Inquilab Logo

دُنیا کے ۸۱ء۱؍ کروڑ افراد کے پاس کھانا نہیں ہے: رپورٹ

Updated: January 09, 2023, 12:26 PM IST | Jyotsana Shri Vastu | MUMBAI

۲۰۲۲ء میں یوکرین - روس جنگ نے دنیا میں بھکمری کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، آج کی صورتحال میں دنیا کے ۸۱ء۱؍ کروڑ لوگوں کے پاس کھانا نہیں ہے۔ یہ تعداد کل آبادی کا ۱۰؍ فیصد ہے۔

Surprisingly, in 2021, 1.93 million tons of food was thrown into the garbage all over the world; Photo: INN
تعجب کی بات ہے، ۲۰۲۱ء میں پوری دنیا میں ۹۳ء۱؍ لاکھ ٹن کھانا کچرے میں پھینکا گیا۔; تصویر:آئی این این

سال۲۰۲۲ میں یوکرین - روس جنگ نے دنیا میں بھکمری کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، آج کی صورتحال میں دنیا کے ۸۱ء۱؍ کروڑ لوگوں کے پاس کھانا نہیں ہے۔ یہ تعداد کل آبادی کا ۱۰؍ فیصد ہے۔ جہاں ایک طرف کروڑوں لوگوں کو کھانا نہیں مل رہا، وہیں دوسری جانب سالانہ ۱ء۳؍ بلین ٹن کھانا برباد ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ سنگین ہے، جس کے تئیں بیداری لانے کی اشد ضرورت ہے۔
 ہمارے ملک میں ۲۰۲۰ء میں جتنا کھانا برباد ہوا ہے اس کی اندازاً قیمت ہے ۱۴؍ ارب امریکی ڈالر یعنی ۱۱ء۱۸؍ کھرب۔
 یہی نہیں ہندوستان میں سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار کا ۴۰؍ سے ۶۰؍ فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔ دنیا میں اوسطاً ایک خاندان ہر سال ۷۴؍ کلو کھانا ضائع کرتا ہے۔
 اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۱ء میں پوری دنیا میں ۹۳ء۱؍ لاکھ ٹن کھانا کچرے میں پھینکا گیا۔ اس میں سے زیادہ تر یعنی ۵۶ء۹؍ لاکھ ٹن کچرا ہمارے گھروں سے پیدا ہوتا ہے۔
 فوڈ سروس اور ریٹیل سیکٹرز سے بالترتیب ۲۴ء۴؍ اور ۱۱ء۸؍ لاکھ ٹن کچرا نکالا گیا۔
 اگر ہم فی شخص غذا کے ضیاع کو دیکھیں تو ایک ہندوستانی اوسطاً ۵۰؍ کلو کھانا ضائع کرتا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں چین میں ایک شخص نے ۶۴؍ کلو کھانا کچرے میں پھینک دیا۔ اس معاملے میں آسٹریلیا سب سے آگے ہیں جہاں ایک شخص سالانہ ۱۰۲؍ کلو کھانا ضائع کر دیتا ہے۔
 گھروں اور ریستوران سے کھانا زیادہ مقدار میں پھینکا جاتا ہے۔ کھانے کی اشیاء جیسے دودھ، کافی، سیب، روٹی، آلو اور پاستا عام طور پر ہوٹلوں سے پھینکا جاتا ہے۔ اس لئے فاسٹ فوڈ آئٹمز اور فروزن فوڈ آئٹمز پر لگے لیبلز کو غور سے پڑھیں اور صرف اتنی ہی مقدار میں خریدیں جتنی آپ کو ضرورت ہو۔
شادی میں کھانوں کی بربادی
 ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ شادیاں ہوتی ہیں جن میں ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ شادیوں میں کھانے کے ضیاع سے بچا جا سکتا ہے اگر انتظام درست ہو اور بچ جانے والا کھانا ضرورتمندوں میں تقسیم کرنے کا پہلے سے منصوبہ بنایا گیا ہو۔ ملک کے مختلف شہروں میں کچھ تنظیمیں اس کوشش میں مصروف ہیں۔
ماحول اثر انداز ہوتا ہے
 کھانے کی بربادی سے ماحولیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس سے گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہوتی ہیں۔ دراصل جب کھانا کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے اور اسے ڈمپینگ گراؤنڈ میں ڈالا جاتا ہے تو یہ زمین کے اندر سڑنے لگتا ہے۔ اس سے میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کلورو فلورو کاربن جیسی گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ کا سبب بنتی ہیں۔ ڈمپینگ گراؤنڈ میں کھانا گلنے سے نائٹروجن گیس پیدا ہوتی ہے جو زمین کی زرخیزی کو تباہ کر دیتی ہے۔
کھانا برباد ہونے سے کیسے روکا جائے؟
 کھانا برباد ہونے سے روکنے کے لئے ری یوز، ریڈیوز اور ری سائیکلنگ تین اہم طریقے ہیں۔
جتنی ضرورت اتنا ہی سامان خریدیں
 سپر مارکیٹ یا کرانے کی دکان سے صرف وہی سامان خریدیں جس کی ضرورت ہو۔ سبزیوں کو ایک ہفتے تک ذخیرہ نہ کریں، اس سے سبزیاں خراب ہو جائیں گی اور پھینکنے میں جائیں گی۔ تازہ سبزیاں اور پھل خریدیں۔ خریداری کرتے وقت اکثر ایسی متعدد چیزیں خرید لی جاتی ہیں جس کا ہم استعمال بھی نہیں کرتے اس سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ کو جو کچھ لینا ہے اس کی ایک فہرست بنالی جائے جس کے بعد آپ ایسا کچھ نہ خریدیں جس سے کھانا ضائع ہو۔
فریزر استعمال کریں
 بچا ہوا کھانا دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے ایئر ٹائٹ کنٹینر میں محفوظ کرکے فریزر کر دیں اور بعد میں انہیں استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
ضرورتمندوں کو کھانا کھلائیں
 اکثر ہم جو کھانا پھینک دیتے ہیں ان میں سے زیادہ کھانا قابل استعمال ہوتا ہے۔ اپنے آس پاس کے بھوکے یا ضرورتمند افراد تک اضافی کھانا پہنچائیں۔ اس کے لئے مقامی سطح پر سرگرم تنظیموں کی مدد لی جا سکتی ہے۔ آپ خود اپنے ارد گرد یا معاشرے میں ایسی تنظیم بنا سکتے ہیں جو گھروں سے نکلنے والی اضافی غذا کے خراب ہونے سے پہلے ہی ضرورتمندوں تک پہنچ سکے۔
جانوروں کو کھانا کھلانا
 جانوروں کو بچا ہوا کھانا کھلانا بھی ایک اچھا متبادل ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK