Inquilab Logo

مختلف علاقوں کا شہد وہاں کے پھولوں کےرس کی بنیاد پر مختلف ہوتاہے

Updated: October 20, 2021, 10:44 AM IST | Aasim Jalal | Mumbai

پانی میں ڈال کر، کپڑے پر بہا کر یا یہ دیکھ کر کہ شہد سے نوٹ گیلی ہورہی ہے یا نہیںشہد کے اصلی یا ملاوٹی ہونے کا پتہ نہیں لگایا جاسکتاہے،یہ بھی غلط فہمی ہی ہے کہ شہد جم نہیں سکتا، جبکہ شہد میں جمنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے

Dr. Najibuddin, owner of Bharat Pharmacy, used to talk to Asim Jalal, Deputy Assistant Editor of Inqilab Open in Google Translate.Picture:INN
بھارت فارمیسی کے مالک ڈاکٹر نجیب الدین انقلاب کے ڈپٹی اسسٹنٹ ایڈیٹر عاصم جلال سے گفتگو کرتے ہوئے۔ تصویر: انقلاب، سید سمیر عابدی

صحت نامہ کی یہ دوسری قسط ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔جیسا کہ  میںنے پچھلی قسط میں کہا تھا کہ کورونا کی  وبا نے ہمیں صحت کی جانب متوجہ ضرور کیا ہے مگر  دیگر مسائل اور ہماری مصروفیات اکثر اس پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ لیکن دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم اپنی صحت کی جانب توجہ دیں۔اسی مقصد سے صحت نامہ کی یہ دوسری قسط پیش کی جارہی  ہے اور آئندہ بھی ہم اس تعلق سے ہم کلام ہوتے رہیں گے۔ آج ہمارے درمیان ہیں جناب ڈاکٹر محمد نجیب الدین صاحب۔ ڈاکٹر محمد نجیب الدین صاحب ایک ایسی کمپنی کے سربرا ہ ہیں جو طبی ضروریات سے متعلق اشیا بناتی ہے۔ آپ کی کمپنی بھارت فارمیسی کسی تعارف کی محتاج نہیں  ہے اور نہ ہی اس کے  پروکٹس بھارت ہنی اور نسخہ عربیہ کا  تعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
  شاید ہی کوئی شخص ہو جو شہد کی افادیت سے واقف نہ ہو۔ طب نبویؐ میں شہد کو جو اولیت حاصل ہے ، ہر دور کے لوگ اس کے معترف ہیں۔ آج ہم اسی موضوع پر قدرے  تفصیل سے گفتگو کریںگے۔ ہمارے درمیان  ہمارے مہمان   ڈاکٹر  نجیب الدین صاحب  ہیں جو  شہد کی گوناگوں خصوصیات میں مہارت رکھتے ہیں،اس کی افادیت،اس کے اصلی اور کم اصلی ہونے کی پرکھ اور اس کی دیگر معاملات سے کافی کچھ ان کی واقفیت ہے، ہم چاہیں گے کہ ان کے تجربات  اوران کی معلومات سے نہ صرف استفادہ کریں بلکہ اپنے ناظرین کو بھی اس سے مستفید کریں۔ تو آیئے ہم کلام ہوتے ہیں ڈاکٹر نجیب الدین صاحب سے :
 ایک عام مسئلہ شہد کے  اصلی اور کم اصلی  ہونے کا ہے۔ شہد کے مختلف برانڈ مارکیٹ میں دستیاب ہیں، کون سا شہد اصلی ہے اور کون ساکم اصلی  یہ جاننا ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ الگ الگ لوگ شہد کوپرکھنے کی الگ الگ کسوٹیاں  بتاتے ہیں۔  عام آدمی کیسے جانےکہ شہد اصلی ہے یا ملاوٹی؟
 اگر اصلی اور نقلی شہد کی پہچان اتنی آسان ہوتی کہ پانی میں ڈال کر دیکھ سکتے، یا کاغذ پر ڈال کر دیکھ سکتے تو یہ جو انڈسٹری میں اتنا زیادہ نقلی شہد ہے وہ نہیں چل رہا ہوتا۔ نقلی شہد کو پہچاننا اتنا آسان نہیں ہے۔ نقلی شہد کو جاننے کیلئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کن اقسام کے نقلی شہد مارکیٹ میں  موجود  ہیں۔ مولاسس، انورٹ شوگر، ہائی فرکٹوس ،کورن سیرپ اور رائس سیرپ۔ یہ چار قسم کے نقلی شہد آج مارکیٹ میں ہیں۔  پہلے لوگ کہتے تھے کہ گڑ کی ملاوٹ ہوتی ہے لیکن اب یہ   پرانی بات ہوگئی، اب گڑ کوئی نہیں ملاتا بلکہ آج کل  جدید قسم کے سیرپ ملائے جارہے ہیں۔ ان سیرپس میں خاص بات یہ ہے کہ یہ دیکھنے میں شہد جیسے ہی  بلکہ شہد سے بھی زیادہ ہی گاڑھے ہوتے ہیں اس لئے پانی  میں ڈال کر جانچ کرنے والے ان سیرپس کو اصلی شہد ہی سمجھتے ہیں۔ اصلی اور نقلی شہد کو پہچاننے کیلئے لیباریٹری میں جانا ضروری ہے مگر موجودہ نقلی شہد لیباریٹری کی جانچ سے بھی بچ نکلتے ہیں،  رائس سیرپ  ایف ایس ایس  آئی کی تمام شرائط پر صحیح   ثابت ہوتا ہے۔نومبر ۲۰۱۸ء  میں سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ   نے ہندوستان میں دستیاب تمام شہد کی ایف ایس ایس  آئی  شرائط کے مطابق جانچ کی  تو سارے پاس ہو گئے مگر جب اسی کو انٹراٹیک جرمن لیب میں چیک کیاگیا جہاں اصلی شہد کا حقیقی ٹیسٹ ہوتا ہےاور جس کی بنیاد پر شہد برآمد ہوتا ہے،  تو کئی بڑے بڑے برانڈ فیل ہوگئے۔اس کا کافی بڑا ایشو بنا تھا اور ڈاؤن ٹو ارتھ سوسائٹی نے اس کے بارے میں تفصیل سے لکھا بھی تھا۔ چین میں    ’’آل پاس سیرپ‘‘ کے نام سے ایک سیرپ کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے۔ وہ سیرپ ایف ایس  ایس آئی کے پیرامیٹرس میں پاس ہوجاتا ہے۔ اسے  یہاں لاکر ایف ایس  ایس آئی سے پاس کرواکر ڈبہ بند کرکے فروخت کیا جارہا تھا۔ تو کہاں آپ سوچ رہے تھے کہ پانی  میں ڈال کرپتہ کرسکتے  ہیںمگر کہاں تو لیباریٹری میں بھی نقلی شہد پکڑا نہیں جارہا۔ اصل میں    پانی میں  ڈال کر شہد کے اصلی اور نقلی ہونے کی جانچ کا طریقہ ہی گمراہ کن ہے۔ بنیادی طور پر یہ فالس پازیٹیو  اور فالس نگیٹیو ریزلٹ دیتاہے۔ فالس پازیٹیو کا مطلب یہ ہے کہ نقلی شہد کو اصلی بتادیگا اور فالس نگیٹیو یعنی  اصلی شہد کو نقلی بتادیگا۔
  اصل میں شہد بنتا ہے پھولوں کے رس سے، جب شہد کی مکھی پھولوں کا رس چوستی ہے اور واپس لا کر اسے ایک  عمل سے گزار کر چھتے میں اکٹھا کرتی ہےاور پھر اس کی نمی کو کم کرتی ہے تو شہد بنتاہے۔ پھولوں کے رس  کی نمی  ۶۰؍ سے ۷۰؍ فیصد  ہوتی ہے جبکہ شہد کی نمی کی سطح ہوتی   ہے ۱۸؍ سے ۲۰؍  فیصد ہےیا بعض اوقات ۲۲؍ فیصد تک۔ پھولوں سے  چوسے ہوئے رس کی نمی کو مکھی  ایک مخصوص طریقے سے کم کرتی ہے۔ وہ رس لائے گی،اسے  اپنے چھتے میں جمع کریگی پھر آپ جو بھنبھنانے کی آواز سنتے ہیں اس کے ذریعہ  اصل میں مکی  رس کو سکھا رہی ہوتی ہے، جب اس کی نمی گھٹ کر ۱۸؍ فیصد ہوجاتی ہے تو وہ اسے موم سے بند کردیتی ہے۔ یہ طریقہ ہے شہد بننے کا۔ اس لئے جب  شہدکی نمی ۲۰؍ سے ۲۵؍ فیصد ہوتب اگر اسے نکال لیں تو شہد پتلا ہوگا۔اس شہد کو اگر پانی سے جانچ کریں گے تو آپ کو نقلی لگے گا کیوں وہ جلد گھل جائےگا۔ بنیادی طور پر پانی میں ڈال کر شہد کو پرکھنے کا جو طریقہ ہے وہ اس کی   کثافت ناپنے کا طریقہ ہے۔  زیادہ کثافت والا کوئی بھی مائع پانی میں سیدھے نیچے جاکر بیٹھ جائے گا۔اس لئے یہ  ایک مفروضہ ہی  ہے کہ گلاس میں  پانی لے کر اس میں شہد ڈال کر اس کے اصلی یا نقلی ہونے کا پتہ لگایا جاسکتاہے۔اسی طرح کپڑے پر بہا کر  دیکھنا، نوٹ گیلی ہورہی  ہے یا نہیں یہ دیکھنا، یہ سب کثافت کی جانچ ہیں  اور   سب گمراہ کن ہیں۔ 
  ایک عام تاثر یہ ہے کہ اگر شہد جم جائے تو وہ شہد نقلی ہے،اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا اصلی شہد بھی جم سکتاہے؟
  آپ دنیا کے کسی بھی برانڈ کے شہد کو اٹھا لیجئے۔اس میں  یہ جملہ ضرور لکھا ہوگا کہ’’شہد کو ریفریجریٹر میں نہ رکھیں ، اس میں جمنے کی صلاحیت ہے۔‘‘ یہ پیغام دنیا کے کسی بھی شہد  کے ڈبے پرہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شہد میں جمنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی کہتے ہیں کہ اگر جم جائے تو شہد نقلی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عوام میں پھیلی اسی   غلط فہمی کی وجہ سے کوئی بڑا برانڈ  اصلی اور قدرتی شہد دینا نہیں چاہتا۔اصل میں اتنے بڑے پیمانے پر کام کرتے ہوئے مختلف قسم کے شہد کو الگ الگ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم یہ کرتے ہیں کہ جس  علاقے کا شہد کم جمتا ہے اسے الگ رکھتے  ہیں، جو زیادہ جمتا ہے اسے الگ رکھتے ہیں، جو جم گیا اسے شہد کی مصنوعات میں  استعمال کرلیا جاتا ہے۔ یہ آسانی بڑے برانڈس کو حاصل نہیں ہوتی  کیوں کہ وہ بہت بڑے پیمانے پر شہد حاصل کرتے ہیں۔  اگر وہ شہد کو حاصل کرکے یوں ہی بوتل میں بھر کر بیچ دیں اور وہ جم جائے تو لوگ کہیں گے کہ یہ تو نقلی شہد ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جوخالص شہد کو بازار میں آنے سے روکتی ہے اس لئے ملاوٹی شہد کیلئے صرف برانڈس  ذمہ دار نہیں  عوام بھی  ذمہ دار ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جو جم رہا ہے اس شہد کےاصلی ہونے کے امکانات   اس شہد کے مقابلے میں زیادہ ہیں  جو نہیں جم رہا کیوں کہ قوی امکان ہے کہ اس میں ایسی چیز ملا دی گئی ہو جو اسے جمنے سے روکے۔ شہد کا جمنا یا نہ جمنا اس بات پر منحصر ہے کہ مکھی نے کیسے پھولوں کا رس   حاصل کیا ہے۔
شہد میں جو ملاوٹ ہوتی ہے، جیسے رائس سیرپ وغیرہ ، تواس کے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟
 ملاوٹ تو الگ الگ قسم کی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور سفید شکر،  یہ  پہلے ہی بہت زیادہ نقصاندہ ہے۔اسے جب آپ شہد کی شکل دینے کیلئے اس میں مزید ملاوٹ کریں گے  اور کسی عمل سے گزاریں گے تو اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مزید کتنا نقصاندہ ہوجائےگا ۔اس کی وجہ سے ذیابیطس، تھائیرائڈ، امراض قلب اور گردے وغیرہ کے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
ہم نے سنا ہے کہ الگ الگ علاقوں میں الگ الگ موسم میں  جو شہد حاصل ہوتا ہے اس کے فوائد،اس کی ہیت، اس کا رنگ الگ الگ ہوتا ہے؟ 
 آپ نے بازار میں ملنے والے شہد کے بارے میں دیکھا ہوگا کہ وہ ایک ہی طرح کا ہوتا ہے۔ اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہر علاقے کا شہد وہاں کے پھولوں کےرس کی بنیاد پر الگ الگ ہوتاہے۔اس کا مزہ، رنگ، کثافت، خوشبو سب کچھ الگ الگ ہوگا۔ ہمارے بھارت ہنی کی خصوصیت یہی ہے کہ ہم الگ الگ علاقوں سےشہد لا کر الگ الگ پیک کرتے ہیں۔ یہ چیز آپ کو کمرشیل شہد میں نہیں مل سکتی۔ ہمارے پاس جامن کا شہد ہے، لیچی کا شہد ہے جس سے اکثر  لوگ کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ کیااس میں کوئی خوشبو ملائی جاتی ہے۔ اصل میں ہم الگ الگ شہد الگ الگ پیک کرنے کام بہت پہلے سے کررہے ہیں جبکہ ابھی ۲۰۱۸ء میں ایف ایس ایس آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر شہد بناتے ہوئے مکھی نے ۴۰؍ فیصد رس کسی ایک ہی قسم کے پھول سے لیا ہے تو آپ شہد کو اس کا نام دے سکتے ہیں۔
مطلب یہ کہ اگر میرےسامنے دو شہد ہوں اوران کی رنگت یا مزہ الگ الگ ہوتو یہ ممکن ہے، ایسا نہیں کہ ان میں سے کوئی ایک ہی اصلی ہوگا؟
 اصل میں  مختلف علاقوں کا شہد رنگ، ذائقہ اور خوشبو میں  الگ الگ ہی ہوتا ہے، اگر سارے شہد ایک جیسے ہوں تو شبہ کرنا چاہئے کہ یہ فیکٹری کا پروڈکٹ تونہیں۔آپ ایک معمولی آم کو دیکھیں ، اس میں کتنی ویرائٹی ہوتی ہے،اسی طرح شہد میں بھی ہے۔
 اب شہد کی پیداوار کی طرف آتے ہیں، ایک فطری عمل ہوتا ہے اور دوسرا طریقہ مکھیوں کی فارمنگ کا ہے، مجھے بتائیں  کہ دونوں میں کیا فرق ہے؟ کیا مکھیوں کے بنائے ہوئے چھتے کا شہد  بی فارمنگ سے حاصل شدہ شہد زیادہ فائدہ مند ہوتاہے ۔ یہ بھی بتائیں کہ مکھیوں کی فارمنگ کیسے ہوتی ہے؟
   اکثر لوگ یہی سمجھتے ہی کہ جنگلی ہنی  ہی زیادہ فائدہ مند ہے، مکھی پالن کے ذریعہ حاصل کیاگیا شہد اتنا فائدہ مند نہیں ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔  اصل میں مکھیوں کے پالنے کا جو جدید طریقہ ہے وہ بہت ہی صاف ستھرا ہے۔ جنگلی مکھی کے چھتے سے شہد نکالنے کیلئے ہم پہلے تو مکھی کے چھتے کوتباہ کر دیتے ہیں اور پھر اسے نچوڑ کر شہد اکٹھا کرتے ہیں۔اس طرح ہم  شہد کی مکھیوں کا گھر ختم کردیتے ہیں،اگر ان ہی مکھیوں کو پھر شہد بنانا ہوتو انہیں پہلے گھر تعمیر کرنا ہوگا جبکہ اپیاری کا جو نیا طریقہ ہے اس میں جب شہد نکالنے کی باری آتی ہے تو  مکھیوں کیلئے  بنائے گئےچھتے کی پلیٹس نکال کر انہیں ایکس ٹریکٹر میں ڈال کرصرف شہد نکال لیا جاتا ہے۔ اس طرح مکھیاں بھی محفوظ رہتی ہیں  اور ان کا گھر بھی جہاں وہ دوبارہ  شہد اکٹھا کرسکتی ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ اپیاری ہنی کا پروڈکشن بڑھ رہاہے کیوں کہ اس سے مکھیوں کو نقصان نہیں پہنچتا اوران کی نسل بڑھتی ہے۔
 اب مجھے  یہ بتائیے کہ بھارت ہنی میں ایسی کیا بات ہے کہ اسے آپ سب سے امتیازی بتاتےہیں؟
  ہمارا ایک سادہ سا طریقہ ہے کہ ہم شہد صرف  وہاں  سے لاتے ہیں  جہاں  نکالا جاتاہے۔ یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ہم ۳۵؍ سال سے اس فیلڈ میں ہیں۔ جہاں  جہاں بھی شہد ہوتا ہے، ہم وہاں چلے جاتے ہیں۔ مثال کےطور پر ہمارے پاس کشمیری شہد  ہے۔ کشمیر میں  پھولوں  کا موسم وسط مئی میں ہوتا ہے۔ اس وقت وہاں  بی کیپرس جمع ہوجاتے ہیں۔اس وقت ہم بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور وہیں  سے خرید کر لے آتے ہیں۔ 
اس کے علاوہ آپ کی کمپنی اور کیا بناتی ہے؟
  بنیادی طور پر ہماری توجہ مختلف قسم کے شہد پر ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا ایک مقبول پروڈکٹ ہے نسخہ عربیہ۔ یہ وزن گھٹانے، امراض قلب اور ہاضمے کیلئے مفید ہے۔ یہ اصل میں پرانا نسخہ ہے ۔ہم نے اسے سلیقے سے بنا کر لوگوں  تک پہنچایا ہے۔  اس کے علاوہ بھی کئی پروڈکٹس ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK