شام میں امریکہ کے ڈرون حملے میں مبینہ طور پر ۱۷؍افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ایک نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نےانتہاپسندوں کو ترکی کی سرحد کے قریب شام میں نشانہ بنایا ہے۔
EPAPER
Updated: October 24, 2020, 11:05 AM IST | Agency | Washingtone
شام میں امریکہ کے ڈرون حملے میں مبینہ طور پر ۱۷؍افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ایک نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نےانتہاپسندوں کو ترکی کی سرحد کے قریب شام میں نشانہ بنایا ہے۔
شام میں امریکہ کے ڈرون حملےمیں مبینہ طور پر ۱۷؍افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ایک نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نےانتہاپسندوں کو ترکی کی سرحد کے قریب شام میں نشانہ بنایا ہے۔لیکن شام کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم `سیرین آبزر ویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق حملے میں ۵؍ عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کی ترجمان میجر بیتھ ریرڈن کا کہنا ہے کہ شام میں ادلب کے قریب القاعدہ کے سینئر لیڈروں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک اجلاس میں مصروف تھے۔ترجمان کے مطابق القاعدہ کی شام میں موجود قیادت کے خاتمے سے اس کی امریکہ، اس کے اتحادیوں اور عام شہریوں کے خلاف کارروائیوں کی استعداد میں مزید کمی آئے گی۔البتہ انہوں نے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ اس ڈرون حملے میں کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
شام کے حوالے سے برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم `سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ امریکہ کے شام میں کئے گئے ڈرون حملے میں ایک عشائیے کی تقریب کو نشانہ بنایا گیا جس میں ۱۷؍ افراد ہلاک ہوئے۔ جن میں انتہا پسندوں کے ۱۱؍ لیڈر بھی شامل ہیں۔اطلاع کے مطابق ڈرون حملہ سلقین کے علاقے میں جکارا نامی گاؤں میں کیا گیا۔ یہ گاؤں شام میںانتہا پسندوں کا آخری گڑھ قرار دیئے جانے والے ادلب میں واقع ہے جہاں ھیئۃ تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کا قبضہ ہے۔ایچ ٹی ایس تننظیم بی کو القاعدہ کے سابقہ جنگجوؤں اور اس سے الگ ہونے والوں نے بنایا ہے۔اس انتہا پسند گروہ کے علاوہ القاعدہ کے حلیف گروہ بھی ادلب میں متحرک ہیں جن میں تنظیم حرس الدین (یعنی دین کے محافظ) بھی شامل ہے۔
ڈرون حملے کے حوالے سے `سیرین آبزر ویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی کارروائی میں ۵؍ غیر شامی انتہا پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ البتہ ان افراد کی شہریت کے حوالے سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان افراد کو جکارا گاؤں میں ایک فارم پر عشائیے میں مدعو کیا گیا تھا۔رامی عبد الرحمٰن نے بتایا کہ اس اجلاس میں `ھیئۃ تحریر الشام کے مخالفین کے ساتھ ساتھ روس اور ترکی کے معاہدے کو مسترد کرنے والے جنگجو شریک تھے۔ جب کہ بعض ایسے افراد بھی موجود تھے جو `تنظیم حرس الدین کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ شام میں ۲۰۱۱ء سے خانہ جنگی جاری ہے۔