Inquilab Logo

منی لانڈرنگ قانون پرعدالتی فیصلے سے تشویش

Updated: August 04, 2022, 9:58 AM IST | new Delhi

۱۷؍اپوزیشن پارٹیوں کامشترکہ خط ، کہا کہ سپریم کورٹ کو فیصلہ سنانے کے بجائے وسیع تر بینچ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے تھا ، فیصلے میں کچھ ترامیم پر غور ہی نہیں کیا گیا ہے

There is also a strong protest in Parliament against the misuse of investigative agency ED
تفتیشی ایجنسی ای ڈی کے غلط استعمال کیخلاف پارلیمنٹ میں بھی زوردار احتجاج ہو رہا ہے

): سپریم کورٹ کی جانب سے منی لانڈرنگ ایکٹ  پر فیصلہ سناتے ہوئے اس کی تمام ترامیم کو برقرار رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے پاس لامحدود اختیارات آگئے ہیں۔ اس کی وجہ سے حکومت کو بھی اپنے مخالفین پر شکنجہ کسنے میں آسانی ہو گی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ایک طرف جہاں قانونی برادری میں بھی تشویش پائی جارہی ہے وہیں  اس فیصلے پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 
اپوزیشن کا کیا کہنا ہے؟
  سپریم کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے حزب اختلاف کی ۱۷؍ جماعتوں نے کہا کہ جن ترامیم کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں سے کچھ کو فائنانس  ایکٹ کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس کا جائزہ ہی نہیں لیا۔ نیز فیصلہ سناتے وقت جن دلائل کو پیش کیا گیا وہ وہی دلائل ہیں جو انتظامیہ کی جانب سے ان سخت اور یکطرفہ ترامیم کی حمایت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اسے کیا سمجھا جائے ؟ ہمیں اس فیصلے پر اعتراض ہے ۔ہم سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں منی لانڈرنگ کی روک تھام قانون میں کی گئی ترامیم کو مکمل طور پر برقرار رکھنے کے فیصلے کے طویل مدتی مضمرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
پارٹیوں نے اور کیا کہا ؟
  اپوزیشن پارٹیوں کے مطابق  دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس بات کا جائزہ  لئے بغیر فیصلہ سنا دیا کہ آیا ان میں سے کچھ ترامیم کو  فائنانس ایکٹ کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا نہیں!‘‘بیان میں مزید کہا گیا کہ اگر کل کو سپریم کورٹ  فائنانس ایکٹ کے ذریعے کی گئی ترامیم کو ناقص قرار دے دیتا ہے تو یہ پوری مشق فضول اور عدالتی وقت کا ضیاع ثابت ہوگی۔
وسیع تر بینچ کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہئے تھا 
 حزب اختلاف نے  اپنے مشترکہ خط میںکہا  کہ ہم سپریم کورٹ کا بہت احترام کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ تاہم، ہم اس بات کی نشاندہی بھی کرنے پر مجبور ہیں کہ فائنانس  ایکٹ کے ذریعے کی گئی ترامیم کی آئینی حیثیت پر غور کرنے والی بڑی بنچ کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہئے تھا۔ ان دور رس ترامیم نے اس حکومت کے ہاتھ مضبوط  کئے ہیں جو منی لانڈرنگ اور تحقیقاتی ایجنسیوں سے متعلق انہی ترمیم شدہ قوانین کا استعمال کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو بدنیتی سے نشانہ بنا کر بدترین قسم کے سیاسی انتقام لینے میں  مصروف ہے۔ اسے روکنے کے بجائے اس کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار دے دیا گیا ہے۔
دلائل پر بھی اعتراض
 بیان میں کہا گیا کہ ہم اس بات پر بھی بہت مایوس ہیں کہ ایکٹ میں چیک اینڈ بیلنس کی کمی پر آزادانہ فیصلہ دینے کے  لئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا تھا لیکن اس نے انہی دلائل کو دوبارہ پیش کر دیا  جو عملی طور پر سخت ترامیم کی حمایت میں ایگزیکٹو کی طرف سے د ئیے جاتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ خطرناک فیصلہ قلیل مدتی ہوگا اور آئینی دفعات جلد ہی غالب ہوں گی۔قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے اپنے فیصلے میں ترمیم شدہ قانون کے تحت ای ڈی کو د ئیے گئے جامع اختیارات کو برقرار رکھا تھا۔
 کورٹ سے دوبارہ رجوع ہونے کی تیاری 
  اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر فیصلے پر نظرثانی کے لئے سپریم کورٹ جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس مشترکہ خط پر دستخط کرنے والی پارٹیوں میں کانگریس ، این سی پی ، ٹی ایم سی ، عام آدمی پارٹی ، سماج وادی پارٹی ، شیو سینا ، سی پی آئی ، سی پی ایم ، آر جے ڈی ، آر ایل ڈی اور دیگر شامل ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK