Inquilab Logo

ایران کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کی کوششیں تیز

Updated: December 19, 2021, 6:54 AM IST | Washington

امریکی خفیہ ذرائع نے جوبائیڈن کو خبردار کیا کہ ایران سرخ لکیر پار کرچکا ہے ، اب اس کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں۔ویانا میں مغربی ممالک نے تنبیہ کی کہ اب معاہدے کیلئے بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ اسرائیل اور سعودی کا بھی دبائو

Ali Baqeri heads Iranian delegation to Vienna talks (Photo: Agency)
ویانا مذاکرات میں ایرانی وفد کے سربراہ علی باقری( تصویر : ایجنسی)

 امریکہ اور اسرائیل سمیت عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کو گھیرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ اس دوران ویانا میں جاری جوہری مذاکرات میں بھی تعطل آ گیا ہے۔  ایران  کے سخت موقف اور مغربی ممالک کے ایران کے تئیں رویے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اب مفاہمت کے بہت کم امکانات ہیں اور حالات کسی جنگی کارروائی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
 ایران سرخ لکیر پار کرچکا ہے: امریکی انٹیلی جنس 
  امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر کی جانب سے صدر جو بائیڈن کو خبر دار کیا گیا ہےکہ جوہری توانائی کے معاملے میں ایران سرخ لکیر پار کر چکا ہے۔ ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ امریکہ کو اب ایران کے ساتھ سخت سفارتکاری کا سلسلہ شروع کر دینا چاہئے۔ قومی سلامتی کے محکمے سے وابستہ ۷؍ ماہرین نے بیان جاری کرکے کہا ہے کہ ایران جس کیلئے ۳ء۶۷؍ فیصد یورینیم افزودہ کرنے کی حد مقرر تھی اس نے یورینیم کا تناسب  بڑھا کر   پہلے ۲۰؍ فیصد اور اب ۶۰؍ فیصد کرلیا ہے۔ محکمے کے مطابق یہ امریکہ کیلئے سرخ لکیر تھی جو ایران پار کرچکاہے۔ اب وہ جلد ہی  اسے ۹۰؍ فیصد تک پہنچا سکتا ہے جوکہ جوہری ہتھیار بنانے کیلئے ضروری ہے۔   محکمے نے مشورہ دیا ہے کہ اب ایران کے خلاف سخت سفارتی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔  ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ   ایران کو سیاسی طور پر تنہاکرنا ، بین الاقوامی فورم پر مذمتی قرار داد منظور کروانا  اور اضافی اقتصادی پابندیاں عائد کرنا  تہران کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر قائل کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں بلکہ ایران کے اطراف دوست ممالک میں فوجی تعیناتی میں اضافہ اور فوجی مشق ضروری ہے۔ محکمے نے ایران کا مقابلہ کرنے کیلئے فوج کو مخصوص تربیت کی بھی سفارش کی ہے۔ 
  اب وقت بہت کم رہ گیا ہے : ویانا مذاکرات کار
  ادھر ویانا میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔  اب آئندہ گفتگو کو ۱۰؍ دنوں کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔  اس دوران مغربی ممالک کے مذاکرات کاروں نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے کیلئے اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ اب یہ مہینوں کی نہیں بلکہ ہفتوں کی بات ہے۔ یورپی یونین کے نمائندے ایریکے مورا نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا’’کسی معاہدے کیلئے ہمارے پاس مہینے نہیں بلکہ صرف ہفتے بچے ہیں۔  مجھے امید ہے کہ آئندہ مذاکرات اسی سال منعقد ہوں گے۔‘‘  کچھ ایسی ہی با ت برطانیہ، فرانس اور  جرمنی نے بھی ایران کے جلد از جلد مذاکرات میں شامل ہونےپر اصرار کیا ہے۔  یاد رہے کہ مذاکرات کے ناکام ہونےکا مطلب  ہے کہ جوہری معاہدہ نہیں ہوگا اور معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایران پر معاشی پابندیاں سخت کی جائیں گی اور بہت ممکن ہے کہ اسرائیل کی ایما پر امریکہ ایران  کے خلاف جنگی کارروائی کرے جس کی اس نے پہلے ہی تیاری کر رکھی ہے۔
 اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب سے دبائو
  اسرائیل شروع سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بجائے اس کے خلاف جنگی کارروائی کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ اب جو بائیڈن کو اس کیلئے مجبور کرنے کی خاطر اسرائیل کے  ۳؍ ہزار فوجی عہدیداروں نے ایک خط لکھا ہے جس میں باورکروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اسرائیلی امن کیلئے خطرہ ہوگا۔  ان فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایران پر مزیدپابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔ ساتھ ہی اس کے بیلسٹک میزائلوں پربھی قدغن لگائی جانی چاہئے۔  دوسری  طرف انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی  میں سعودی عرب   کے نمائندے  عبداللہ بن خالد  نے کہا ہے کہ ’’ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کیلئے اس وقت جو بھی بین الاقوامی کوششیں جاری ہیں ، سعودی عرب ان کی حمایت کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ موقع کو ضائع نہ کیا جائے اور مزید وقت کے ساتھ ایک ایسے حل تک پہنچا جائے جو خطے میں امن و استحکام برقرار رکھ سکے۔‘‘ یادرہے کہ سعودی عرب  ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کیلئے ہر ممکن اقدام کا ساتھ دینے کی بات کہہ چکا ہے۔

iran Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK