گزشتہ اتوار کو بھیونڈی میں ’بھیونڈی: ڈیولپمنٹ ڈی کوڈیڈ‘ کے نام سے ایک ڈاکیو مینٹری فلم کی نمائش کی گئی۔ یہ دستاویزی فلم تقریباً دس دس منٹ کے ۵؍ حصوں پر مشتمل ہے۔
یہ ہیں بھیونڈی کے وہ حوصلہ مند نوجوان جنہوں نے دستاویزی فلم بنائی۔ تصویر:آئی این این
گزشتہ اتوار کو بھیونڈی میں ’بھیونڈی: ڈیولپمنٹ ڈی کوڈیڈ‘ کے نام سے ایک ڈاکیو مینٹری فلم کی نمائش کی گئی۔ یہ دستاویزی فلم تقریباً دس دس منٹ کے ۵؍ حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بھیونڈی کے انفراسٹرکچر، نقل وحمل کے ذرائع، طبی سہولیات،صحت کی صورتحال، ماحولیات اور بھیونڈی کے سرکاری ڈیولپمنٹ پلان (ڈی پی) پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ دستاویزی فلم ’کورس ڈس کورس‘ کے نام سے تشکیل دی گئی حوصلہ مند، باصلاحیت اور ویژن رکھنےوالے نوجوانوں کی ایک ٹیم نے بنائی ہے۔ اس ٹیم میں ایک لیکچرار اور۴؍ طالب علم ہیں۔ فلم دیکھ کر دل وفور جذبات سے لبریز ہوگیا۔ اپنے نوجوانوں کی صلاحیت اور صلاحیت سے کہیں زیادہ ان کے ذمہ دارانہ احساسات و جذبات پر رشک آیا۔ ان کے لئے دل سے بے اختیار دعائیہ کلمات نکلے کہ یااللہ انہیں نظر بد سے بچانا، حالات کی ستم ظریفیوںسے محفوظ رکھنا، ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشنا اور ان سے قوم و ملت کے نمایاں کام لینا۔
ڈاکیو مینٹری کی نمائش کے بعد ناظرین کے اظہار خیال کی باری آئی تو پرنسپل ضیاء الرحمان انصاری نے’سی ڈی سی‘ کے ذمہ داران کو ایک فریم میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہاں موجود لوگ دیکھ سکیں کہ ان نوجوانوں نے اپنے قد سے کہیں زیادہ بڑ ا کام کیا ہے اور اپنے فرض سے کہیں زیادہ بڑی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ یہ فرض اب شہر پر ایک قرض کی طرح ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شہر کے ذمہ داران اس قرض کو کس طرح ادا کرتے ہیں اور بھیونڈی کے شہری اپنے ’ذمہ داروں‘ کا کس طرح احتساب کرتے ہیں؟
ڈاکیومینٹری کی نمائش سے دو دن قبل مجھے ایک نئے نمبرسے فون آیا۔ فون ریسیو کرنے پر سلام کلام کے بعد انہوں نے اپنا نام بتایا، ’کورس ڈس کورس‘ اور ’بھیونڈی: ڈیولپمنٹ ڈی کوڈیڈ‘ کے بارے میں کچھ بتایا اور یہ بتاتے ہوئے کہ اتوار کو شام میں ساڑھے ۶؍ بجے بارہ دری ہوٹل کے بینکویٹ ہال میں اس کی خصوصی نمائش رکھی گئی ہے، شرکت کی درخواست کی۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے دفتر کے لئے نکلنے کی جلدی تھی، اسلئے ٹھیک سے ان کی باتیں سن پایا، نہ ہی سمجھ پایا البتہ اتنا ضرور سمجھ میں آیا کہ اتوار کو دستاویزی فلم کی نمائش ہے۔ دن اتوار کا تھا،اسلئے فوراً ہی حاضر ہونے پر رضا مندی ظاہر کردی۔ تب تک میں فون کرنےوالے صاحب یا ان کی ٹیم کے کسی رکن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔
یہ تفصیل میں اسلئے بتا رہا ہوں کہ ہم اپنے شہر اور اپنے شہر میں کچھ کرنےوالوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور ان کے تعلق سے کیسی رائے رکھتے ہیں۔ یہ میری کم علمی تھی کہ میں ’سی ڈی سی‘ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا،اسلئے اتوار کو کچھ جاننےوالوںسے ان کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی۔ کسی نے کہا کہ یہ رئیس شیخ کے لوگ ہوں گے جو اُن کے ترقیاتی کاموں کی نمائش کریں گے تو کسی نے کہا کہ یہ ابو عاصم اعظمی کے آدمی ہوں گے جو رئیس شیخ کی مخالفت میں کچھ بتائیں گے اور کسی نے یہ کہا کہ کارپوریشن کا الیکشن قریب آرہا ہے تو انتخابات کے دوران پیسے اینٹھنے والا کوئی گروہ ہوگا۔
مجھے تو خیر جانا ہی تھا، میں گیا اور جب ان نوجوانوں کو، ان کی کاوش کو اور ان کے عزائم کو دیکھا تو بس یہی لگا کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔‘‘ انہیں اور ان کے حوصلوں کو دیکھ کر مجھے تین ایسی ٹیموں کی یاد آئی جن کی ’سی ڈی سی ‘کی ٹیم سے کچھ حد تک مماثلت ہے۔ ان نوجوانوں کے تعارف سے قبل آئیے ایک سرسری نظر اُن تینوں ٹیموں پر ڈالتے چلیں جن کی مجھے وہاں یاد آئی۔
پہلی ٹیم کا نام ’ٹرپلی کین‘ ہے جس میں ۴؍ قانون کے طالب علم اور ۲؍ اُن کے ٹیچر شامل ہیں۔ ان لوگوں نے ۲۰؍ ستمبر ۱۸۷۸ء کو مدراس جسے آج ہم چنئی کے نام سے جانتے ہیں، انگریزی میں ایک ہفتہ روزہ اخبار شروع کیا تھا جو بعد میں روزنامہ ہوا۔ اُس اخبار کو آج ہم ’دی ہندو‘ کے نام سے جانتے ہیں۔دوسری ٹیم مارک زکربرگ اور ان کے۴؍ ساتھیوں کی ہے جنہوں نے ۴؍ فروری ۲۰۰۴ء کو’فیس بک‘کی بنیاد ڈالی تھی۔ اُس وقت مارک زکربرگ کی عمر ۲۰؍ سال تھی اور ان کے چاروں ساتھی، ہارورڈ کالج (امریکہ) میں ان کے کلاس میٹ تھے۔ تیسری ٹیم بنگلہ دیشی نژاد امریکی نوجوان جاوید کریم کی ہے جنہوں نے اپنے دو ساتھیوں ( اسٹیو چن اور چاڈہرلے) کی مدد سے۱۴؍ فروری ۲۰۰۵ء کو دنیا کو’یو ٹیوب‘ سے متعارف کرایا تھا۔ یوٹیوب پر پہلا ویڈیو جاوید کریم ہی نے اپ لوڈ کیا تھا جو ۱۸؍ سیکنڈ کا تھا۔ اُس وقت جاوید کریم کی عمر ۲۶؍ سال تھی اور وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایک فرم میں ملازمت کر رہے تھے۔
اب آئیے بات کرتے ہیں بھیونڈی کے ’سی ڈی سی‘ ٹیم کی۔ اس ٹیم میں شامل پہلا نام ’مومن محمد ذکی عبدالباری‘ کا ہے جو آرکٹیکٹ اور اکیڈمیشین ہیں اور بھیونڈی کی معروف شخصیت مرحوم عبدالباری مومن کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے آرکٹیکٹ میں ماسٹر کیا ہے اور فی الحال بھیونڈی میں ’ ایچ کے ڈیزائنس‘ میں پرنسپل آرکٹیکٹ کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز کالسیکر انجینئرنگ کالج، پنویل سے بطور لیکچرار کیا تھا۔ زیر تذکرہ دستاویزی فلم میں انہوں نے ’ریسرچ اینڈ اسکرپٹ رائٹنگ‘ کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ اس ٹیم کے دوسرے اہم ستون ’انصاری مونس ابرار احمد‘ ہیں۔ یہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز ، ممبئی میں ’ڈیولپمنٹ اسٹڈیز‘ میں ماسٹر کررہے ہیں ۔ انہوں نے بھی اس ڈاکیو مینٹری کیلئے ’ریسرچ اینڈ اسکرپٹ رائٹنگ‘ کا کام کیا ہے۔
اس فہرست میں تیسرا نام ’شیخ احسن وصی‘ کا ہے۔ بائیو ٹیک میں ایم ایس سی کرنے کے بعدسائیکولوجی میں ماسٹرکررہے ہیں۔’بھیونڈی: ڈیولپمنٹ ڈی کوڈیڈ‘ میں انہوں نے ’کیمرہ اینڈ سنیما ٹو گرامی‘ کی ذمہ داری نبھائی ہے۔انہوں نے ہی مجھے پروگرام میں آنے کی دعوت دی تھی۔ اس ٹیم کے چوتھے رکن ’انصاری محمد علی ابرار احمد‘ ہیںجو اینی میشن،گرافکس اور ویڈیو ایڈیٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی کررہے ہیں۔ اس ٹیم کےپانچویں کھلاڑی ’انصاری محمدعمر ابرار احمد‘ ہیں جو بی ایس سی( آئی ٹی) کے طالب علم ہیں اور ’سوشل میڈیا ایڈورٹائزنگ‘ کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس ٹیم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کے پانچ اراکین میں سے تین سگے بھائی ہیں۔
یوم آئین کے موقع پر ۲۶؍ نومبر کو اس دستاویزی فلم کے ۲؍ حصے ریلیز کئے گئے ہیں جبکہ اس کا تیسرا حصہ سنیچر ۲۹؍ نومبر کو جاری کیا گیا۔ اس کے اگلے ۲؍ ایپی سوڈآئندہ کچھ دنوں میں
www.youtube.com/@coursediscourse
پرجاری کئے جائیں گے۔
’بھیونڈی: ڈیولپمنٹ ڈی کوڈیڈ‘ کے نام سے بنائی گئی یہ دستاویزی فلم کوئی تفریحی’ریل‘ نہیں ہے جو بس یوں ہی چلتے پھرتے بن گئی ہو۔ اس کیلئے ان نوجوانوں نے کافی محنت کی ہے، بہت سارے لوگوں سے ملاقات کی، بہت جگہوں کا دورہ کیا اور بہت سارا مطالعہ کیا ہے۔ اس دستاویزی فلم کو بنانے میں انہوں نے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کی ہے۔ اس ڈاکیومینٹری میں انہوں نے صرف مسائل کی نشاندہی نہیں کی بلکہ اس کا حل بھی بتایا ہے۔ اس کیلئے انہوں نے۲۰۲۳ء بھیونڈی نظام پور میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ بنائے گئے بھیونڈی کے ڈیولپمنٹ پلان کا نہایت باریکی سے مطالعہ کیا ہے ، اس کے ایک ایک پہلو پر غور کیا ہے اور اس تعلق سے ماہرین سےگفتگو بھی کی ہے۔ سی ڈی سی کی ٹیم کے مطابق اس دستاویزی فلم کا مقصد بھیونڈی کے مقامی ترقیاتی چیلنجز اور سماجی ڈھانچے کو اجاگر کر کے عوامی بیداری پیدا کرنا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اپنے اس مقصد میں وہ پوری طرح سے کامیاب ہیں تاہم اس کامیابی کے ثمر سے یہ شہر اُس وقت فیضیاب ہوگا جب ان کی طرح شہر کے لوگ بھی ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔ اس دستاویزی فلم کی ریلیز کا یہ بہت اچھا موقع ہے کیونکہ جلد ہی شہر میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں، ایسے میں شہر کی ترقی کو انتخابی موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر ہم سی ڈی سی کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے، ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیں گے کہ انہوں نے شہر کی ترقی کے بارے میں سوچا اور لوگوں کو بیدار کرنے کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے، اب ہماری باری ہے۔