• Wed, 10 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نوجوانو! مایوس ہرگز نہ ہوں، مطالعہ، فہم و ادراک اور حکمت سے کام لیں

Updated: December 10, 2025, 4:58 PM IST | Mubark Kapdi | Mumbai

گزشتہ ۱۵؍دِنوں میں مَیں نے نئی ممبئی کے دومیڈیکل کالج اور پونے کے ایک بڑے اسپتال کا دورہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ لال قلعہ کے قریب حالیہ تخریبی واقعے کے بعد عوامی ردِّ عمل کو سمجھوں۔

Dear children! Our job is to study and become a good person. We should never become a bad person by being seduced by anyone. Picture: INN
عزیز بچو! ہمارا کام پڑھنا اور اچھا آدمی بننا ہے۔ کسی کے بہکاوے میں آکر برا آدمی ہرگز نہیں بننا ہے۔ تصویر:آئی این این
گزشتہ ۱۵؍دِنوں میں مَیں نے نئی ممبئی کے دومیڈیکل کالج اور پونے کے ایک بڑے اسپتال کا دورہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ لال قلعہ کے قریب حالیہ تخریبی واقعے کے بعد عوامی ردِّ عمل کو سمجھوں۔ میڈیکل کالجوں میں درجن بھر سے زائد برُقع پوش طالبات زیرِ تعلیم ہیں اور جنھیں میںجانتاہوں اور پونے کے اسپتال میں ایک برقع پوش سینئر کنسلٹنٹ ، تینوں جگہ میںنے دیکھاوہاں پریشان حال مریضوں کے رشتہ دار بھی چلتے پھرتے کہے جا رہے تھے: ’’ یہ وائٹ کالر جاب والے بھی اس طرح بم دھماکوں میں کیسے ملوث ہوسکتے ہیں؟‘‘اور’’ڈاکٹر وں کو تو لوگوں کی جان بچانے کی قسم دلائی جاتی ہے، وہ معصوموں کی جان کیسے لے سکتے ہیں؟‘‘ ایک میڈیکل کالج میں اُن برقع پوش طالبات سے آدھ گھنٹہ مراٹھی میں خطاب کیا جس میں فارماکولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر نے بھی شرکت کی۔ دوسرے میڈیکل کالج میں یہ کہہ کر مجھے طلبہ کو خطاب کرنے نہیں دیا گیا کہ ابھی حالات بہت خراب ہیں، مینجمنٹ سے اجازت لینی پڑے گی۔ پونے کے اسپتال کی بُرقع پوش سینئر کنسلٹنٹ کو مریضوں کے رشتے دار بھی مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وجہ یہ بھی تھی کہ پونے کے سنگھ پریوار کے دو مراٹھی اخبارات ہی نہیں بلکہ انڈین ایکسپریس جیسے سیکولر گروپ کے مراٹھی اخبارنے بھی اُس دِن بڑی ہی اشتعال انگیز۸؍ کالمی سُرخی لگائی تھی۔تادم تحریر کلیان کے ایک کالج کے خالی کلاس روم کے ایک کونے میںبڑی خاموشی کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے تین طلبہ کے کان پکڑنے اور معافی مانگنے کی تصویر بھی اخبارات اور سوشل میڈیا میں دِکھائی دی۔
نوجوانو! دیکھ لیجئے کہ کس طرح مُٹھی بھر احمق، (ڈِگری یافتہ) جاہل، دین کی غلط سمجھ رکھنے والے اور لالچی افراد کی تخریبی سوچ یا عمل کی بناء پر پوری قوم ، خصوصاً حصول علم کے ذریعے سروخرو ہونے کا خواب دیکھنے والی نئی نسل کس طرح  پوری طرح زد پر آجاتی ہے۔ ان عناصر کو آپ کیسے سمجھ پائیںگے اس کی تفصیلات ہم یہاں درج کرنا چاہیں گے:
نو جوا نو!ہماری موجودہ صورت حال کو سمجھئے۔ ہمارے چند نام نہاد  لیڈران بس اِسی تاک میں رہتے ہیں کہ دین کے بارے میں آدھی ادھوری باتیں بتائی جائیں تا کہ آپ جو شیلے و جذباتی ہو جائیں۔ اپنے مقصدِ حیات کو بھول کر اُن نام نہاد لیڈران کی سیاسی بھٹّی کا ایندھن بن جائیں۔ دوستو! اگر آپ خود (الف) مطالعہ کریں (ب) اپنے فہم و ادر اک سے کام لیں ( ج ) دُور اندیش بن جائیں اور (د) حکمت کو اپنا ئیں تو پھر آپ کے ذہن کو کوئی منتشر نہیں کر پائے گا۔ آیئے یہ دیکھیں کہ کن کلمات کے ذریعے آپ کا ذہن بھٹکانے کی کوشش کی جاتی ہے :۔
(۱) ایک دِن تو مرنا ہے : جی ہاں یہ کہہ کر آج نو جوانوں کو نام نہادجہاد پر اُکسایا جاتا ہے۔  دوستو سُنو ! بے شک موت برحق ہے مگر زندگی بھی تو برحق ہے اور یہ زندگی اللہ نے دی ہے اُس کی امانت ہے، اسے لینے کا حق صرف اللہ کو ہے اور موت کے بعد کی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ اس دْنیاوی زندگی میں ہمارے پر فارمنس پر جنّت یا جہنّم ملے گی یعنی اس زندگی میں ہماری بہترین کارکردگی ہی سے ہمیں جنّت ملے گی، اسلئے زندگی بے حد قیمتی ہے لہٰذا اگر کوئی آپ کو ‘شہید‘ ہونے کی رائے دیتا ہے تو آپ یہ دیکھئے کہ کہیں وہ آپ کو خودکشی پر تو نہیں اُکسا رہا ؟
(۲) اسلام خطرے میں ہے: آپ کا ذہن بھٹکانے کیلئے  اکثر یہ جملہ استعمال کرتے ہیں، اب آپ یہ سوچیں کہ دین اسلام تو اللہ کا دین ہے وہ خطرے میں ہو ہی کیسے سکتا ہے؟ ہر زمانے کی ہر کسوٹی پر کھرا اُترا ہے یہ دین۔ یہ منظم طرز حیات ہے، یہ خطرے میں کیسے ہو سکتا ہے؟
(۳)’ہم ہی سب سے اچھی اُمّت ہیں‘: ہمارے کچھ بڑے سیاق و سباق کے حوالے کے بغیر یہ جملہ کہہ کر دوسروں سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔ اسی سے پھر اپنے بہتر اور بڑھ کر ہونے کا زعم پیدا ہو جاتاہے۔سنو دوستو ! قرآن نے یہ ضرور کہا کہ ’’تم خیر اُمّت ہو‘‘ البتہ اس آیت کے ساتھ ہی وابستہ شرائط کی ایک فہرست بھی دی ہے۔ ملاحظہ کیجئے: تم خیر امّت اسلئے ہو کہ (۱) نیکی کا حکم دیتے ہو (۲) برائی سے روکتے ہو اور (۳) اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ( آلِ عمران ) جی ہاں ان ساری شرائط پر کھرے اُترتے ہیں تو ہم خیر امّت ہیں۔ نوجوانو ! ذرا سوچئے کہ ان شرائط پر پورا اتر نا کتنا بڑا امتحان ہے۔ گویا پوری زندگی کا نصاب ہی یہ آیت ہے اور زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں اس کی گائیڈ لائن ہی اس آیت میں درج ہے ۔اگر کوئی محض فخر و گھمنڈ پیدا کرنے، احساسِ برتری میں مبتلا رکھنے اور دوسری قوموں کو حقارت سے دیکھنے کیلئے آپ کو کہتا ہے کہ تم خیر امّت ہو، تو وہ آپ کی غلط رہنمائی کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی تمام آزمائشوں پر کھرا اُترنا ہے تبھی ہم خیر اُمّت کہلائیں گے لہٰذا اللہ کی یہ آیت کہ ہم خیر امّت ہیں، یہ جھومنے اورفخر سے مسرور ہونے کیلئے نہیں ہے۔
(۴)’ زہر آلود جملے‘:نوجوانو! ہمارا آج بھی ماننا ہے کہ اس ملک میں بے شمار افراد غیر فرقہ پرست ہیں۔ چند افراد البتہ یہاں مسلسل فرقہ پرستی کا زہر اگلتے رہتے ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ وہ ان کی فطرت ہے۔ مثلاً بچھّوڈنک کیوں مارتا ہے؟ کیا وہ سوچ سمجھ کر اور آپ کو پہچان کر ڈنک مارتا ہے؟ جی نہیں۔ بچھّو کی فطرت ہے کہ وہ ڈنک مارے اور زہر اُگلے۔ اسی فطرت کے حامل چند انسان بھی ہوتے ہیں۔ اب فرض کیجئے کہ کوئی ایساہی شخص کہے کہ ہندوستان کے سارے لوگ ہندو ہی ہیں وغیرہ تو نوجوانو! آپ اس پر مشتعل کیوں ہو جائیں؟ اپنے فہم و ادراک کا استعال کیجئے کہ کیا یہ درست ہے؟ اس کے جواب میں آپ کو دوسروں کو مشتعل کرنے والی کسی سرگرمی میں حصہ نہیںلینا ہے کیوں ؟ ہدایت قرآن سے لیجئے : ’’ دین کے بارے میں کوئی جبر نہیں‘‘ لہٰذا اب آپ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ کتاب سے دھیان نہ ہٹائیں، زیادہ کامیاب ہوجائیں تاکہ زیادہ چیریٹی کریں اور غربت کی وجہ سے فرقہ پرستوں کا شکار بن رہے ہیں اُن کی بنیادی ضرورتوں کا سامان آپ مہیا کرائیں۔
(۵) ’یہ سب سازشیں ہیں‘: جی ہاں نو جوانو ! ہمارے کچھ بڑے آپ کو مسلسل یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف صرف سازشیں ہو رہی ہیں : صہیونی سازش ، سنگھ پریواری سازش ، یہودی سازش ، مغربی سازش وغیرہ وغیرہ جس سے آپ کو یوں لگتا ہے کہ پوری قوم بس سازشوں میں گھری ہوئی ہے۔
اب اگر فرض کیجئے کہ ایسی کوئی سازش ہوگی بھی تو یہاں آپ کا اپنا مطالعہ وفہم و ادراک آپ کی رہنمائی کرنے کیلئے کافی ہے۔ آپ اگر خود قرآن کا مطالعہ کریں تو اس میں آپ کو اللہ کی یقین دہانی واضح طور پر دکھائی دے گی :’’ اگر تم صبر کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو ان کی کوئی سازش تم کو ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گی‘‘دوستو! آپ کو یہ اللہ کی گیارنٹی ہے کہ اگر صبر و تقویٰ سے کام لیتے ہیں تو دنیا کی کوئی سازش آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پائے گی۔ اب یہ بھی سن لیجئے کہ ’صبر‘ اور’ تقویٰ ‘کی مکمل اسٹڈی آپ کے فزکس و کیمسٹری کے پیچیدہ فارمولوں سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ دو چار دن آپ پوری توجہ سے مطالعہ کرتے ہیں تو قرآنی صبر و اللہ کا تقویٰ سے مکمل واقف ہو جائیں گے۔ ہم آج آپ کو صبر کی تعریف مختصر اً بتاتے ہیں: ( الف ) خوب کوشش کرتا البتہ اگر نتیجہ موافق نہ آئے تو صبر کرنا (ب) سازش انسانی فطرت کا حصہ ہے البتہ اسے اپنے حسن سلوک ، حسن تدبیر اور مناسب مدافعانہ کوشش سے نا کام کیا جا سکتا ہے (ج) صبر کی مزید وضاحت کرنے کیلئے قرآن کہتا ہے : ’’تم اپنے دین میں غلو نہ کرو‘‘ غلو یعنی شدّت یا انتہا پسندی ہے۔ غلو کی ضد اعتدال ہے لہٰذا نو جوانو ! قرآن صرف صبر و اعتدال کی ہی تلقین کرتا ہے، شدّت و انتہا پسندی کی ہر گز نہیں۔ 
عزیز طلبہ! اگر آپ کے کیمپس میں طلبہ کی کوئی تنظیم، زندگی کی جدّو جہد کو اقبال کے شاہین کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرے تو آپ جان لیجئے کہ شاہین صبر سے معمور ہے۔ شاہین پرندہ ہے، درندہ ہرگز نہیں اور یہ کہ شاہین، شاہین ہے، گِدھ ہرگز نہیں!  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK