Inquilab Logo

والد کی موت کے بعد بیٹے نے ٹرسٹ جاری رکھا اور۳۶۴؍لڑکیوں کو تعلیم دلائی

Updated: February 11, 2020, 5:06 PM IST | Agency | Sikar

ملک کی خدمت کسی بھی طرح اور کہیں بھی کی جاسکتی ہے۔فوج سے ریٹائرڈ مانگورام جاکھڑ اور انے کے بیٹے موہن رام کی کہانی اسے ثابت کررہی ہے۔

ٹرسٹ سے تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں
ٹرسٹ سے تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں

 سیکر : ملک کی خدمت کسی بھی طرح اور کہیں بھی کی جاسکتی ہے۔فوج سے ریٹائرڈ مانگورام جاکھڑ اور انے کے بیٹے موہن رام کی کہانی اسے ثابت کررہی ہے۔ حالات کی تنگی کے بیچ پڑھائی چھوڑنے والی لڑکیوں کو دوبارہ تعلیم سے جوڑنے کیلئے مانگو رام جاکھڑ اور موہن رام جاکھڑ نے پنشن اور تنخواہ کے پیسوں سے ٹرسٹ شروع کیا۔ والد کی موت کے بعد کھیتی سے جڑے بیٹے موہن رام نے اس خدمت خلق کے کام کو بند نہیں ہونے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گود لی گئی ۳۶۴؍ لڑکیاں آج اعلیٰ تعلیم سے جڑچکی ہیں۔۱۰؍ لڑکیاںڈاکٹراور کانسٹیبل سمیت دیگر اہم سرکاری نوکریوں تک پہنچ چکی ہیں۔
 لوسن کے رہنے والے موہن رام جاکھڑ کا کہناہے کہ والد مانگو رام جاکھڑ ۱۹۸۹ء میں فوج سے نائب صوبیدار کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔۱۹۹۷ء میں وہ بنسی والا مہیلا کالج میں گارڈ کی نوکری کرنے لگے۔ اس دوران حالات کی تنگی سے لڑکیوں کے پڑھائی چھوڑ نے کے کئی معاملات سامنے آئے۔
لڑکیوں کے درد کو قریب سے دیکھا
 لڑکیوں کے اس درد کو فوجی نے قریب سے دیکھا۔ خاندان کے لوگوں سے بات کر کے ’راج درست شکشا‘ نام سے ایک ٹرسٹ بنایا۔ ابتداء میں ضلعی تعلیمی افسر دیولتا چندوانی کی موجودگی میں ٹرسٹ نے ۱۱؍لڑکیوں کو گود لیا۔ ان کی پڑھائی خرچ نائک صوبیدار مانگورام اپنی پنشن اور چوکیداری کے بدلے ملنے والے پیسوں سے اٹھاتے رہے۔۲۰۱۷ء میں ان کی موت ہوگئی۔ والد کے ذریعہ شروع کی گئی مہم کو بیٹے نے آگے بڑھایا۔ فی الحال ٹرسٹ نے ۳۶۴؍لڑکیوںکو گود لے رکھا ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ٹرسٹ کی مدد سے پڑھائی کرنے والی۱۰؍لڑکیاں سرکاری نوکری سے منسلک ہوچکی ہیں۔ ان میں خاتون ڈاکٹر، شاردا، مونیکا، من بھری پنچایت اسسٹنٹ اور ایل ڈی سی کے عہدے پر فائز ہیں۔
لڑکیوں کے تاثرات
 گھاٹوا میں اے این ایم سنتوش بتاتی ہیں کہ ’’میرے والد کھیتی کرتے ہیں۔۲۰۱۲ء میں خاندان کی حالت ٹھیک نہیں ہونے پر پڑھائی جاری رکھنا چیلنج بن گیا تھا۔ ٹرسٹ نے پڑھائی میں مددکی اور نرسنگ کا فارم بھرنے کی فیس بھی ادا کی۔ اس کے بدولت آج میں اے این ایم بن گئی۔
راجپورا کی رہنے والیاور دہلی میں کانسٹیبل روینہ کہتی ہیں’’میرے والد کو ٹی بی ہوگئی تھی۔بیمار ہونے پر کمائی بند ہوگئی اور حالات کی تنگی کے سبب مجھے پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ ٹرسٹ کی مدد ملی تو خستہ حالی کے باوجود ایک مرتبہ پھر پڑھائی شروع کی۔ مقابلہ  جاتی امتحانات کی  تیاری کی اور دہلی پولیس کانسٹیبل کی ملازمت مل گئی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK