Inquilab Logo

چین میں ملک گیر مظاہروں کے بعد رعایت ، تجارت کی اجازت

Updated: December 02, 2022, 11:34 AM IST | Beijing

دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے کئی شہروں میں لاک ڈاؤن ختم کر کے کاروباری مراکز دوبارہ کھولنے کی راہ ہموار ۔شنگھائی اور گوانگزو کے کئی ایسےاضلاع جہاں کورونا کے مریض مسلسل بڑھ رہے تھے ، وہاں سے بھی لاک ڈاؤن ختم۔ جن علاقو ں میں انفیکشن کا خطرہ کم سمجھا جارہا ہے، وہاں بھی مارکیٹس اور دوسرے کاروباری ادارے اس ہفتے دوبارہ کھولنے کا اعلان

A scene of a protest with plain paper in Beijing. (AP/PTI)
بیجنگ میں سادہ کاغذ کے ساتھ احتجاج کا ایک منظر۔ ( اےپی / پی ٹی آئی)

  چین میں کووڈ۱۹؍ کے معاملات میں اضافہ کے باوجود حکومت نے جمعرات کو کچھ پابندیوں کو نرم کرنے کا اشارہ دیا۔ اس کے تحت  دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے کئی شہروں میں لاک ڈاؤن ختم کر کے کاروباری مراکز دوبارہ کھولنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
  شنگھائی اور گوانگزو کے کئی  ایسےاضلاع  جہاں کورونا کے مریض بڑھ رہے تھے ،  وہاں سے بھی  جمعرات کو  لاک ڈاؤن  ختم کردیا گیا۔  ا س سلسلے میں   چین  کے نائب وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ملک نئی صورتحال کا سامنا کررہا  ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب چین کو اپنی کورونا سے پاک چین (صفر کووڈ پالیسی )کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑرہا  ہے، حالانکہ ان پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے صحت کے حکام نے گزشتہ ہفتوں سے جاری ان مظاہروں کا ذکر نہیں کیا جو شدت اختیار کر چکے ہیں۔  میڈیارپورٹس  کے مطابق گزشتہ ہفتے مغربی شنزیانگ کے علاقے میں ایک کثیر  منزلہ عمارت   میں آگ لگنے سے۱۰؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد بدامنی پھیل گئی تھی۔ کئی چینی شہریوں کا خیال ہے کہ شہر میں طویل عرصے سے جاری کووڈ پابندیاں ان اموات کا سبب ہیں حالانکہ حکام اس  سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن  اسی پس منظر میں سرکاری چائنا نیوز سروس  نےبتایا کہ شہر میں وبا پر کنٹرول سے متعلق ایک انچارج اہل کار وانگ نے ہدایات جاری کی ہیں جن کے مطابق   طبی نقل و حمل، ہنگامی طور پر باہر نکلنے اور بچاؤ کے راستوں کو کھلا رہنا چاہئے ۔
  میڈیارپورٹس میں کہا گیا  کہ بدھ کو گوانگزو جیسے بڑے شہروں میں پرتشدد مظاہروں نیز پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے بعد پابندیاں اچانک ختم کر دی گئیں۔  دیگر بڑے شہروں جیسے شنگھائی اور چونگ کنگ نے بھی کچھ قوانین میں نرمی کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ چین کے اعلیٰ ترین عہدیداروں میں سے ایک نائب وزیر اعظم سن چونلان کے کہنے کے بعد کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق  وائرس کی طاقت کمزور ہو رہی ہے۔ بدھ کو   چین ریاستی کونسل  نے سن کا  ایک بیان  شائع کیا جس میں کہا،’’چونکہ اومیکرون وائرس کی طاقت  کمزور ہوئی ہے اور زیادہ ا فراد کو ٹیکہ لگایا گیا ہے۔ ملک  کورونا کی روک تھام اور اسے قابوکرنے  میں ایک نئے حالات کا سامنا کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ چینی افسروں نے ہمیشہ  عوام کی صحت اور حفاظت کو  ترجیح دی ہے ۔    ایک مربوط حکمت عملی اور لچکدار اقدامات کے ساتھ وبا کا مقابلہ کیا ہے۔  نائب وزیراعظم نے جانچ، علاج اور قرنطینہ کی پالیسیوں کو مزید بہتر بنانے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ۳؍ برس کے دوران چین نے کورونا وائرس کی غیر یقینی صورتحال  پر قابو پایا ہے اور اس کےا ثرات کو کم کیا ہے  ۔
  میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو ہانگ کانگ کے شمال میں ایک وسیع و عریض مینوفیکچرنگ مرکز گوانگزو میں کم از کم۷؍ اضلاع کے حکام نے بتایا کہ وہ عارضی لاک ڈاؤن ختم کر رہے ہیں۔ایک ضلع  انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسکولوں میں ذاتی طور پر کلاسوں کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے گا ۔ سینما گھر، ریستوراں اور دیگر کاروباری ادارے دوبارہ کھولے جا رہے ہیں۔وسطی چین میں واقع شہر ژینگزو نے سپر مارکیٹ، جم ، ریستوراں  کے  کاروبار کومنظم طریقے سےدوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
  حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن علاقو ں میں انفیکشن کا خطرہ کم سمجھا جارہا ہے وہاں مارکیٹس اور دوسرے کاروباری ادارے اس ہفتے دوبارہ کھل جائیں گے اور عوامی بس سروس پھر سےشروع ہوجائے گی۔رواں ہفتے کے شروع میں قومی صحت کے حکام نے کہا تھا کہ چین عوام کے خدشات کا جواب دے گا اور خطے کے حالات کے مطابق قوانین کو زیادہ نرمی سے نافذ کیا جانا چاہئے۔
 توقع کی جا رہی ہے کہ چین میں بڑی عمر کے افراد کی  ٹیکہ کاری کا عمل مناسب حد تک مکمل ہو جائے گا تو آئندہ سال کسی بھی وقت ملک میں تمام بندشیں ختم ہو سکتی ہیں لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹیکہ کاری   کے عمل میں سست روی اپنائی گئی تو بڑے پیمانے پر بیماری  پھیلنے  اور  اس کے اموات کا خدشہ ہے۔
    واضح رہےکہ  چین میں وبائی مرض کے آغاز کے بعد سے حالیہ دنوں میں یومیہ کورونا کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔  بدھ  چین میں کورونا کے ۳۶؍ ہزار  سے زائد مریض ملے لیکن ۱۴۰؍ کروڑ کی آبادی والے ملک کیلئے یہ تعداد اب بھی بہت کم ہے اور سرکاری طور پر اس وبا سے اب تک ۵؍ ہزار ۲؍ سو سے زائد افراد  ہلاک ہو چکے ہیں۔ واضح رہےکہ چین ہی سے ۲۰۱۹ء میں کورونا کا آغاز ہوا تھا ۔ اسی کی بنیاد پر کورونا کو’ کووڈ ۱۹؍‘ کہا جاتا ہے۔
  امریکی خبر رساں ایجنسی اسو سی ایٹیڈ پریس (اے پی ) نے لکھا کہ پابندیوں میں رعایت کے وقت  حکومت نے مظاہروں یا صدرشی جن پنگ پر تنقید کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا  ہے لیکن کچھ پابندیوں میں نرمی کے فیصلے کا مقصد عوامی غصے کو کم کرنا تھا۔ تجزیہ  نگار وں کو یہ توقع نہیں ہے کہ حکومت اپنی کووڈحکمت عملی سے دستبردار ہو جائے گی، وہ اسے عوامی غصہ کم کرنے کی کوشش بتارہےہیں۔   اے پی کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ ملک کے اقتصادی شہر شنگھائی ، دار الحکومت بیجنگ  اور دوسرے شہروں  تک پھیل جانے والے مظاہروں میں اب تک کتنے ا فراد کو حراست میں لیا گیا ؟ اور کتنے افراد کو رہا کیا گیا ؟ ا  س کی تفصیل کسی کےپاس نہیں ہے۔ 
  ماہرین کےمطابق کورونا سے پاک چین کی حکمت عملی نے  کووڈ کے کیسز کی تعداد کو امریکہ اور دوسرےبڑے ملکوں کےمقابلے میں کم رکھنے میں مدد کی ہے لیکن اس نےلاکھوں ا فراد کو۴؍ ماہ تک اپنے گھروں تک محدود کر دیا۔ اس دوران کچھ  افراد نے خوراک اور طبی سامان کے فقدان کی بھی  شکایت کی ہے۔ یہ اس کا منفی پہلو ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK