نیشنل گرین ٹریبونل سے رجوع کیا۔گزشتہ ۵؍ برس کے دوران یہاں ۲۶؍ مرتبہ آگ لگ چکی ہے۔ دھوئیں اور زہر آلودفضا سےمکینوں کی صحت بُری طرح متاثر ہورہی ہے
EPAPER
Updated: February 24, 2025, 10:08 PM IST | Mumbai
نیشنل گرین ٹریبونل سے رجوع کیا۔گزشتہ ۵؍ برس کے دوران یہاں ۲۶؍ مرتبہ آگ لگ چکی ہے۔ دھوئیں اور زہر آلودفضا سےمکینوں کی صحت بُری طرح متاثر ہورہی ہے
یہاں مغربی جانب اُتن علاقے کے مکین ڈمپنگ گرائونڈ میں بار بار آتشزدگی سے پھیلنے والے دھوئیں اور زہرآلود فضا سے سخت پریشان ہیں ۔ اسی لئے انہوںنے اسے ہٹانے کیلئے ’این جی ٹی (نیشنل گرین ٹریبونل)‘ سے رجوع کیا ہے۔
اُتن میں ۳۱؍ ہیکٹر پر پھیلا ہوا ڈمپنگ گرائونڈ ہے جہاں گزشتہ ۱۶؍ برس کے دوران وقفہ وقفہ سے آتشزدگی کے واقعات پیش آرہے ہیں جس سے علاقے میں دھواں اور زہریلی گیس پھیلی رہتی ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں آتشزدگی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہاں میرا بھائندر میونسپل کارپوریشن (ایم بی ایم سی) کے ذریعہ روزانہ ۵۰۰؍ ٹن کوڑاکرکٹ ڈالا جاتا ہے اور اب یہاں تقریباً ۹؍ لاکھ ٹن کچرا جمع ہوچکا ہے۔
ڈمپنگ گرائونڈ میں بار بار آگ لگنے سے یہاں فضائی آلودگی کی سطح اتنی خراب ہوچکی ہے کہ اس سے مسجدوں میں نمازیوں اور مکتب میں طلبہ کی تعداد میں بھی کمی آگئی ہے۔ ایک مقامی مسجد کے امام محفوظ شیخ کے مطابق یہاں کی زہرآلود فضا سے لوگ اور خصوصاً بچے بیمار ہورہے ہیں۔ لوگ باہر نکلنے کے بجائے اپنے گھروں میں رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں جس کی وجہ سے مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم ہوگئی ہے اور قرآن شریف سیکھنے کیلئے آنے والے طلبہ کی تعداد میں بھی کافی کمی آگئی ہے۔
واضح رہے کہ جنوری ۲۰۲۰ء سے دسمبر ۲۰۲۴ء کے درمیان اُتن کے ڈمپنگ گرائونڈ میں ۲۶؍ مرتبہ آگ لگ چکی ہےجس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں کے لوگ اتنے برسوں کے دوران ہر سال تقریباً ۶؍ ماہ سے زیادہ عرصہ زہرآلود فضا میں سانس لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
دھوئیں اور زہرآلود فضا سے یہاں زندگی کا ہر شعبہ متاثرہوا ہے۔ اتنے برسوں تک پریشانی کے پیش نظر یہاں کے لوگ ’این جی ٹی‘ سے ڈمپنگ گرائونڈ کو دیگر کسی مقام پر منتقل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کی خبرکے مطابق غیر سرکاری تنظیم ’واچ ڈاگ فائونڈیشن‘ کے سربراہ ایڈوکیٹ پیمنٹا گوڑفرے نے حق معلومات سے جو تفصیلات حاصل کی ہیں، اس کے مطابق یہاں آتشزدگی کے سب سے زیادہ واقعات ۲۰۲۲ء میں ہوئے تھے جب ایک سال میں ۸؍ مرتبہ آگ لگی تھی اور اس کے بعد ۲۰۲۴ء میں پورے سال کے دوران ۷؍ مرتبہ آتشزدگی کے واقعات ہوئے۔ اس سال ۲؍ ماہ سے بھی کم وقفہ میں یہاں ۳؍ مرتبہ آگ لگ چکی ہے۔ آخری مرتبہ یہاں اسی ماہ یکم فروری کو آگ لگی تھی جس پر قابو پانے کیلئے فائر بریگیڈ کے ۳۵؍اہلکاروں نے مل کر کام کیا تھا، اس کے باوجود کچرے کے اندرونی حصہ میں آگ مکمل طور پر بجھ نہیں سکی ہے اور وہاں سے دھواں نکلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس آتشزدگی کی وجہ سے ۵؍ گائوں بشمول تاروڈی، ڈونگری، چوک، پالی اور اُتن کے مکین ۱۵؍ روز سے زیادہ دنوں سے زہر آلود فضا اور دھوئیں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
عوام کی پٹیشن پر این جی ٹی میں ۱۷؍ فروری کو سماعت ہوئی تھی اور این جی ٹی نے ایم بی ایم سی کے افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس تعلق سے تفصیلی رپورٹ پیش کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔اس پر ایم بی ایم سی کے ڈپٹی میونسپل کمشنر سنجے بانگر نے این جی ٹی میں حلف نامہ داخل کرکے یقین دہانی کرائی ہے کہ۳؍ شفٹوں میں یہاں فائر بریگیڈ کے افسران کو تعینات رکھا جائے گا تاکہ چھوٹی سی آگ بھیانک صورت اختیار نہ کرسکے۔
اُتن کے چند افراد ۲۰۱۵ء میں این جی ٹی سے رجوع ہوئے تھے جن کا کہنا ہے کہ ڈمپنگ گرائونڈ کی وجہ سے لوگوں کی صحت کو پہلے ہی کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ ان کے مطابق یہاں کا تقریباً ہر شہری ڈمپنگ گرائونڈ کی وجہ سے سانس کی کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا ہے اور کئی افراد کے مطابق کچھ دور دوڑنے پر ہی ان کی سانس پھولنے لگتی ہے۔
اَوَر لیڈی آف بیتھ لیھیم چرچ کے فادر آسکر مینڈونسا کے مطابق انہوں نے حال ہی میں ایک قریبی چرچ میں طبی جانچ کا کیمپ منعقد کیا تھا جہاں پتہ چلا کہ کافی بڑی تعداد میں لوگ مختلف بیماریوں سے جوجھ رہے ہیں۔ اگر چہ وہ ڈمپنگ گرائونڈ اور عوام کی صحت کو براہِ راست جوڑ نہیں سکتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہاں رہنے والا تقریباً ہر شخص سانس کی بیماری میں مبتلا ہے۔