مجموعی طور پر اب تک ۱۵؍ افراد حراست میں لئے گئے۔ دہلی، فریدآباد، جموں کشمیر میں مجموعی طور پر سیکڑوں افراد سے پوچھ گچھ کی گئی
EPAPER
Updated: November 12, 2025, 11:19 PM IST | New Delhi
مجموعی طور پر اب تک ۱۵؍ افراد حراست میں لئے گئے۔ دہلی، فریدآباد، جموں کشمیر میں مجموعی طور پر سیکڑوں افراد سے پوچھ گچھ کی گئی
نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے دہلی کار دھماکے کی تفتیش سنبھالنے کے ایک دن بعد بدھ کے روز ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔ اس ٹیم میں۱۰؍افسران شامل ہیں جن کی قیادت ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل (اے ڈی جی) وجے ساکھرے کریں گے۔ ٹیم کا مقصد تحقیقات کے دائرے کو وسیع کرنا ہے۔ اس ٹیم میں ایک انسپکٹر جنرل (آئی جی)، دو ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی)، تین سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) شامل ہیں۔ این آئی اے کی تحقیقات میں دہلی پولیس کے افسران بھی معاونت کر رہے ہیں۔
علیٰ ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ دہلی کار دھماکے کے تار پاکستان سے جڑے ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ ڈاکٹر مزمل اور دیگر مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ میں حاصل اطلاعات کی بنیاد پر دھماکے کا پاکستانی تعلق واضح ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان روابط کا تعلق مود الدین اورنگ زیب عالم سے ہو سکتا ہے، جسے عمار علوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ خفیہ ذرائع کے مطابق مودالدین اس حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ تھا۔ ہدف پانچ ریاستوں کے بڑے شہر تھے اور شناخت چھپانے کیلئے پرانی گاڑیوں کا استعمال منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔
اسی دوران پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لال قلعہ کے باہر ہونے والے دھماکے میں ۸؍گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئی، جبکہ ای۔رکشہ، آٹو، ٹیکسی اور بسوں سمیت۲۲؍ دیگر گاڑیاں بھی نقصان کا شکار ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، دھماکہ خیز مواد ایک آئی۲۰؍کار کی پچھلی سیٹ پر رکھا گیا تھا۔
دہلی میں ہونے والے دھماکے کے سلسلے میں، جو مبینہ طور پر جیش محمد کے لیے کام کرنے والے ایک ڈاکٹر دہشت گرد ماڈیول سے منسلک بتایا جا رہا ہے، اب تک۱۵؍ افراد کو گرفتار اور تین کو حراست میں لیا گیا ہے۔یہ گرفتاریاں جموں و کشمیر پولیس نے کی ہیں اور اب تک کل۵۶؍ ڈاکٹروں سے پوچھ گچھ ہو چکی ہے۔ اس ماڈیول پر پیر کی شام۶؍ بج کر۵۲؍ منٹ پر لال قلعے میں ہونے والے دھماکے کا الزام ہے۔اسپتال کے ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ مرنے والوں کے جسم پر دھماکہ خیز مواد کے کوئی آثار نہیں ملے، تاہم تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ دھماکے میں ایک ترمیم شدہ دھماکہ خیز مادہ استعمال کیا گیا ہوگا۔یہ پورا معاملہ سرینگر کے نوگام پولیس اسٹیشن علاقے سے شروع ہوا، جہاں سیکوریٹی فورسز کو دھمکیاں دینے والا ایک اشتعال انگیز پوسٹر پایا گیا۔اس سے قبل۱۹؍ اکتوبر کو اس دھمکی کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا گیا اور تحقیقات شروع ہوئیں۔