• Wed, 10 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بی ایل اوز کی موت پربے حسی کا عالم یہ ہےکہ نہ کمیشن کوئی ذمہ داری قبول کررہا ہے، نہ حکومت

Updated: December 10, 2025, 4:54 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

ایس آئی آر کوبس ایک حکم کی طرح نافذ کرنے والا الیکشن کمیشن جس طرح اس مہم اور اس کے طریق کارپر اٹھنے والے سوالات کا اب تک کوئی واضح جواب نہیں دے سکا ہے، اسی طرح وہ ان اموات پربھی بے حس بنا ہوا ہے۔

Recently, after the death of a BLO in Kolkata, other booth level officers had protested and demanded security as well as compensation. Picture: INN
گزشتہ دنوںکولکاتا میں ایک بی ایل او کی موت کے بعددیگربوتھ لیول افسران نے احتجاج کیا تھا اور سیکوریٹی نیز معاوضہ کا مطالبہ کیا تھا۔ تصویر:آئی این این
اموات معمولی نہیں ہوتیں۔اموات دل گرفتہ کردیتی ہیںبلکہ بہت سےحالات میں براہ راست لواحقین کو مایوس تک کردیتی ہیں۔ قتل ، حادثہ ، بیماری یاکسی اور بہانے سے آنے والی موت اقربا اورعزیزوںکوایسے صدمے سےدوچارکرتی ہیں جن سے ابھرنے میںایک مدت لگتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔لیکن ، ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہےکہ اموات سے اب بہت سے لوگوںکو فرق نہیںپڑتا ۔ہمارے سامنے آئے دن اموات ہورہی ہیںلیکن ہم میںسے کتنے ہیںجو ان اموات سے انفرادی طور پر کوئی دردوکرب محسوس کرتے ہوں۔حادثات میں ہونے والی اموات سےمتعلق روزانہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیںلیکن کون ایسا دردمند دل رکھتا ہےجو ان اموات کو اپنا ذاتی یا کم از کم انسانی نقصان سمجھتا ہو۔اب توہمیںاموات پر افسوس کرنا بھی نہیںآتا ۔کسی کی  مو ت کی خبر سن یا پڑھ کرکوئی تبصرہ کردیا،یا کسی تعزیتی تقریب میںگردن جھکاکربیٹھ کر آگئے ، بس، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ہمارے معمولات پھر چل پڑتے ہیں۔ حالانکہ یہی زندگی کا دستور ہےلیکن اس میںمعاشرتی بے حسی بھی چھپی ہوئی ہےجس کا ہمیں بہت کم احساس ہے۔یہ صورتحال انفرادی سطح پربھی ہے،معاشرتی سطح پر بھی ہے اوراس سے آگے بڑھ کرادارہ جاتی اورحکومتی سطح پربھی ہے۔
گزشتہ ۲۲-۲۰؍ دنوںمیں۲۵؍ سے زائدبوتھ لیول افسر(بی ایل او)کام کے مبینہ دباؤ کے سبب یا توجان گنوابیٹھےیا اپنےہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ۔رائے دہندگان کی فہرست کی خصوصی جامع نظرثانی یعنی ایس آئی آر کوبس ایک حکم کی طرح نافذ کرنے والا الیکشن کمیشن جس طرح اس مہم اور اس کے طریق کارپر اٹھنے والے سوالات کا اب تک کوئی واضح جواب نہیں دے سکا ہے ، اسی طرح وہ ان اموات پربھی بے حس بنا ہوا ہے۔ ان اموات پر حکومت کی جانب سے بھی کوئی ردعمل نہیںآیا۔ یعنی الیکشن کمیشن اورحکومت کو ان اموات سے کوئی فرق نہیںپڑتا ۔کسی کوکہنے کی ضرورت نہیںہے ،حالات کہہ رہے ہیں کہ آئندہ دنوںاور کتنی ہی اموات کی خبریں آجائیں، نہ الیکشن کمیشن ایس آئی آر کا کام روکنے والا ہے اورنہ ہی حکومت اس پر کوئی اقدام کرنے والی ہے۔ایس آئی آر فی الوقت ۹؍ ریاستوںاور۳؍ مرکزی صوبو ںمیںجاری ہےاوراس پرخود آر ایس ایس سے وابستہ ایک تنظیم اکھل بھارتیہ راشٹریہ شیکشک مہا سنگھ (اے بی آر ایس ایم)نے کمیشن کو خط لکھ کرتشویش کا اظہار کیا ہے اورایس آئی آر مکمل کرنےکی ڈیڈ لائن میں توسیع کے ساتھ ساتھ متوفی بی ایل اوز کے لواحقین کوایک کروڑ روپے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔تنظیم نے خط میںبی ایل اوز پر کام کے دباؤ کو غیر اخلاقی اورمقرر کردہ ہدف کو غیر حقیقی قراردیا ہے اورواضح طورپر کہا ہےکہ اس کام کیلئےتعینات ٹیچروںپرجو دباؤ ڈالا جارہا ہے اورانہیںجس طرح خوفزدہ کیاجارہا ہےوہ نہ صرف انتخابات کے وقارکے خلاف ہے بلکہ ٹیچر برادری کی توہین بھی ہے ۔ الیکشن کمیشن  فی الحال بس یہی تحقیقات کررہا ہےکہ ان اموات کوکام کے دباؤ سے جوڑنے کے پیچھےکتنی سچائی ہے۔ان اموات کیلئے کمیشن کی جانب سے کوئی تعزیتی پیغام نہیںجاری کیاگیا،متوفی بی ایل اوز کے اہل خانہ کیلئے کسی طرح کی ہمدردی کا اظہار نہیںکیاگیاالبتہ بہار کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ضرورکہا گیاکہ وہاںاس عمل کے دوران ایسے واقعات دیکھنے کو نہیںملے تھے۔
حکومت اب بھی بہار اسمبلی انتخابات میںملی جیت کے خمار میں ہے۔اس کامقصدبس ووٹروںپر نظر رکھنا ہےاورانہیںاپنے حق میںکرنا ہے،وہ چاہے دستاویزی طریقے سے ہو یاعین الیکشن کے موقع پر ووٹروں کواسکیموںکے نام پر رشوت دے کر۔اس کا مقصد ایسے ووٹروںکے نام ہی فہرست میںباقی رکھنا ہے جن کا ووٹ حکومت کو ہی ملے ۔جن کے تعلق سے شبہ ہوکہ وہ حکومت اوراسکے اتحادیوں کوووٹ نہیں دیںگے ، ان کے نام حذف کرنے کےراستے تلاش کئے جارہے ہیں اورایس آئی آرکا تصوراسی پہلو کے ارد گرد گھومتا ہے۔ایسا نہ ہوتا توبی جےپی اس پر کوئی تو موقف رکھتی ۔کمیشن کے عمل سے کسی طرح اپنا دامن تو بچاتی یا کم از کم یا یہ تو کہتی کہ  یہ الیکشن کمیشن کی اپنی کارروائی ہےجو ایک خودمختار ادارہ ہے اوراس کے اقدامات حکومت کے زیر اثر نہیں ہیں۔ ایس آئی آر کے پورے عمل پربی جے پی حکومت نہ صرف خاموش ہے بلکہ خوش ہےاوراسی کی آڑ میں اس نے دراندازوں کو ملک سے نکالنے کا تہیہ کر رکھا ہےیعنی ظاہرہوتا ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن سے یہ کام کروا رہی ہے۔حالانکہ در اندازوں کا معاملہ بھی بے بنیاد معلوم ہوتا ہےکہ کیونکہ ایس آئی آر پر ترنمول کانگریس نے الیکشن کمیشن سے جو پانچ سوالات پوچھے ہیںان میںایک اہم سوال یہ بھی ہےکہ ایس آئی آر  شروع کرنے کی اگر  بنیادی وجہ  دراندازی  ہے تو پھر تریپورہ، میگھالیہ، میزورم، اروناچل، ناگالینڈ، منی پور اور ناگالینڈ  میں ایس آئی آر کیوں نہیں کیا جارہا ہے جو بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر واقع ہیں؟یہاں تک آسام میں بھی ایس آئی آر نہیں ہورہا ہے  جہاں ا ین آر سی کے تحت حراستی مراکز تک قائم کردئیے گئے ہیں۔
یہ تو ایس آئی آر کے وہ عملی یعنی سیاسی اور انتخابی پہلو ہیں جو تنقیدوں کی  زد پر ہیںاورجن پر اپوزیشن سوالات اٹھا رہا ہے ۔بی ایل اوز کی  موت اور خود کشی کے واقعات اس سے متعلقہ وہ پہلو ہیںجو خالص انسانی نوعیت کے ہیں اورجن پراپنا موقف واضح کرنا نہ صرف حکومت اور کمیشن کی ذمہ داری ہےبلکہ وہ اس کے پابند بھی  ہیں۔اگر وہ وضاحت نہیںکرتے تواس کامطلب یہ ہوگاکہ ایس آئی آر کا پورا عمل کوئی بہت بڑی بدعنوانی ہے جس پر وہ پردہ ڈالنا چاہتے ہیں   یا بی ایل اوزجو معاملہ اٹھانا چاہ رہے ہوں اورعملی طورپر جن مسائل کاشکار ہوںانہیںالیکشن کمیشن دبانا چاہتا  ہے۔اس سے تو انکار نہیںہےکہ ایس آئی آر کے ذریعے کوئی بڑی دھاندلی کی جارہی ہے کیونکہ اس کے تعلق سےاپوزیشن کے سوالات اور بالخصوص ایک برازیلی ماڈل کے ہندوستان میں ووٹ دینے کے تعلق سے راہل گاندھی کے انکشافات پر کمیشن نے جو جواب دیا وہ کانگریس پارٹی اور راہل پر ذاتی حملے جیسا تھا ۔کمیشن نے برازیلی ماڈ ل کےیہاں کی ووٹر لسٹ میںنام ہونے کی ذمہ داری کانگریس پر ڈال دی کہ اسے نگرانی کرنی چاہئے تھی جبکہ نگرانی کی یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ الیکشن کمیشن اگر اس پورے عمل کے تعلق سے غیر جانبدار ہوتا تووہ اس کا کوئی معقول اور سرکاری لہجے میں جواب دیتا ،نہ کہ ایک سیاسی پارٹی کو نشانہ بناتا۔
الیکشن کمیشن کابی ایل ا وزکی اموات پر خاموش رہنا اس کی سب سے بڑی خامی ثابت ہوسکتا ہے۔کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے ایس آئی آر کی مثال نوٹ بندی اورلاک ڈاؤن سے دی ہےاو ران دونوں واقعات کےد وران اموات کا جو سلسلہ چل پڑا تھا ، وہ سب ریکارڈ پر ہے۔نوٹ بندی میںلوگوںکی قطاروں میںجانیں گئی تھیں، لاک ڈاؤن میںلوگ گھروں میں اور اسپتالوںمیںدم توڑ رہے تھے ۔ اب یہی صورتحال ایس آئی آر میںنظر آرہی ہے جب بی ایل اوزکام کے دوران جانیں گنوارہے ہیں۔ اتر پردیش کے گونڈہ میں منگل کو خود کشی کرنےوالے بی ایل او بپن یادو کا  معاملہ سب کے سامنے ہے۔ ایک ویڈیو میں    انہوں نے واضح طورپر کہا ہےکہ  ان پر ایس ڈی ایم، بی ڈی او اور لیکھ پال کا شدید دباؤ تھا۔  اس تعلق سے گزشتہ دنوں شائع خبر کے مطابق  بپن یادو  نے منگل کی صبح  ۷؍ بجے زہر کھالیا  تھا جس کے بعد انہیں  فوری طور پر اسپتال  لے جایاگیا ، ان کی حالت نازک تھی اس لئے  ڈاکٹروں نے  انہیں لکھنؤ کے  کے جی ایم یو بھیج دیا مگرو ہاں پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی ان کی موت ہوگئی۔ بپن یادو کے برادر نسبتی پرتیک کا ویڈیو بھی سامنے آیا۔ 
 آر جے ڈی کی قومی ترجمان  پرینکا بھارتی اور کانگریس ترجمان سپریہ شرینیت   نے بھی  مذکورہ    ویڈیو شیئر کیا ہےجس میں پرتیک  بتا تے ہیں کہ ’’مجھ سے ایک دن پہلے شام کو بات ہوئی تھی۔انہوں  نے بتایا تھا کہ ایس ڈی ایم ، لیکھ پال اور بی ڈی او ، یہ تینوں مل کر ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ او بی سی کا ووٹ کاٹیں اور دوسرے ووٹ بڑھائیں۔‘‘  الیکشن کمیشن کے افسران نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے دباؤ کی تردید کی ہے ۔اس کے ساتھ ہی دونوں ویڈیوز کی جانچ ہورہی ہے ۔ کانگریس صدرکھرگے نے بی ایل اوز کی اموات پر کہا تھا’’بی جے پی چوری کے ذریعے اقتدار کا مزہ لے رہی ہے جب کہ الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ بغیر کسی منصوبہ بندی  اور انتہائی جلدبازی میں ایس آئی آر کا نفاذ نوٹ بندی اور کووڈ لاک ڈاؤن کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔‘‘ بی ایل ا وز کی  خودکشی کے واقعات کو بی جے پی کی ’اقتدار کی بھوک‘کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کانگریس کے سربراہ نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ ایس آئی آر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو اس وقت۱۲؍  ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جاری ہے ۔انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا تھا’’بی جے پی کی اقتدار کی بھوک اور طاقت  کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے کہ آئینی ادارےبھی دم توڑ  نے پرمجبور ہیںاور جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے،بہت ہو چکا!! اگر ہم اب بھی نہیں بیدار ہوئے تو جمہوریت کے آخری ستون کو گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ جو لوگ ایس آئی آر اور ووٹ چوری پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں،وہ بی ایل اوز کی موت کے بھی ذمہ دار ہیں۔جمہوریت کو بچائیں۔‘‘بدعنوانی بھی ہے، دھاندلی بھی ہے، اموات بھی ہیںمگربے حسی کا عالم یہ ہےکہ نہ کمیشن کسی بات کی ذمہ داری قبول کررہا ہے، نہ حکومت ۔حکومت کو بس جیت چاہئےاورالیکشن کمیشن کو اہل ووٹروں کی تصدیق کے نام پرغیر ضروری اورانتہائی غیر منظم ایس آئی آر۔ اسے دم توڑتے بی ایل اوز کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ڈیجیٹل ہندوستان میںووٹر لسٹ میں تبدیلی اور اصلاحات کا کام ٹیبل پربیٹھ کیاجارہا ہے،یہ عمل خود اپنے آپ میںحکومت اور الیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے کافی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK