Inquilab Logo

اردو کی ۱۰؍ مشہور کتابوں کا تعارف: پہلی قسط

Updated: Dec 1, 2023, 6:14 PM IST | Afzal Usmani

اردو ادب کا دامن بہت وسیع ہے۔اس کے دامن میں سیکڑوں ایسی کتابیں ہیں جنہیں شہرت دوام حاصل ہوئی ہے۔ ان کتابوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قاری اس کے سحر سے جلدی نکل نہیں پاتا اور ایک مرتبہ پڑھنے کے باوجود اس کی تشنگی ختم نہیں ہوتی۔ مندرجہ ذیل کتابیں اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں جو اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے ادبی دنیا میں شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ تمام تصاویر:آئی این این ،یوٹیوب،ایکس

X کتاب کا نام: دیوان غالب۔ مصنف: مرزا اسد اللہ خاں غالب۔ سن اشاعت: ۱۸۴۱ء: ’دیوان غالب‘ مرزا غالب کی اور اردو شعر و ادب کی سب سے مشہور کتاب ہے۔ غالب کا دیوان ان ’’دواوین‘‘ (دیوان کی جمع) میں سے ایک ہے جسے سب سے زیادہ طباعت کا شرف حاصل ہے۔ دیوان غالب، مرزا غالب کی حیات میں کل ۵؍ مرتبہ شائع ہوئی۔ اس میں ۲۰۰؍ سے زائد غزلیں، قطعات، رباعیات اور ۵؍ قصائد شامل ہیں ۔ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ بقول مجنوں گورکھپوری ’’دیوان غالب نے ہم کو صرف نئے زاویوں اور نئے انداز سے محسوس کرنا اور سوچنا نہیں سکھایا بلکہ اظہار کا نیا سلیقہ بھی بتایا۔‘‘اس کتاب میں مضامین کا تنوع اور انداز بیاں سحر انگیز ہے ۔ اردو سے محبت رکھنے والا ہر قاری اس کتاب کو پڑھنا پسند کرتا ہے۔یہ اس کتاب کی مقبولیت کا راز ہی ہے کہ ۱۵۰؍ سال گزر جانے کے بعد بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔
1/10

کتاب کا نام: دیوان غالب۔ مصنف: مرزا اسد اللہ خاں غالب۔ سن اشاعت: ۱۸۴۱ء: ’دیوان غالب‘ مرزا غالب کی اور اردو شعر و ادب کی سب سے مشہور کتاب ہے۔ غالب کا دیوان ان ’’دواوین‘‘ (دیوان کی جمع) میں سے ایک ہے جسے سب سے زیادہ طباعت کا شرف حاصل ہے۔ دیوان غالب، مرزا غالب کی حیات میں کل ۵؍ مرتبہ شائع ہوئی۔ اس میں ۲۰۰؍ سے زائد غزلیں، قطعات، رباعیات اور ۵؍ قصائد شامل ہیں ۔ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ بقول مجنوں گورکھپوری ’’دیوان غالب نے ہم کو صرف نئے زاویوں اور نئے انداز سے محسوس کرنا اور سوچنا نہیں سکھایا بلکہ اظہار کا نیا سلیقہ بھی بتایا۔‘‘اس کتاب میں مضامین کا تنوع اور انداز بیاں سحر انگیز ہے ۔ اردو سے محبت رکھنے والا ہر قاری اس کتاب کو پڑھنا پسند کرتا ہے۔یہ اس کتاب کی مقبولیت کا راز ہی ہے کہ ۱۵۰؍ سال گزر جانے کے بعد بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔

X کتاب کا نام: آگ کا دریا۔ مصنف: قرۃالعین حیدر۔ سن اشاعت: ۱۹۵۹ء: ’آگ کا دریا‘ کا شمار قرۃ العین حیدر کے شہرہ آفاق ناول میں ہوتا ہے۔انہوںنے یہ ناول۱۹۵۷ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور اس کی اشاعت۲؍ برس بعد ممکن ہوئی تھی۔ یہ ناول ۴؍ حصوں میں منقسم ہے۔اردو میں یہ ایک انوکھی ساخت کا ناول ہے جس کی کہانی ڈھائی ہزار سال پہلے شروع ہوتی ہے اور ۱۹۴۷ء پر آکر ختم ہوتی ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہ محیط اس کہانی کو سنبھالنا کسی عام مصنف کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کیلئے قرۃالعین جیسی مصنفہ ہی درکارتھیں جسے سر زمین ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ ہی ازبر نہیں تھی بلکہ فِکشن میں اس تاریخ کو ایک پس منظر کے طور پر برتنے کا سلیقہ بھی آتا تھا۔آگ کا دریا میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے ۔اس ناول کے مرکزی کردارگوتم، چمپا، کمال اور سائرل ہیں ۔۱۹۹۸ء میں اس کا انگریزی ترجمہ’ ریور آف فائر‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
2/10

کتاب کا نام: آگ کا دریا۔ مصنف: قرۃالعین حیدر۔ سن اشاعت: ۱۹۵۹ء: ’آگ کا دریا‘ کا شمار قرۃ العین حیدر کے شہرہ آفاق ناول میں ہوتا ہے۔انہوںنے یہ ناول۱۹۵۷ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور اس کی اشاعت۲؍ برس بعد ممکن ہوئی تھی۔ یہ ناول ۴؍ حصوں میں منقسم ہے۔اردو میں یہ ایک انوکھی ساخت کا ناول ہے جس کی کہانی ڈھائی ہزار سال پہلے شروع ہوتی ہے اور ۱۹۴۷ء پر آکر ختم ہوتی ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہ محیط اس کہانی کو سنبھالنا کسی عام مصنف کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کیلئے قرۃالعین جیسی مصنفہ ہی درکارتھیں جسے سر زمین ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ ہی ازبر نہیں تھی بلکہ فِکشن میں اس تاریخ کو ایک پس منظر کے طور پر برتنے کا سلیقہ بھی آتا تھا۔آگ کا دریا میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے ۔اس ناول کے مرکزی کردارگوتم، چمپا، کمال اور سائرل ہیں ۔۱۹۹۸ء میں اس کا انگریزی ترجمہ’ ریور آف فائر‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔

X کتاب کا نام: سیرۃ النبیؐ۔ مصنف: علامہ شبلی نعمانی۔ سن اشاعت: ۱۹۱۷ء: سیرت نبویؐ پر آج بھی اردو زبان میں سب سے اہم کتاب علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سلیمان ندوی کی ’’سیرۃ النبی ﷺ‘‘ ہے۔اس کتاب کی تالیف اولاً علامہ شبلی نعمانی نے شروع کی، انہوں نے پہلی دو جلدیں لکھیں کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ باقی چار جلدوں کو ان کے بہترین شاگرد اور رفیق سید سلیمان ندوی نے مکمل کیا۔ سات ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب نہ صرف اردو زبان بلکہ دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی بہترین کتب سیرت میں شمار کی جاتی ہے۔سیرت النبیؐ کی پہلی جلد کا پہلا ایڈیشن ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا اور آخری چھٹی جلد ۱۹۳۸ء میں مکمل ہوئی۔ یہ کتاب محسن انسانیت کی سیرت پر منفرد اسلوب کی حامل ایک جامع کتاب ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیرت پاک کو ایک مورخ اور ایک سوانح نگار کےساتھ ایک فلسفی اور مدبر کی نگاہ سے بھی دیکھا گیاہے۔
3/10

کتاب کا نام: سیرۃ النبیؐ۔ مصنف: علامہ شبلی نعمانی۔ سن اشاعت: ۱۹۱۷ء: سیرت نبویؐ پر آج بھی اردو زبان میں سب سے اہم کتاب علامہ شبلی نعمانی اور مولانا سلیمان ندوی کی ’’سیرۃ النبی ﷺ‘‘ ہے۔اس کتاب کی تالیف اولاً علامہ شبلی نعمانی نے شروع کی، انہوں نے پہلی دو جلدیں لکھیں کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ باقی چار جلدوں کو ان کے بہترین شاگرد اور رفیق سید سلیمان ندوی نے مکمل کیا۔ سات ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب نہ صرف اردو زبان بلکہ دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی بہترین کتب سیرت میں شمار کی جاتی ہے۔سیرت النبیؐ کی پہلی جلد کا پہلا ایڈیشن ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا اور آخری چھٹی جلد ۱۹۳۸ء میں مکمل ہوئی۔ یہ کتاب محسن انسانیت کی سیرت پر منفرد اسلوب کی حامل ایک جامع کتاب ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیرت پاک کو ایک مورخ اور ایک سوانح نگار کےساتھ ایک فلسفی اور مدبر کی نگاہ سے بھی دیکھا گیاہے۔

X کتاب کا نام: غبار خاطر۔ مصنف:مولانا ابوالکلام آزاد ۔ سن اشاعت: ۱۹۴۶ء:’غبارِخاطر‘ مولانا ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ کتاب میں شامل تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس، بھیکم پور (علی گڑھ) کے نام لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۵ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا آزاد جب قلعہ احمد نگر میں قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کر رہے تھے تو ان سے کسی کو ملاقات کی اجازت تھی نہ خط و کتابت کی۔ ایام اسیری کو گزارنے کیلئے اپنے دل کی بھڑاس خط کی شکل میں لکھنا شروع کی۔ انہیں صرف خط لکھنے کی اجازت تھی اسے ارسال کرنے کی نہیں۔ بعد ازاں یہ خطوط ۱۹۴۶ء میں غبار خاطر کے نام سے شائع ہوکر مقبول ہوئے۔ اس کتاب میں ۲۴؍ خطوط ہیں۔ غبار خاطر کو اردو ادب میں مختلف النوع طرز کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ مولانا کی خوبصورت طرز تحریر اور انتخا ب موضوعات ،کتاب کو حیات جاودانی بخشتی ہیں۔
4/10

کتاب کا نام: غبار خاطر۔ مصنف:مولانا ابوالکلام آزاد ۔ سن اشاعت: ۱۹۴۶ء:’غبارِخاطر‘ مولانا ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ کتاب میں شامل تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس، بھیکم پور (علی گڑھ) کے نام لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۵ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا آزاد جب قلعہ احمد نگر میں قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کر رہے تھے تو ان سے کسی کو ملاقات کی اجازت تھی نہ خط و کتابت کی۔ ایام اسیری کو گزارنے کیلئے اپنے دل کی بھڑاس خط کی شکل میں لکھنا شروع کی۔ انہیں صرف خط لکھنے کی اجازت تھی اسے ارسال کرنے کی نہیں۔ بعد ازاں یہ خطوط ۱۹۴۶ء میں غبار خاطر کے نام سے شائع ہوکر مقبول ہوئے۔ اس کتاب میں ۲۴؍ خطوط ہیں۔ غبار خاطر کو اردو ادب میں مختلف النوع طرز کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ مولانا کی خوبصورت طرز تحریر اور انتخا ب موضوعات ،کتاب کو حیات جاودانی بخشتی ہیں۔

X کتاب کا نام: توبتہ النصوح۔مصنف: ڈپٹی نذیر احمد ۔ سن اشاعت: ۱۸۷۷ء:’توبتہ النصوح‘ شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا اور شاہکار ناول ہے جو ۱۸۷۷ء میں شائع ہوا۔ معاشرتی زندگی پراردو زبان میں اس کا شمار اولین ناولوں میں ہوتا ہے۔یہ ناول مکالمے کی صورت میں لکھا گیا ہے ۔ اس کے ذریعے یہ پیغام دیاگیا ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی نہیں ہے۔ اس کی پرورش اس طرح ہونی چاہئے کہ اس میں نیکی اور دینداری کے جذبات پیدا ہوں۔ مکمل کتاب ۱۲؍ فصلوں پر مشتمل ہے اور ہرفصل الگ الگ عنوان سے قائم کیا گیا ہے ۔ ناول کی پوری کہانی ایک خواب کے گرد گھومتی ہے۔اس کا مرکزی کردار نصوح، خواب میں اپنی موت اور اپنا حشر دیکھتا ہے،بیدار ہونے پر یہ کیفیت اس پر غالب آجاتی ہے اوروہ یہ خواب اپنی بیوی فہمیدہ کو بتاتا ہے۔ پورے ناول میں مقصدیت، وعظ، پند و نصائح اورمعاشرتی اصلاح پر زوردیا گیا ہے۔ اس ناول کا تعارف مالک رام نے لکھا ہے۔
5/10

کتاب کا نام: توبتہ النصوح۔مصنف: ڈپٹی نذیر احمد ۔ سن اشاعت: ۱۸۷۷ء:’توبتہ النصوح‘ شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا اور شاہکار ناول ہے جو ۱۸۷۷ء میں شائع ہوا۔ معاشرتی زندگی پراردو زبان میں اس کا شمار اولین ناولوں میں ہوتا ہے۔یہ ناول مکالمے کی صورت میں لکھا گیا ہے ۔ اس کے ذریعے یہ پیغام دیاگیا ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی نہیں ہے۔ اس کی پرورش اس طرح ہونی چاہئے کہ اس میں نیکی اور دینداری کے جذبات پیدا ہوں۔ مکمل کتاب ۱۲؍ فصلوں پر مشتمل ہے اور ہرفصل الگ الگ عنوان سے قائم کیا گیا ہے ۔ ناول کی پوری کہانی ایک خواب کے گرد گھومتی ہے۔اس کا مرکزی کردار نصوح، خواب میں اپنی موت اور اپنا حشر دیکھتا ہے،بیدار ہونے پر یہ کیفیت اس پر غالب آجاتی ہے اوروہ یہ خواب اپنی بیوی فہمیدہ کو بتاتا ہے۔ پورے ناول میں مقصدیت، وعظ، پند و نصائح اورمعاشرتی اصلاح پر زوردیا گیا ہے۔ اس ناول کا تعارف مالک رام نے لکھا ہے۔

X کتاب کا نام: باغ و بہار۔ مصنف: میر امن دہلوی ۔ سن اشاعت: ۱۸۰۴ء:’باغ و بہار‘ میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جوانہوں نے فورٹ ولیم کالج ،کلکتہ میں جان گل کرسٹ کی فر مائش پر لکھی تھی۔ یہ کتاب میر عطا حسین خان تحسین کی فارسی تصنیف’ نو طرز مرصع‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ میر امن نے گل کرسٹ کی فرمائش پر ۱۸۰۱ء میں اسے لکھنا شروع کیا،۱۸۰۲ ء میں اسے مکمل کرلیا اور نظر ثانی کے بعد مکمل ایڈیشن ۱۸۰۴ء کو منظر عام پر آیا ۔گل کرسٹ کو باغ و بہار اتنی پسند آئی کہ انہوں نے میر امن کو بطور انعام ۱۰۰؍ روپے دیئے تھے۔اس داستان میں چار درویشوں کی کہانی کو نہایت دلچسپ اندازمیں بیان کیا گیا ہے۔ اس داستان میں قصہ در قصہ کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے کئی ضمنی واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنے زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کتاب کو ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب قرار دیا ہے۔
6/10

کتاب کا نام: باغ و بہار۔ مصنف: میر امن دہلوی ۔ سن اشاعت: ۱۸۰۴ء:’باغ و بہار‘ میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جوانہوں نے فورٹ ولیم کالج ،کلکتہ میں جان گل کرسٹ کی فر مائش پر لکھی تھی۔ یہ کتاب میر عطا حسین خان تحسین کی فارسی تصنیف’ نو طرز مرصع‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ میر امن نے گل کرسٹ کی فرمائش پر ۱۸۰۱ء میں اسے لکھنا شروع کیا،۱۸۰۲ ء میں اسے مکمل کرلیا اور نظر ثانی کے بعد مکمل ایڈیشن ۱۸۰۴ء کو منظر عام پر آیا ۔گل کرسٹ کو باغ و بہار اتنی پسند آئی کہ انہوں نے میر امن کو بطور انعام ۱۰۰؍ روپے دیئے تھے۔اس داستان میں چار درویشوں کی کہانی کو نہایت دلچسپ اندازمیں بیان کیا گیا ہے۔ اس داستان میں قصہ در قصہ کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے کئی ضمنی واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنے زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کتاب کو ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب قرار دیا ہے۔

X کتاب کا نام: آپ بیتی۔ مصنف: عبدالماجد دریا بادی۔ سن اشاعت:۱۹۷۸ء:یہ کتاب مولاناعبدالماجد دریا بادی کی اپنے حالات و آثار پر لکھی گئی خودنوشت ہے۔اس خودنوشت میں مولانا نے اپنی زندگی کے حالات نہایت غیر جانبداری سے بیان کئے ہیں۔اس میں انہوںنے اپنے عہد کے پس منظر کی تفصیل آغاز ہی میں مہیا کردی ہے۔مولانا عبدالماجد نے ۱۹؍ویں صدی کے شروع میں ہندوستان کی معاشی حالت اور سیکولر حکومت کے ظلم وستم جیسی وہ تمام ضروری تفصیلات فراہم کردی ہیں جن کے بغیر ۱۹؍ ویں صدی کے اواخر کے متوسط زمیندار گھرانوں کے رجحانات،عادات و رسوم،توہمات اور عقائد و اعمال کی تفہیم آسان نہیں تھی۔یہ خودنوشت ۵۱؍ ابواب پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں مولانا کےانشا پردازی کے اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس میں لکھنؤ کی ثقافت وتہذیب ،مشاہیر دین و ادب اور ممتاز معاصرین واحباب کے تذکرے اور چلتی پھرتی تصویریں بھی موجود ہیں۔
7/10

کتاب کا نام: آپ بیتی۔ مصنف: عبدالماجد دریا بادی۔ سن اشاعت:۱۹۷۸ء:یہ کتاب مولاناعبدالماجد دریا بادی کی اپنے حالات و آثار پر لکھی گئی خودنوشت ہے۔اس خودنوشت میں مولانا نے اپنی زندگی کے حالات نہایت غیر جانبداری سے بیان کئے ہیں۔اس میں انہوںنے اپنے عہد کے پس منظر کی تفصیل آغاز ہی میں مہیا کردی ہے۔مولانا عبدالماجد نے ۱۹؍ویں صدی کے شروع میں ہندوستان کی معاشی حالت اور سیکولر حکومت کے ظلم وستم جیسی وہ تمام ضروری تفصیلات فراہم کردی ہیں جن کے بغیر ۱۹؍ ویں صدی کے اواخر کے متوسط زمیندار گھرانوں کے رجحانات،عادات و رسوم،توہمات اور عقائد و اعمال کی تفہیم آسان نہیں تھی۔یہ خودنوشت ۵۱؍ ابواب پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں مولانا کےانشا پردازی کے اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس میں لکھنؤ کی ثقافت وتہذیب ،مشاہیر دین و ادب اور ممتاز معاصرین واحباب کے تذکرے اور چلتی پھرتی تصویریں بھی موجود ہیں۔

X کتاب کا نام: قواعد اردو۔مصنف:مولوی عبد الحق۔ سن اشاعت:۱۹۱۴ء:’قواعد اردو‘ مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ اہم کتاب ہے جو اردو زبان کے قواعد کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے۔ مولوی عبدالحق نے یہ کتاب ۱۹۱۴ء میں دار الاشاعت انجمن ترقی اردو لکھنو سے شائع کی تھی۔یہ کتاب مولوی عبدالحق نے اس زمانے میں لکھی تھی جب وہ اورنگ آباد کے صدر مہتمم تعلیمات تھے۔یہ کتاب انگریزی قواعد نویسی کے اصولوں پر مرتب کی گئی تھی جس میںانہوں نے نہایت آسان زبان میں آسان طریقوں سے اردو زبان کے قواعد کو سمجھایا ہے۔ابتدا میں زبان ، الفاظ اور حرف کی تعریف، حروف کے اقسام بیان کئے ہیں۔ اس کے بعد مختلف فصلوں میں علم ہجا، حروف تہجی، اسم ، جنس، صفت، ضمیر،فعل کی تعریف اور اقسام مع مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ صرف ونحو کی ترکیبات اور جملوں کے اقسام کو بھی سمجھایا گیا ہے۔ اردو کے اساتذہ اور طلبہ کیلئے یہ کتاب بہترین رہنما ثابت ہوگی۔
8/10

کتاب کا نام: قواعد اردو۔مصنف:مولوی عبد الحق۔ سن اشاعت:۱۹۱۴ء:’قواعد اردو‘ مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ اہم کتاب ہے جو اردو زبان کے قواعد کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے۔ مولوی عبدالحق نے یہ کتاب ۱۹۱۴ء میں دار الاشاعت انجمن ترقی اردو لکھنو سے شائع کی تھی۔یہ کتاب مولوی عبدالحق نے اس زمانے میں لکھی تھی جب وہ اورنگ آباد کے صدر مہتمم تعلیمات تھے۔یہ کتاب انگریزی قواعد نویسی کے اصولوں پر مرتب کی گئی تھی جس میںانہوں نے نہایت آسان زبان میں آسان طریقوں سے اردو زبان کے قواعد کو سمجھایا ہے۔ابتدا میں زبان ، الفاظ اور حرف کی تعریف، حروف کے اقسام بیان کئے ہیں۔ اس کے بعد مختلف فصلوں میں علم ہجا، حروف تہجی، اسم ، جنس، صفت، ضمیر،فعل کی تعریف اور اقسام مع مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ صرف ونحو کی ترکیبات اور جملوں کے اقسام کو بھی سمجھایا گیا ہے۔ اردو کے اساتذہ اور طلبہ کیلئے یہ کتاب بہترین رہنما ثابت ہوگی۔

X کتاب کا نام: ایک چادر میلی سی۔ مصنف: راجندر سنگھ بیدی۔ سن اشاعت: ۱۹۶۲ء:’ایک چادر میلی سی ‘ راجندر سنگھ بیدی کا پہلا اور آخری ناول ہے۔یہ ناول پہلی مرتبہ مکتبہ جامعہ دہلی سے ۱۹۶۲ء میں منظر عام پر آیا۔یہ اردو کا مختصر ترین ناول بھی ہے جو صرف ۱۵۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔اس ناول میں بیدی نے حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔اس میں پنجاب کے دیہات کے پس ماندہ معاشرے اور سکھ پریوار کے معاشی حالات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں پنجاب کے دیہاتی اور ثقافتی عناصر ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ناول کا پلاٹ پوری طرح سے پنجاب کے کوٹلہ گاؤں کے تانگے والے کی بیوی رانو پر مشتمل ہے۔ اس ناول کا ہر کردار ہمارے معاشرے ہی کے افراد ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد کہانی کے کردار قاری کے ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں ۔ راجندر سنگھ بیدی کو اس ناول کیلئے ۱۹۶۵ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
9/10

کتاب کا نام: ایک چادر میلی سی۔ مصنف: راجندر سنگھ بیدی۔ سن اشاعت: ۱۹۶۲ء:’ایک چادر میلی سی ‘ راجندر سنگھ بیدی کا پہلا اور آخری ناول ہے۔یہ ناول پہلی مرتبہ مکتبہ جامعہ دہلی سے ۱۹۶۲ء میں منظر عام پر آیا۔یہ اردو کا مختصر ترین ناول بھی ہے جو صرف ۱۵۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔اس ناول میں بیدی نے حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔اس میں پنجاب کے دیہات کے پس ماندہ معاشرے اور سکھ پریوار کے معاشی حالات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں پنجاب کے دیہاتی اور ثقافتی عناصر ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ناول کا پلاٹ پوری طرح سے پنجاب کے کوٹلہ گاؤں کے تانگے والے کی بیوی رانو پر مشتمل ہے۔ اس ناول کا ہر کردار ہمارے معاشرے ہی کے افراد ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد کہانی کے کردار قاری کے ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں ۔ راجندر سنگھ بیدی کو اس ناول کیلئے ۱۹۶۵ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

X کتاب کا نام: پطرس کے مضامین۔مصنف: پطرس بخاری۔ سن اشاعت: ۱۹۳۰ء:’مضامین پطرس‘ احمد شاہ بخاری (قلمی نام: پطرس بخاری)کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔یہ کتاب سب سے پہلے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی تھی۔’’مضامین پطرس‘‘ ۱۱؍ مزاحیہ مضامین پر مشتمل ہے۔ پطرس نے اس کتاب کا انتساب اپنے استاد پروفیسر محمد سعید کے نام کیا ہے۔ اس مجموعہ میں پطرس بخاری نے انگریزی مزاح کے بہت سے حربوں سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پطرس مضامین میں مزاح کیلئے خود کی ذات کو پیش کرتے ہیں اور نہایت فنکارانہ انداز میں تمام واقعات کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے وہ خود ان واقعات کے عینی شاہد ہوں۔ اسی خوبی نے ان کےمزاح کواعلیٰ درجے کی ظرافت کا درجہ دیا ہے۔اس مجموعہ میں شامل ’کتے‘ اور ’مرحوم کی یاد میں ‘ ان کے شاہکار مضامین تسلیم کئے جاتے ہیں۔ کتاب کا مختصر دیباچہ پوری کتاب سے زیادہ دلچسپ اور دل فریب ہے۔
10/10

کتاب کا نام: پطرس کے مضامین۔مصنف: پطرس بخاری۔ سن اشاعت: ۱۹۳۰ء:’مضامین پطرس‘ احمد شاہ بخاری (قلمی نام: پطرس بخاری)کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔یہ کتاب سب سے پہلے ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی تھی۔’’مضامین پطرس‘‘ ۱۱؍ مزاحیہ مضامین پر مشتمل ہے۔ پطرس نے اس کتاب کا انتساب اپنے استاد پروفیسر محمد سعید کے نام کیا ہے۔ اس مجموعہ میں پطرس بخاری نے انگریزی مزاح کے بہت سے حربوں سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پطرس مضامین میں مزاح کیلئے خود کی ذات کو پیش کرتے ہیں اور نہایت فنکارانہ انداز میں تمام واقعات کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے وہ خود ان واقعات کے عینی شاہد ہوں۔ اسی خوبی نے ان کےمزاح کواعلیٰ درجے کی ظرافت کا درجہ دیا ہے۔اس مجموعہ میں شامل ’کتے‘ اور ’مرحوم کی یاد میں ‘ ان کے شاہکار مضامین تسلیم کئے جاتے ہیں۔ کتاب کا مختصر دیباچہ پوری کتاب سے زیادہ دلچسپ اور دل فریب ہے۔

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK