Inquilab Logo

اعظم گڑھ کبھی کسی لہرپر سوار نہیں ہوتا وہ وہی کرتا ہے جو ریاست اور اپنے خطے کیلئے بہتر محسوس ہوتا ہے

Updated: March 16, 2022, 8:45 AM IST | azamgarh

اس بار اسمبلی الیکشن میں ضلع کی تمام ۱۰؍ سیٹوں پر نہ صرف فرقہ پرست طاقتوں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا بلکہ فرقہ پرستوں کو درپردہ فائدہ پہنچانے والی جماعتوں کو بھی یہاں کے عوام نے یکسر مسترد کیا ہے

alam badi
عالم بدیع

عظم گڑھ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ سیاسی فیصلوں میں وہ کسی لہر میں نہیں بہتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اسے  اپنےخطے کیلئے بہتر محسوس ہوتا ہے، خواہ اس کا فیصلہ دوسروں سے الگ تھلگ ہی کیوں نہ ہو۔اس خطے کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اندرونی سازشوں کو  وقت رہتے بھانپ لیتا ہے،اسلئے ان سازشوں سے خود کو بچا کر اپنے ووٹوں کی اہمیت کو باقی رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اعظم گڑھ کی تمام ۱۰؍ اسمبلی نشستوں پر فرقہ پرست طاقتوں کو دھول چٹانےکا کارنامہ اعظم گڑھ نے کوئی پہلی بار نہیں انجام دیا ہے  بلکہ ہر اُس دور میں بھی اس نےیہی کارنامہ دُہرایا ہے جب پوری ریاست کسی لہر میں بہتی ہوئی محسوس ہوئی ہے۔ اسمبلی انتخابات ہوں یا لوک سبھا کے الیکشن، اعظم گڑھ کی یہ شاندار تاریخ رہی ہے ۔ایسا اسلئے ممکن ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر سیکولر اذہان کا اتحاد بہت مضبوط ہے۔
 اترپردیش کی۱۸؍ویںاسمبلی کیلئے ہونے والے انتخابات میں حالانکہ پوری ریاست سے اسی طرح کی خبریں آرہی تھیں کہ اس مرتبہ بی جے پی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نتائج ظاہر ہوئے تو بی جے پی سے بی ایس پی کی ملی بھگت آشکار ہوگئی۔ان حالات میں بھی اعظم گڑھ اس ’ملی بھگت‘ کا شکار نہیں ہوا، حالانکہ اعظم گڑھ سماجوادی پارٹی کے ساتھ ہی بی ایس پی کیلئے بھی ایک مضبوط گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اِس مرتبہ اعظم گڑھ ضلع کی تمام ۱۰؍نشستوں پرسماجوادی  کے امیدواروں کو کامیابی ملی ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ۲۰۱۷ء میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں بھی جبکہ پوری ریاست لہر پر سوار تھی، اعظم گڑھ میں بی جے پی کو صرف ایک سیٹ مل سکی تھی جبکہ سماجوادی اور بی ایس پی نےاہل اعظم گڑھ نےبالترتیب ۵؍ اور ۴؍سیٹیں دی تھیں۔ اس سے قبل ۲۰۱۲ء میںاس خطے کی ۹؍ سیٹوں پر سماجوادی پارٹی اور ایک سیٹ پر بی ایس پی کو کامیابی ملی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ ان تمام ۱۰؍ سیٹوں پر بی جے پی کو دوسری پوزیشن بھی کہیں نہیں مل سکی تھی۔ کچھ یہی صورت حال لوک سبھا الیکشن کی بھی رہی ہے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں جبکہ ہر طرف بی جے پی اور مودی کی ’جے جے کار‘ ہورہی تھی، اعظم گڑھ کے پارلیمانی حلقے سے پہلے ملائم سنگھ یادو اور پھر اکھلیش یادو نے کامیابی حاصل کی۔یہ اور بات ہے کہ یہاںگزشتہ تین انتخابات سے اسمبلی میں مسلم نمائندگی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے، جس پر مقامی آبادی کو اپنی پسند کی جماعتوں سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مرتبہ عالم بدیع اور نفیس احمد کی صورت میں ۲؍ امیدوار کامیاب ہوئےہیں جبکہ گزشتہ ۲۰۱۷ء میں ۳؍ اور ۲۰۱۲ء میں۴؍ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ایسا صرف ووٹوں کو آپس میں تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے ہوا ہے۔  
 دراصل یہ اعظم گڑھ کی تاریخ رہی ہے۔ اس نے ہمیشہ ہی ایک سلجھی ہوئی سیاست کی ہے اور لہروں سے دور رہ کر فیصلہ کیا ہے۔۱۹۷۸ء میں جب پورے ملک میں کانگریس کے خلاف ایک لہر تھی، یہاں سے ضمنی انتخاب میں محسنہ قدوائی نے کانگریس امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی تھی۔۹۰ء کی دہائی کے اواخر میں جب پورے ملک میں وی پی سنگھ کا گن گان ہورہا تھا، اس حلقے کے رائے دہندگان نے جنتادل کے امیدوار پر بی ایس پی کے امیدوار رام کرشن یادو کو ترجیح دی تھی۔اسی طرح ’رام لہر‘ میںبی جےپی امیدوار یہاں سے کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔
 کہا جاتا ہے کہ یہاں مسلم، یادو اور دلت اگر متحدہوجائیں تو جسے چاہیں، کامیاب کراسکتے ہیں  اور اگر تینوں متحد نہیں ہوسکے تو ان میں سے دو طبقوں کا رجحان جس کی طرف ہوگا، تاج اسی کے سر رکھےجانے کی روایت رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس پارلیمانی سیٹ کے وجود میں آنے کے بعد سےمسلسل اس سیٹ پر یا تو یادو امیدوار فاتح رہا یا پھر مسلم امیدوار کے ہاتھ کامیابی آئی۔ خیال رہے کہ ۱۹۶۲ء کے بعد سے اب تک ہونے والے ۱۴؍  عام انتخابات اور۲؍ ضمنی انتخابات میں ۱۲؍ مرتبہ یادو برادری سے تعلق رکھنے والے امیدوار نے لوک سبھا میں نمائندگی کی ہے جبکہ تین مرتبہ مسلم امیدوار (دو مرتبہ اکبر احمد ڈمپی اور ایک بار محسنہ قدوائی کی صورت میں)کامیابی ملی ہے۔ 
ٍ اِس مرتبہ اعظم گڑھ خطے سے مسلم نمائندگی کم ہوئی ہے جو یقینی طورپرباعث تشویش ہے لیکن یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ اعظم گڑھ کے لوگوں نے فرقہ پرستوں کو دھول چٹا دی اور اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے پوری طرح محفوظ رکھا۔

azamgarh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK