلف برداری کے فوراً بعدپندرہ سرکاری حکم ناموں پر دستخط کئے جن کا مقصد’’ٹرمپ انتظامیہ کے تباہ کن فیصلوں کو پلٹ دینا‘‘ تھا۔ ان نئے صدارتی آرڈر کے ذریعہ مسلم ممالک کے باشندوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی اٹھالی گئی اور پیرس ماحولیاتی معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت ہوگئی۔ دنیا میں بائیڈن کے ان اقدام کا خیر مقدم کیا گیا کیونکہ ان سے یہ پتہ چلا کہ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کو بدلنے کے سلسلے میں وہ کتنے سنجیدہ ہیں۔ یہ حکم نامے بائیڈن کے انتخابی وعدوں کی تکمیل تھے۔ان کے عزم کو دیکھ کر لگا تھا کہ وہ ایران پر عائد پابندیاں ختم کرکے جوہری معاہدہ میں امریکہ کی شمولیت اسی طر ح یقینی بنا دیں گے جس طرح پیرس معاہدے کو بحال کرکے کیا تھا۔لیکن بائیڈن اپنا انتخابی وعدہ پورا کرنے کے بجائے نئے نئے بہانے تراش رہے ہیں۔ انہوں نے  اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ایران معاہدہ کے کٹر مخالفین کے ساتھ صلاح مشورہ شروع کردیا ہے۔ بائیڈن بھی ٹرمپ کی طرح اب ایران کے میزائیلوں کا حساب کتاب بھی مانگنے لگے ہیں جن کا جوہری معاہدہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔بنجامن نیتن یاہو جنہیں ایک بار پھر اسرائیل میں سخت الیکشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، زور شور سے ایران معاہدہ کی بحالی کی مخالفت اور مزاحمت کرنے لگے ہیں۔
  ٹرمپ نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اور امریکہ کی دیرینہ ساکھ کو بٹہ لگاتے ہوئے ایسے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جو تین سال قبل ان کے پیش رو نے دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں کیا تھا۔ ٹرمپ کو یہ غیر قانونی اقدام کرنے میں ذرا سی بھی تامل نہیں ہوا تھا۔ پھر بائیڈن اس معاہدے کو بحال کرنے میں ٹال مٹول کیوں کر رہے ہیں جو اس انتظامیہ نے کیا تھا جس میں وہ نائب صدر تھے؟ اگر انہوں نے جلد ہی ایران پر عائد پابندیا ں نہیں اٹھائیں اور جوہری معاہدے میں امریکہ کی شمولیت کویقینی بنانے کے اقدام نہیں کئے تو دنیا کا یہ یقین اور پختہ ہوجائے گا کہ ریپبلیکن اور ڈیمو کریٹ در اصل’’بری پولیس‘‘ اور’’ اچھی پولیس‘‘ کی محض اداکاری کرتے ہیں ورنہ سچ یہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کی سمت اور جہت ایک ہی رہتی ہے اور یہ بنیادی طور پر جارحانہ اور تخریب کارانہ ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK