جمعرات کو کابینی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے امریکی فوجی کمانڈروں، خاص طور پر مارک ملی، جو سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف تھے، کے اقدامات پر سوال اٹھایا۔
EPAPER
Updated: July 11, 2025, 8:19 PM IST | Washington
جمعرات کو کابینی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے امریکی فوجی کمانڈروں، خاص طور پر مارک ملی، جو سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف تھے، کے اقدامات پر سوال اٹھایا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کے دور میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے فوری انخلاء کو امریکی تاریخ کا ”انتہائی شرمناک لمحہ“ بتایا اور اس وقت کے امریکی فوجی سربراہ مارک ملی کو ”احمق“ قرار دیا۔ کابینی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے امریکی فوجی کمانڈروں، خاص طور پر ملی، جو سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف تھے، کے اقدامات پر سوال اٹھایا۔
اپنی گفتگو میں ٹرمپ نے فوجی ساز و سامان چھوڑنے اور افغانستان کے بگرام ایئربیس کے ہاتھ سے نکل جانے کی نشان دہی کی اور کہا کہ ایئربیس، اسٹریٹجک اہمیت کا حامل تھا۔ ٹرمپ نے ملی کے فیصلوں کے بارے میں سخت تبصرے کئے۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے تمام ساز و سامان پیچھے چھوڑ دیا اور ہر سال وہ اس ساز و سامان کے ساتھ سڑکوں پر پریڈ کرتے ہیں۔ جو ساز و سامان وہ وہاں چھوڑ آئے، انہیں اس کا ایک ایک اونس اپنے ساتھ لینا چاہئے تھا۔ انہیں ہر ایک اسکریو، ہر ایک بولٹ، ہر ایک کیل اپنے ساتھ لے لینا چاہئے تھا
یہ بھی پڑھئے: لیسوتھو میں امریکی ٹیرف سے بیروزگاری میں اضافہ، ہنگامی صورتحال کا اعلان
”امریکی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ“
ٹرمپ نے مزید کہا، “مجھے یاد ہے کہ ملی نے کہا تھا کہ ساز و سامان چھوڑ کر ہم بہتر حالت میں ہیں۔ میرا سوال ہے کہ کیوں؟ ۱۵۰ ملین ڈالر کے طیارے کو پاکستان یا ہندوستان یا کسی اور جگہ اڑانے کے بجائے وہاں چھوڑ دینا کیوں بہتر ہے۔ تبھی مجھے معلوم ہوا کہ وہ احمق نہیں تھے۔ اسے سمجھنے میں مجھے زیادہ وقت نہیں لگا۔ انہوں نے اپنا وقار پیچھے چھوڑ دیا۔ میرے خیال میں یہ میرے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ تھا۔“
افغانستان کے خبررساں ادارے ٹولو نیوز کے مطابق، ٹرمپ نے بگرام ایئربیس کی اسٹریٹجک اہمیت پر بھی زور دیا اور الزام لگایا کہ اب یہ چین کے کنٹرول میں چلا گیا ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت اس دعوے کی پہلے بھی تردید کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ بگرام ایئربیس، جو کبھی افغانستان میں سب سے بڑی امریکی فوجی تنصیب تھی، خطے میں چین اور ایران دونوں کے قریب ہونے کی وجہ سے اسے طویل عرصے سے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم مقام سمجھا جاتا رہا ہے۔۔
امریکہ کی ممکنہ واپسی کی مذمت
دریں اثنا، ٹولو نیوز نے رپورٹ کیا کہ افغان سیکیورٹی ماہرین نے خطے میں امریکی فوجیوں کی ممکنہ واپسی کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ فوجی تجزیہ کار یوسف امین زازی نے ٹولو نیوز کو بتایا کہ اگرچہ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور کچھ اسلامی ممالک، خاص طور پر عرب ممالک پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن وہ اس معاملے میں غلط ہے۔ افغان اپنی سرزمین پر غیر ملکی فوجی موجودگی کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ انہیں اس پر دوبارہ غور کرنا چاہئے۔
اپنی دوسری مدت کے سات ماہ سے زیادہ گزرنے کے باوجود، صدر ٹرمپ نے ابھی تک افغانستان کیلئے کوئی باضابطہ پالیسی کا انکشاف نہیں کیا ہے۔ تاہم، ان کے حالیہ تبصرے، جو شدید اور انتہائی تنقیدی ہیں، واشنگٹن کے مستقبل کے نقطہ نظر کے بارے میں جاری غیر یقینی صورتحال کے درمیان آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: گرین کارڈ کے ذریعے امریکی شہریت پانے والوں کی شہریت منسوخ ہونے کا خطرہ
۲۰۲۱ء میں کیا ہوا تھا؟
امریکہ نے ۳۰ اگست ۲۰۲۱ء کو افغانستان سے اپنی فوجیں باضابطہ طور پر واپس بلا لی تھیں جس کے بعد افغانستان میں امریکہ کی تقریباً ۲۰ سالہ فوجی موجودگی اور امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوا۔ یہ انخلاء فروری ۲۰۲۰ء میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ اور طالبان کے درمیان دستخط کئے گئے ایک معاہدے کے بعد ہوا جس نے انسداد دہشت گردی پر طالبان کے وعدوں کے بدلے مرحلہ وار امریکی انخلا کی راہ ہموار کی۔ بائیڈن انتظامیہ نے انخلاء کے آخری مراحل کو انجام دیا جو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے افراتفری اور مہلک انخلاء پر ختم ہوا۔
افغان حکومت کے اچانک خاتمے اور کابل ہوائی اڈے پر ڈرامائی مناظر کی وجہ سے امریکی انخلاء نے عالمی توجہ حاصل کی اور شدید تنقید کا نشانہ بنا جہاں ہزاروں بے بس افغان فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ امریکی فوج نے اربوں ڈالرز کا ساز و سامان پیچھے چھوڑ دیا اور اچانک پیدا ہونے والے طاقت کے خلاء نے طالبان کو افغانستان پر مکمل کنٹرول دوبارہ قائم کرنے کی اجازت دی۔ اس آپریشن نے امریکی انٹیلی جنس اندازوں، منصوبہ بندی اور خطے میں جنگ کی طویل المدتی وراثت کے بارے میں سنگین سوالات کھڑے کئے تھے۔