• Sat, 13 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

آسام میں اب ضلع کمشنر کو ’’مشتبہ افراد‘‘ کو ملک بدر کرنےکا اختیار

Updated: September 10, 2025, 10:39 PM IST

ریاستی کابینہ نے ۱۹۵۰ء کے غیر فعال قانون کو زندہ کیا، شہریت ثابت کرنے کیلئے صرف ۱۰؍ دن کی مہلت ملے گی، ہیمنت بسواشرما نےساتھ ہی اعلان کیا کہ ’’ہندو بنگالی غیر ملکی نہیں‘‘

Chief Minister Hemant Biswa Sharma is accused of openly displaying anti-Muslim sentiment while holding a constitutional position.
وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما پر الزام ہے کہ وہ آئینی عہدہ پر رہتے ہوئے کھل کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کررہے ہیں

آسام جہاں چن چن کر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بے گھر کیا جارہاہے اور شہریت کا ثبوت فراہم نہ کرپانےوالوں کو  سرحد کے اُس پار بنگلہ دیش کی حدود میں  دھکیلا  جارہاہے،  میں اب کابینہ  نے ’’دراندازوں‘‘ کو  ملک بدر کرنے کے ۱۹۵۰ء کے قانون کو نافذ کرنے کو منظوری دیدی ہے۔اس قانون کے تحت پولیس اور ضلع انتظامیہ کو ’’مشتبہ شہریوں‘‘  ملک بدر کرنے کا اختیار مل جائے گا۔  وزیراعلیٰ  ہیمنت بسوا شرما کے اس  بیان کے بعد کہ ’’ہندو بنگالیوں کو غیر ملکی ماننے کی کوئی وجہ نہیں‘‘ ، سمجھا جارہا ہے کہ  ۱۹۵۰ء کے قانون کے تحت  بنگالی بولنےوالے مسلمانوں  کے خلاف کارروائی  میں شدت آجائے گی۔ 
شہریت کے تعین کا اختیار ضلع کمشنر کو 
 آسام کابینہ نے منگل کو اس سلسلے میں ’’اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘‘ کو منظوری دیدی ہے تاکہ۱۹۵۰ء کے ایکٹ کو نافذ کیا جا سکے۔اس سلسلے میں  آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے کا کہنا ہے کہ  اس سے ریاستی حکومت کو شہریت کے تعین کے موجودہ نظام کو درکنار کرنے کا اختیار مل جائے گا ۔  ۱۹۵۰ء کا قانون زندہ کئے جانے کی صورت میں ضلع کمشنر کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ’’مشکوک شہریوں‘‘ کو ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کا ۱۰؍  دن کا وقت دیں  اور ۱۰؍ دنوں میں اگر وہ خود کو ہندوستانی   ثابت نہ کرسکیں تو  ان کی ملک بدری کے  احکامات جاری کریں۔   واضح رہے کہ موجودہ نظم کے تحت ’’مشکوک شہریوں‘‘ کے معاملات ’’فارینرس ٹریبونل‘‘ میں بھیجے جاتے ہیں۔
  ہیمنت بسوا شرما نے جون میں ہی اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ آسام حکومت نے’’میگرینٹس (ایکس پلشن فرام آسام)  ایکٹ ۱۹۵۰ءکو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اکتوبر ۲۰۲۴ءمیں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ  کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا تھا جس نے شہریت ایکٹ کی دفعہ ۶؍اے کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا۔ یہ دفعہ۲۴؍ مارچ ۱۹۷۱ء کو آسام میں داخلے کی حتمی تاریخ قرار دیتی ہے۔یعنی اس کے بعد بیرون ملک سے آسام  میں داخل ہونے والوں کو ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ سمجھا جائے گا۔
 بغیر عدالتی کارروائی کے۱۰؍ دن میں ملک سے انخلاء  
  ریاستی  کابینہ کے اجلاس کے بعد بسوا شرما نے کہا کہ کابینہ نے اب اس ایکٹ کو فعال کرنے کیلئے ’’ایس او پی‘‘کو منظوری دے دی ہے، جس سے بڑی حد تک فارینرس ٹربیونل کا رول  ’’بے معنی‘‘ ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ’’اس ایس او پی  کے مطابق، اگر ضلع کمشنر کو اطلا ع ملتی ہے کہ کوئی شخص غیر ملکی ہے، یا بارڈر پولیس اطلاع دیتی ہے، یا کسی اور ذریعے سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی شخص غیر ملکی ہے، تو ضلع  کمشنراس شخص کو نوٹس دے گا کہ وہ۱۰؍ دن کے اندر اپنی شہریت ثابت کرے۔ اور اگر ان۱۰؍ دنوں میں دیئے گئے دستاویزضلع کمشنر کو مطمئن نہ کرسکے تو۱۰؍ دن ضلع کمشنر  انخلا کا حکم جاری کرے گا۔ پھر ہم اس شخص کو فوری طور پر حراستی مرکز میں لے جائیں گے اور وہاں سے بی ایس ایف  اسے بنگلہ دیش یا پاکستان بھیج دے گی۔‘‘
فارینرس ٹربیونل بے معنی
  ہیمنت بسوا شرما  کے مطابق ریاستی حکومت نے  فارینرس ٹربیونل کو بائی پاس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے  بتایاکہ ’’صرف وہی معاملے فارینرس ٹربیونل کو بھیجے جائیں گے جو پیچیدہ ہوں اور جن میں ضلع کمشنر کوئی فیصلہ نہ کر سکے یا بظاہر یہ نتیجہ اخذ نہ کر سکے کہ متعلقہ شخص غیر ملکی ہے۔‘‘
۱۹۵۰ء کا قانون کیوں بنا تھا؟
  ۱۹۵۰ء کا یہ قانون جسے اب ہیمنت بسوا شرما استعمال کرنے  جارہی ہے،   اس وقت کی مرکزی حکومت نے  تب تیار کیا تھا جب آسام حکومت نے تقسیم کے بعد مشرقی  پاکستان  سے ہندوستان  میںلوگوں کی نقل مکانی کو روکنے کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔آزادی اور ملک کی تقسیم کے بعد طویل عرصے تک لوگ  سرحد کے اس پار سے اُس پار جاتے رہے تاہم آسام کو اندیشہ تھا کہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے  ریاست میں آبادی کا تناسب بگڑ جائےگا۔اس بنیاد پر حکومت نے مذکورہ قانون بنا کر آسام میں داخل ہونے کی حتمی تاریخ طے کردی تھی تاکہ اس  کے بعد داخل ہونےوالوں کو غیر ملکی تصور کرکے واپس بھیجا جاسکے۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ  قانون یکم مارچ ۱۹۵۰ء کو نافذ ہونے کے صرف ایک ماہ بعد غیر فعال ہوگیا تھا  جب جواہر لال نہرو نے اس وقت کے آسام کے وزیر اعلیٰ گوپی ناتھ بورڈولئی کو ہدایت دی کہ اس ایکٹ کے تحت تمام کارروائی بند کردی جائے کیونکہ ’’لیاقت-نہرو معاہدہ‘‘ کے تحت پاکستان اور ہندوستان  میں اقلیتوں کے حقوق و سلامتی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ ایکٹ استعمال میں نہیں آیا۔
ہیمنت بسوا شرما کی بدنیتی ظاہر
 اس بیچ ہیمنت بسوا شرما نے اس بات کا واضح اشارہ دے دیا ہے کہ نئے نظام کے تحت کارروائی صرف بنگالی بولنےوالے مسلمانوں کے خلاف ہوگی۔ان کے مطابق’’بنگالی بولنے والے ہندوؤں کو غیر ملکی سمجھنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیوں کہ وہ ۱۹۷۱ء سے پہلے یہاں آچکے تھے۔ وزیراعظم  اندرا گاندھی انہیں  ۱۹۷۱ء  میں انہیں لائی تھیں اور کبھی نہیں کہا کہ انہیں واپس بھیجا جائےگا۔
بڑے پیمانے پرمسلمانوں کی ملک بدری 
  الزام ہے کہ ہیمنت بسوا شرما سرکار انصاف کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑی تعداد میں بنگالی  بولنے والے مسلم شہریوں کو بنگلہ دیش کی سرحد  پر لے جا کر اُس پار دھکیل چکی ہے۔ ان میں سے متعدد کو بعد میں ہندوستان میں واپس لیا گیا کیوں کہ وہ یا ان کے اہل خانہ ان کی ہندوستانی شہریت کے ثبوت فراہم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آسام جہاں  ہر سال تباہ کن سیلاب آتا ہے، ثبوتوں کو محفوظ رکھناآسان نہیں ہے۔

assam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK