• Wed, 19 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ پر فائرنگ، بال بال بچے، ایک حامی ہلاک، ۲؍ زخمی

Updated: July 15, 2024, 10:37 AM IST | Agency | Washington

جوابی کارروائی میں حملہ آور ڈھیر، سابق صدر کو اُن ہی کی پارٹی سے وابستہ۲۰؍ سالہ نوجوان نے مارنے کی کوشش کی، گولی کان کو چھو کر گزر گئی، امریکہ میں داخلی سلامتی پر سوالیہ نشان

Secret Service agents carrying Trump off the stage after he was injured in the attack. Photo: Agency
حملے میں زخمی ہونے کے بعد سیکریٹ سروس کے جوان ٹرمپ کو اسٹیج سے نیچے اتارتے ہوئے۔ تصویر: ایجنسی

امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈٹرمپ سنیچر کی شام تقریباسوا ۶؍ بجے (ہندوستانی وقت کے مطابق اتوار کو علی الصباح) پینسلوینیا میں  انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ ایک ۲۰؍ سالہ نوجوان نے جلسہ گاہ کے قریب ایک عمارت کی چھت سے ان پر یکے بعد دیگرے کئی گولیاں داغیں جن میں سے ایک گولی ٹرمپ کے کان کو چھوکرگزر گئی۔ فائرنگ میں ریلی میں موجود ٹرمپ کے ایک حامی کی موت ہوگئی اور دیگر ۲؍ زخمی ہوگئے ہیں۔ ان کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔ زخمیوں میں سے ایک ریپبلکن پارٹی کے رکن پارلیمان کا رشتہ دار ہے۔ ۷۸؍ سالہ ڈونالڈ ٹرمپ جو ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ایک بار پھر صدارتی امیدواری کی دوڑ  میں  شامل ہیں، پر حملے کے بعد امریکہ میں داخلی سلامتی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ 
ریلی کے دوران اچانک فائرنگ
ڈونالڈ ٹرمپ پینسلوینیا کے بٹلر ٹاؤن میں پُر ہجوم انتخابی ریلی سے خطاب کررہے تھے کہ اچانک قریب ہی واقع ایک عمارت کی چھت سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ ویڈیو میں  دیکھا جاسکتاہے کہ گولی کی آواز آتے ہی ٹرمپ اچانک چونک جاتے ہیں اور پھر اپنے کان کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس بیچ بھیڑ میں  چیخ و پکار شروع ہوگئی اور کسی نے آوز لگائی کہ ’’بیٹھ جایئے، بیٹھ جایئے۔ ‘‘ ٹرمپ جھک گئے اور چند ہی سیکنڈ میں ان کی سیکوریٹی کے عملے کے جوانوں نے انہیں  اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: بائیڈن فوری طور پر وہائٹ ہاؤس پہنچے، ٹرمپ پر حملے کی مذمت کی

حملہ آور کو فوری طور پر مار دیاگیا
جلسہ گاہ میں  موجود سیکریٹ سروس کے جوانوں نے جوابی کارروائی میں  فوری طور پر حملہ آور کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بٹلر کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی رچرڈ گولڈنگر نے تصدیق کی کہ ’’مشتبہ بندوق بردار کو گولی مار دی گئی ہے۔ ‘‘ایف بی آئی نے اس کی شناخت ۲۰؍سالہ تھامس میتھیو کروکس کے طورپر کی ہے جو جلسہ گاہ سے کچھ ہی دوری پر واقع بیتھل پارک کا رہنے والاتھا۔ وہ ریپبلکن پارٹی سے ہی وابستہ تھا۔ اس نے ریپبلکن پارٹی کے ووٹر کے طور پر اپنا رجسٹریشن کروایا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نوجوان نومبر میں  ہونے والے صدارتی الیکشن میں  پہلی بار ووٹ دیتا۔ ایف بی آئی خبر لکھے جانے تک حملے کے مقصد کا پتہ نہیں  لگا سکی تاہم اس نے اسے’’سابق صدر کو قتل کرنے کی سازش‘‘ قرار دیتے ہوئے جانچ شروع کردی ہے۔ بیتھل پارک میں  حملہ آور کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔ 
زخمی ٹرمپ نے مکا لہرا کر لڑنے کاعزم کیا
زخمی ہونے کے بعد ٹرمپ کو جب سیکریٹ سروس کے جوان اور ان کی سیکوریٹی کے اہلکار انہیں اپنے گھیرے میں لے کراسٹیج سے اتارنے لگے تو ٹرمپ کے کان سے خون بہہ رہاتھا مگر انہوں نے زخمی حالت میں بھی مکا لہراتے ہوئے ’’لڑیں گے۔ ‘‘ کا نعرہ دیا۔ انہیں  فوری طور پر پٹس برگ کے مقامی اسپتال لے جایاگیا۔ بعد میں  ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ‘ پر پوسٹ کیا کہ ’’یہ ناقابل یقین ہے کہ ہمارے ملک میں  ایسا ہو سکتاہے۔ مجھے گولی ماری گئی جو میرے کان کے اوپری حصے میں لگی ہے۔ ‘‘ 
خفیہ سروس کے ڈائریکٹر کو طلب کرلیاگیا
 امریکی ایوانِ نمائندگان کے مرکزی تفتیشی بورڈ نے سابق صدور اور موجودہ صدر کی سیکوریٹی کی ذمہ دار امریکی خفیہ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل کو ٹرمپ پر حملے کے سلسلہ میں طلب کر لیا ہے۔ انہیں ۲۲؍ جولائی کی سماعت میں پیش ہوکر سیکوریٹی میں  کوتاہی سے متعلق جواب دینا ہوگا۔ مذکورہ کمیٹی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ’’ہم ملک کے سابق صدر کے قتل کی کوشش کے بارے میں جواب چاہتے ہیں۔ ‘‘ حملے میں ٹیکساس کے ریپبلکن رکن پارلیمان رونی جیکسن کا بھتیجا بھی شدید زخمی ہوا ہے۔ جیکسن نے ’’فاکس نیوز‘‘ کو بتایا کہ ان کے بھتیجےکو گردن پر گولی لگی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر حملہ کرنے والے ملزم کی شناخت ہوگئی

بندوق بردار اتنے قریب کیسے پہنچ گیا
عینی شاہدین کے مطابق انہوں   نے حملہ آور کر جلسہ گاہ کے قریب ایک چھت سے دوسری چھت پر جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے ہاتھ میں  بندوق تھی۔ یہ سوال پوری شدت سے کیا جا رہا ہے کہ غیر معمولی سیکوریٹی انتظامات کے باوجود حملہ آور ٹرمپ کے اتنے قریب پہنچ کر ان پر حملہ کرنے میں  کیسے کامیاب ہوگیا۔ ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ کیون روزیک نے نیوز کانفرنس میں اس کااعتراف کیا اور کہاکہ ’’یہ حیرت انگیز ہے کہ سیکرٹ سروس کے ذریعہ مارے جانے سے قبل بندوق بردار اسٹیج پر فائرنگ کرنے میں کامیاب کیسے ہوا۔ ‘‘ انہوں نے بتایا کہ ایف بی آئی تحقیقات کرے گی کہ یہ کیسے ہوا، لیکن ذمہ داری واضح طور پر سیکریٹ سروس پر عائد ہوتی ہے۔ 
سیکریٹ سروس کا ایک ہی کام ریاستہائے متحدہ امریکہ کے موجودہ اور سابق صدور کی حفاظت کرنا ہے اور وہ اس میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ 
حملے کے بعد جہاں ایک طرف امریکہ میں  داخلی سلامتی پر سوال اٹھ رہے ہیں وہیں دوسری طرف یہ بھی پوچھا جارہاہے کہ رائفل بردار شخص ریلی کے مقام کے قریب ایک گھر کی چھت پر کیسے پہنچا۔ وہ پوڈیم کی طرف ۴؍ گولیاں داغنے میں بھی کامیاب کیسے ہوگیا۔ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد امریکی قومی سلامتی کو درپیش خطرات پر توجہ مرکوز ہو گئی ہے اور مختلف ریاستوں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکوریٹی انتظامات کو مزید سخت کر رہے ہیں۔ 
 نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز نےاعلان کیا کہ اُنہوں نے نیویارک کے کچھ علاقوں   میں  پولیس کی نفری بڑھا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ایڈمز نے کہا کہ ’’ جو کچھ پینسلوینیا میں ہوا وہ ہولناک تھا۔ سیاسی تشدد کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK