Inquilab Logo

کیاطالبان کبھی نہیں بدلیں گے؟

Updated: December 28, 2022, 10:16 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

پچھلے ہفتے طالبان حکومت نے ایک نیا فرمان جاری کرکے یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگادی گئی ہے۔جب علم حاصل کرنا عورت اور مرد دونوں پر فرض ہے تو پھر افغانستان کی عورت کو اس فرض کی ادائیگی سے محروم کیوں کیا جارہا ہے؟

photo;INN
تصویر :آئی این این

افغانستان میں طالبان حکومت نے سیکنڈری اسکولوں کے دروازے لڑکیوں پر پہلے ہی بند کر رکھے تھے اب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم کردی گئی ہیں۔پچھلے ہفتے ایک نیا فرمان جاری کرکے یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگادی گئی ہے۔جب علم حاصل کرنا عورت اور مرد دونوں پر فرض ہے  تو پھر افغانستان کی عورت کو اس فرض کی ادائیگی سے محروم کیوں کیا جارہا ہے؟گزشتہ چند ماہ سے افغانستان سے جو خبریں آرہی ہیں وہ منفی اور مایوس کن ہیں۔ لوگوں کو سر عام کوڑے مارے جانے کی سزا دوبارہ متعارف کرادی گئی ہے۔حال میں جنوب مغربی صوبہ فرح میں قتل کے ایک مجرم کو قانون نے سزا دینے کے بجائے مقتول کے باپ کے ہاتھوں میں بندوق تھما کر اسے شوٹ کرنے کا حکم دے دیا تاکہ وہ اپنا انتقام خود لے سکے۔ ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں ایک انسان کی وحشیانہ ہلاکت کے اس ہولناک نظارہ کو دیکھنے کے لئے انتظامیہ کی دعوت پر سیکڑوںتماش بین اکٹھا ہوئے۔
 طویل عرصے تک چلی جنگ، خانہ جنگی اور دہشت گردی سے تباہ حال ملک میں دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ بھی دوبارہ چل نکلا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں مدرسوں اور اسکولوں میں ہوئے بم دھماکوں میں درجنوں معصوم لڑکے لڑکیاں فوت ہوچکے ہیں۔طالبان کے ہمدرد سمجھے جانے والے پاکستان، روس اور چین کے سفارت خانوں پر حملے ہوئے ہیں۔ایک جانب جنون اور وحشت کا یہ کھیل جاری ہے اور دوسری جانب معیشت ہچکیاں لے رہی ہے۔ طالبان اقوام عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے ایسا قدم اٹھا رہے ہیں جیسے انہوں نے ساری دنیا کو مزید بدگمان اور برگشتہ کرنے کا عہد کر رکھا ہو۔
 ۲۰۲۰ء میں دوحہ میں امریکہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حقوق انسانی خصوصاً خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔اگست ۲۰۲۱ء میں امریکی افواج کے انخلا کے بعدجب طالبان نے افغانستان کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اس وقت ان کے لیڈروں نے دنیا کو یہ بھروسہ دلایا تھا کہ وہ ملک میں ایک نیا اعتدال پسندانہ اور منصفانہ نظام قائم کریں گے جہاں تمام شہریوں کے ساتھ بلا تفریق نسل وزبان اور مسلک و نظریہ مساویانہ سلوک کیا جائے گا۔ خواتین کے تئیں ان کے دیرینہ رویے کی وجہ سے مغرب میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کی خاطر طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ لڑکیوں کو اسکول اور کالج جانے اور ملازمت کرنے کی آزادی دی جائے گی۔ لیکن انہوں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔
 امریکہ اور برطانیہ ہی نہیں سعودی عرب، ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے اسلامی ممالک نے بھی خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے فیصلے کی سخت تنقید کی اور افغان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی صلاح دی۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان افغان خواتین کو ان کے تمام جائز اختیارات فراہم کریں جن میں سب سے اہم تعلیم کا حق ہے جس کے ذریعہ ملک میں سلامتی، استحکام، ترقی اور خوشحالی آئے گی۔اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کے نمائندے کے مطابق طالبان کا یہ فیصلہ نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ اسلامی تعلیمات کی بھی خلاف ورزی کرتاہے۔ترکی کے وزیر خارجہ نے بھی پابندی کو غیر اسلامی اور غیر انسانی قراردیا۔
 ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا اور قدم قدم پر ان کی سرپرستی اور حمایت کی تھی۔ طالبان کو سعودی عرب سے ہی کچھ سبق لینا چاہئے جہاں تعلیم نسواں کو حکومت فروغ دیتی ہے۔ سعودی عرب کی یونیورسٹیوں میں طالبات کا تناسب ہندوستان، چین اور میکسکو جیسے ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ افغانستان کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں لڑکیوں یا خواتین کے اسکول یا کالج جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ 
 افغان لڑکیوں کوحصول تعلیم کا کس قدر شوق ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کا حالیہ فیصلہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ ۱۹۹۶ءمیں طالبان کی آمد سے قبل کابل یونیورسٹی میںطلباء اور طالبات کی تعداد برابر تھی اور ۶۰؍فیصد اساتذہ خواتین تھیں۔ اسکولوں میں ۷۰؍فیصد ٹیچرز اور اسپتالوں میں ۴۰؍فیصد ڈاکٹر خواتین تھیں۔ پچھلے بیس برسوں میں ملک میں لڑکیوں کی شرح خواندگی دوگنی ہوگئی ہے اور اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد ۳۵؍لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ دوحہ مذاکرات کے دوران اور کابل پر فتح کا پرچم لہرانے کے بعد طالبان نے عام معافی کا اعلان کرکے دنیا کو یہ تاثر دیا تھا کہ وہ اپنی پرانی روش ترک کرکے اپنے دوسرے دور حکومت میں ایک اعتدال پسند اور پرامن نظام قائم کریں گے جس میں جبر کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ لیکن پچھلے سترہ ماہ میں طالبان نے یہ واضح کردیا ہے کہ ان کے وعدوں اور دعووں کے برعکس نہ ان کے سیاسی اور معاشرتی انداز فکرمیں کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی ان کے اخلاقی رویوں میں۔ وہ پورے ملک میں پرانی شدت پسند انہ پالیسیاں نافذ کرنے پر مصر ہیں۔ یہ وہی رجعت پسندانہ اقدام ہیں جن کا مشاہدہ دنیا نے ان کے پہلے پانچ سالہ دور اقتدار (۱۹۹۶ء تا ۲۰۰۱ء)میں کیا تھاجن میں موسیقی سننے سے لے کر داڑھی منڈوانے تک پر پابندی تھی۔
  پہلے بھی طالبان کے رجعت پسندانہ اقدام سے خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھیں اور ابھی بھی سب سے زیادہ مصائب کا سامنا ان ہی کو کرنا پڑ رہا ہے۔وزیر اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم نے یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ ایسے لباس پہن کر کالج آتی تھیں گویا شادی میں شرکت کے لئے آئی ہوں۔اب اس طالبانی انداز فکرکے سامنے کیا عقل و استدلال کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟ کیا خواتین کو تعلیم سے محروم رکھناطالبان کا کوئی خصوصی ایجنڈا ہے؟کیا طالبان کو حقوق نسواں کی پامالی کالائسنس ملا ہوا ہے؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ طالبان کی نگاہ میں تمام بندشوں اور پابندیوں کی مستحق صرف خواتین ہی کیوں ہیں؟
 طالبان کے تاناشاہی فیصلے پر دنیا بھر میں تنقید کی جارہی ہے۔ طالبان افغانستان کی سفارتی تنہائی دور کرنے اور عالمی قبولیت حاصل کرنے کیلئے جد و جہد کررہے ہیں۔ کیا انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ ان کے حالیہ اقدام سے ان کی راہ اور زیادہ مشکل ہو جائے گی؟کیا انہیں علم نہیں ہے کہ عالمی برادری کا باضابطہ رکن بننے کی توقع وہ تب تک نہیں کرسکتے ہیں جب تک وہ تمام افغان شہریوں خصوصاً خواتین کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام نہیں کرتے ہیں؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK